Tafheem-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 41
قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِّیْۤ اٰیَةً١ؕ قَالَ اٰیَتُكَ اَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَةَ اَیَّامٍ اِلَّا رَمْزًا١ؕ وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ كَثِیْرًا وَّ سَبِّحْ بِالْعَشِیِّ وَ الْاِبْكَارِ۠   ۧ
قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب اجْعَلْ : مقرر فرما دے لِّيْٓ : میرے لیے اٰيَةً : کوئی نشانی قَالَ : اس نے کہا اٰيَتُكَ : تیری نشانی اَلَّا : کہ نہ تُكَلِّمَ : بات کرے گا النَّاسَ : لوگ ثَلٰثَةَ اَيَّامٍ : تین دن اِلَّا : مگر رَمْزًا : اشارہ وَاذْكُرْ : تو یاد کر رَّبَّكَ : اپنا رب كَثِيْرًا : بہت وَّسَبِّحْ : اور تسبیح کر بِالْعَشِيِّ : شام وَالْاِبْكَارِ : اور صبح
عرض کیا مالک! پھر کوئی نشانی میرے لیے مقرر فرما دے۔کہا”41 نشانی یہ ہے کہ تم تین دن تک لوگوں سے اشارہ کے سوا کوئی بات چیت نہ کرو گے(یا نہ کر سکو گے)۔ اِس دوران میں اپنے رب کو بہت یاد کرنا اور صبح وشام اس کی تسبیح کرتے رہنا“۔42
سورة اٰلِ عِمْرٰن 41 یعنی ایسی علامت بتادے کہ جب ایک پیر فرتوت اور ایک بوڑھی بانجھ کے ہاں لڑکے کی ولادت جیسا عجیب غیر معمولی واقعہ پیش آنے والا ہو تو اس کی اطلاع مجھے پہلے سے ہو۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن 42 اس تقریر کا اصل مقصد عیسائیوں پر ان کے اس عقیدے کی غلطی واضح کرنا ہے کہ وہ مسیح ؑ کو خدا کا بیٹا اور الٰہ سمجھتے ہیں۔ تمہید میں حضرت یحییٰ ؑ کا ذکر اس وجہ سے فرمایا گیا ہے کہ جس طرح مسیح ؑ کی ولادت معجزانہ طور پر ہوئی تھی اسی طرح ان سے چھ ہی مہینہ پہلے اسی خاندان میں حضرت یحییٰ کی پیدائش بھی ایک دوسری طرح کے معجزے سے ہوچکی تھی۔ اس سے اللہ تعالیٰ عیسائیوں کو یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ اگر یحیٰی ؑ کو ان کی اعجازی ولادت نے الٰہ نہیں بنایا تو مسیح ؑ محض اپنی غیر معمولی پیدائش کے بل پر الٰہ کیسے ہو سکتے ہیں۔
Top