Tafheem-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 49
قَالَ اٰمَنْتُمْ لَهٗ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَكُمْ١ۚ اِنَّهٗ لَكَبِیْرُكُمُ الَّذِیْ عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ١ۚ فَلَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ١ؕ۬ لَاُقَطِّعَنَّ اَیْدِیَكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ مِّنْ خِلَافٍ وَّ لَاُوصَلِّبَنَّكُمْ اَجْمَعِیْنَۚ
قَالَ : (فرعون) نے کہا اٰمَنْتُمْ لَهٗ : تم ایمان لائے اس پر قَبْلَ : پہلے اَنْ : کہ میں اٰذَنَ : اجازت دوں لَكُمْ : تمہیں اِنَّهٗ : بیشک وہ لَكَبِيْرُكُمُ : البتہ بڑا ہے تمہارا الَّذِيْ : جس نے عَلَّمَكُمُ : سکھایا ت میں السِّحْرَ : جادو فَلَسَوْفَ : پس جلد تَعْلَمُوْنَ : تم جان لو گے لَاُقَطِّعَنَّ : البتہ میں ضرور کاٹ ڈالوں گا اَيْدِيَكُمْ : تمہارے ہاتھ وَاَرْجُلَكُمْ : اور تمہارے پاؤں مِّنْ : سے۔ کے خِلَافٍ : ایکدوسرے کے خلاف کا وَّلَاُوصَلِّبَنَّكُمْ : اور ضرور تمہیں سولی دوں گا اَجْمَعِيْنَ : سب کو
فرعون نے کہا”تم موسیٰؑ کی بات مان گئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دیتا! ضرور یہ تمہارا بڑا ہے جس نے تمہیں جادُو سکھایا ہے۔ 38 اچھا، ابھی تمہیں معلوم ہوا جاتا ہے، میں تمہارے ہاتھ پاوٴں مخالف سمتوں سے کٹواوٴں گا اور تم سب کو سُولی پر چڑھادوں گا۔“ 39
سورة الشُّعَرَآء 38 یہاں چونکہ سلسلہ کلام کی مناسبت سے صرف یہ دکھانا ہے کہ ایک ضدی اور ہٹ دھرم آدمی کس طرح ایک صریح معجزہ دیکھ کر، اور اس کے معجزہ ہونے پر خود جادوگروں کی شہادت سن کر بھی اسے جادو کہے جاتا ہے، اس لیے فرعون کا صرف اتنا ہی فقرہ نقل کرنے پر اکتفا کیا گیا ہے، لیکن سورة اعراف میں تفصیل کے ساتھ یہ بتایا گیا ہے کہ فرعون نے بازی ہارتی دیکھ کر فوراً ہی ایک سیاسی سازش کا افسانہ گھڑ لیا۔ اس نے کہا اِنَّ ھٰذَا لَمَکْرٌ مَّکَرْتُمُوْہُ فِی الْمَدِیْنَۃِ لِتُخْرِجُوْا مِنْھَآ اَھْلَھَا " یہ ایک سازش ہے جو تم لوگوں نے مل کر اس دارالسلطنت میں تیار کی ہے تاکہ اس کے مالکوں کو اقتدار سے بےدخل کردو "۔ اس طرح فرعون نے عام الناس کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ جادوگروں کا یہ ایمان معجزے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ محض ملی بھگت ہے، یہاں آنے سے پہلے ان کے اور موسیٰ کے درمیان معاملہ طے ہوگیا تھا کہ یوں وہ موسیٰ کے مقابلے میں آ کر شکست کھائیں گے، اور نتیجے میں جو سیاسی انقلاب ہوگا اس کے مزے وہ اور یہ مل کر لوٹیں گے۔ سورة الشُّعَرَآء 39 یہ خوفناک دھمکی فرعون نے اپنے اس نظریے کو کامیاب کرنے کے لیے دی تھی کہ جادوگر دراصل موسیٰ ؑ کے ساتھ سازش کر کے آئے ہیں۔ اس کے پیش نظر یہ تھا کہ اس طرح یہ لوگ جان بچانے کے لیے سازش کا اعتراف کرلیں گے اور وہ ڈرامائی اثر کافور ہوجائے گا جو شکست کھاتے ہی ان کے سجدے میں گر کر ایمان لے آنے سے ان ہزارہا ناظرین پر مترتب ہوا تھا جو خود اس کی دعوت پر یہ فیصلہ کن مقابلہ دیکھنے کے لیے جمع ہوئے تھے اور جنہیں خود اس کے بھیجے ہوئے لوگوں نے یہ خیال دلایا تھا کہ مصری قوم کا دین و ایمان بس ان جادوگروں کے سہارے لٹک رہا ہے، یہ کامیاب ہوں تو قوم اپنے دین آبائی پر قائم رہ سکے گی ورنہ موسیٰ کی دعوت کا سیلاب اسے اور اس کے ساتھ فرعون کی سلطنت کو بھی بہا لے جائے گا۔
Top