Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 41
قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِّیْۤ اٰیَةً١ؕ قَالَ اٰیَتُكَ اَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَةَ اَیَّامٍ اِلَّا رَمْزًا١ؕ وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ كَثِیْرًا وَّ سَبِّحْ بِالْعَشِیِّ وَ الْاِبْكَارِ۠   ۧ
قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب اجْعَلْ : مقرر فرما دے لِّيْٓ : میرے لیے اٰيَةً : کوئی نشانی قَالَ : اس نے کہا اٰيَتُكَ : تیری نشانی اَلَّا : کہ نہ تُكَلِّمَ : بات کرے گا النَّاسَ : لوگ ثَلٰثَةَ اَيَّامٍ : تین دن اِلَّا : مگر رَمْزًا : اشارہ وَاذْكُرْ : تو یاد کر رَّبَّكَ : اپنا رب كَثِيْرًا : بہت وَّسَبِّحْ : اور تسبیح کر بِالْعَشِيِّ : شام وَالْاِبْكَارِ : اور صبح
اس نے کہا اے میرے رب تو میرے لیے کوئی نشانی ٹھہرا دے۔ فرمایا تیرے لیے نشانی یہ ہے کہ تو تین دن لوگوں سے بات نہ کرسکے گا مگر اشارے سے۔ اور اپنے رب کو بہت زیادہ یاد کیجیو اور صبح وشام اس کی تسبیح کیجیو
حضرت زکریا ؑ نے یہ باتیں ایک ہاتف غیبی سے سنی تھیں اور اچھی ساعت اور اچھے حالات میں سنی تھیں اس وجہ سے ان کو گمان تو یہی تھا کہ یہ بشارت من جانب اللہ ہی ہے، لیکن وہ نہایت متواضع، متقی اور محتاط بندے تھے اس وجہ سے دل کے ایک گوشے میں کھٹک یہ بھی تھی کہ ممکن ہے یہ اپنے ہی گنبد دل کی صدائے باز گشت سنائی دی ہو، ممکن ہے اس کے اندر نفس کی مخفی آرزؤوں کو کوئی دخل ہو جن سے شیطان نے کوئی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہو، اس وجہ سے انہوں نے اپنے رب سے درخواست کی کہ اے رب میرے لیے کوئی ایسی نشانی ٹھہرا دے جس سے مجھے یہ اطمینان ہوجائے کہ یہ بشارت تیری ہی طرف سے ہے، اس میں نفس یا شیطان کا کوئی دھوکا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ درخواست منظور فرمائی اور فرمایا کہ تمہارے لیے نشانی یہ ہے کہ تم تین شبانہ روز کسی سے کوئی بات زبان سے نہ کرسکوگے، صرف اشارے سے کرسکوگے، البتہ اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کی تسبیح کر سکوگے سو اس دوران میں زیادہ سے زیادہ اللہ کا ذکر کرنا اور شام و صبح اپنے پروردگار کی تسبیح میں مشغول رہنا۔ ظاہر ہے کہ ایک خاص مدت کے لیے آدمی پر ایک ایسی حالت کا طاری ہوجانا کہ وہ زبان سے کوئی دنیوی قسم کی بات تو نہ کرسکے لیکن تسبیح و تہلیل کرسکے کسی شیطانی تصرف کا نتیجہ نہیں ہوسکتی، یہ ہوسکتی ہے تو رحمانی تصرف ہی کا کرشمہ ہوسکتی ہے۔ کسی شیطانی اثر سے یہ بات پیدا ہوتی تو اس کا نتیجہ اس کے بالکل برعکست ظاہر ہونا تھا، یعنی آدمی اپنی دنیا داری کی باتیں تو کرسکتا لیکن اللہ اللہ کرنا اس پر شاق گزرتا۔ اگر حضرت زکریا پر یہ حالت غیر اختیار طور پر طاری کردی گئی تو یقیناً یہ اس بات کی ایک قطعی نشانی تھی کہ ان کو بیٹے کی جو بشارت ملی ہے من جانب اللہ ہے، اس میں شیطانی دھوکے کو کوئی دخل نہیں ہے۔ قرآن نے یہاں ضمنا اس بات کی تردید بھی کردی جو انجیل لوقا میں بیان ہوئی ہے کہ حضرت زکریا کو جو یہ حالت پیش آئی وہ ان کے اس جرم کی سزا کے طور پر تھی کہ انہوں نے فرشتے کی بات کا اعتبار نہ کیا اور سوال کر بیٹھے کہ مجھے اس کی کوئی نشانی دی جائے۔ جو لوگ قرآن کے اسلوبِ بیان سے اچھی طرح آشنا نہیں ہیں ان کو ممکن ہے یہ شبہ پیش آئے کہ آیت میں یہ تو مذکور ہے کہ تم تین دن کسی سے بجز اشارہ کے بات نہ کرسکو گے لیکن اس بات کی تصریح نہیں ہے کہ ذکر و تسبیح کرسکو گے۔ اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ آیت میں اس تصریح کی جگہ تسبیح و تہلیل کی ہدایت رکھ دی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ہدایت اسی لیے کی گئی ہے کہ وہ یہ کام کرسکتے تھے۔ اگر اس ہدایت کے ساتھ وہ تصریح بھی ہوتی تو یہ ایک بےفائدہ طوالت ہوتی جو قرآن کی بلاغت کے شایانِ شان نہیں ہے۔ بِالْعَشِيِّ وَالْاِبْكَارِ ، اور اس قسم کے دوسرے اسالیب، ہم دوسرے مقام میں واضح کرچکے ہیں کہ احاطہ کے مفہوم پر دلیل ہوتے ہیں۔ جس طرح ہم بولتے ہیں صبح و شام، رات دن اللہ کو یاد رکھو۔
Top