Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 73
قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِّیْۤ اٰیَةً١ؕ قَالَ اٰیَتُكَ اَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَةَ اَیَّامٍ اِلَّا رَمْزًا١ؕ وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ كَثِیْرًا وَّ سَبِّحْ بِالْعَشِیِّ وَ الْاِبْكَارِ۠   ۧ
قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب اجْعَلْ : مقرر فرما دے لِّيْٓ : میرے لیے اٰيَةً : کوئی نشانی قَالَ : اس نے کہا اٰيَتُكَ : تیری نشانی اَلَّا : کہ نہ تُكَلِّمَ : بات کرے گا النَّاسَ : لوگ ثَلٰثَةَ اَيَّامٍ : تین دن اِلَّا : مگر رَمْزًا : اشارہ وَاذْكُرْ : تو یاد کر رَّبَّكَ : اپنا رب كَثِيْرًا : بہت وَّسَبِّحْ : اور تسبیح کر بِالْعَشِيِّ : شام وَالْاِبْكَارِ : اور صبح
زکریا (علیہ السلام) نے عرض کی اے میرے رب ! اس کے متعلق میرے لیے کوئی نشانی ٹھہرا دے ، ارشاد الٰہی ہوا تیرے لیے نشانی یہ ہے کہ تین دن رات تک عام بات چیت نہ کر مگر اشارہ کنایہ سے اور اپنے رب کا کثرت کے ساتھ ذکر کر اور صبح و شام اس کی حمد و ثنا میں مشغول رہ
اس خاص موقع پر خاص طرح کا شکریہ ادا کرنے کا شوق : 102: زکریا (علیہ السلام) کا یہ اشراد کہ اے میرے رب ! اس بشارت کے متعلق میرے لیے کوئی بات بطور شکریہ نشانی ٹھہرا دے۔ جس طریقہ سے میں تیرے اس انعام بےپایاں کا شکریہ ادا کرسکوں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہوئی خبر میں کوئی شک اور ابہام تو رہ نہیں جاتا اب یہ بات تو نہیں کہی جاسکتی کہ شایدبچہ ہو یا نہ ہو۔ ظاہر ہی ہے کہ بچہ تو ہوگا اور پھر بچہ بھی کوئی معمولی بچہ نہیں ہوگا بلکہ ایک شاندار بچہ ہوگا جس کی عمر کی بھی ایک حد تک وضاحت فرما دی گئی ہے اور پھر یہ بھی ہوا کہ وہ بچہ تیرا نبی بنے گا۔ گویا ” یَرِثُنِىْ وَیَرِثُ اٰلِ یَعْقُوْب “ کی دعا کو قبولیت بخشی گئی۔ اے میرے رب ! تیرے اس انعام کا میں شکریہ کس طرح ادا روں اس کا کوئی طریقہ تو میرے دل میں ڈال دے یعنی مجھے الہام فرما دے جو تیرے اس شاندار عطیہ کی شان کے مطابق ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ تیرا ، میرے شکریہ کا طریقہ یہ ہے کہ تین دن قیام مسجد میں رہ کر اعتکاف کے طریقہ پر پورا کردے تیری طرف سے یہ بطور شکریہ ہم نے قبول کرلیا اور جس طرح اعتکاف کی حالت میں عام بول چال بند کردی جاتی ہے تو بھی بند کر دے اور یہ گویا نشانی ہوئی اس بات کی کہ تو نے اللہ کی اس نعمت کا شکریہ ادا کیا اور تیرے اس اعتکاف سے لوگوں کو بھی یہ بات معلوم ہوجائے گی جب یہ بات کھلے گی کہ آپ نے یہ معمول کی عبادت کے علاوہ عبادت کا طریقہ کیوں اختیار کیا ؟ اس میں عام بول چال تو بند رہے گی مگر ہاں ! کسی سے کوئی بات کرنا لازمی اور ضروری ہو تو اشارہ کنایہ سے کی جاسکتی ہے جس طرح اعتکاف کے دوران کیا جاتا ہے۔ ” ثَلٰثَةِ اَیَّامٍ “ تین دن تک یعنی آپ کا یہ اعتکاف تین دن تک برابر چلتا رہے گا دن ہو یا رات اس لیے سورة مریم میں ” ثَلٰثَةِ لَیَالٍ “ یعنی تین راتیں کہہ کر ذکر کیا گیا اور حقیقت یہی ہے کہ جب دن فرمایا تو رات ساتھ شامل تھی اور رات فرمایا تو دن خود بخود شامل ہوگیا۔ یعنی برابر تین دن رات اعتکاف کی حالت میں رہو اور قرآن کریم نے اس بات کی مزید وضاحت فرما دی کہ یہ تین دن رات کی خاموشی صرف بطور خاموشی نہیں ہے بلکہ اس کا ایک خاص مقصد ہے یہ مقصد چپ رہنا نہیں ہے اور جو مقصد ہے وہ یہ ہے کہ عبادت الٰہی میں پوری گرم جوشی دکھائی جائے اور نبوت کے پروگرام اور سا کے بوجھ کو خوب اچھی طرح اٹھانے کا عہد اپنے مالک حقیقی سے تازہ کیا جائے اور صبح و شام اللہ کا ذکر جاری رہے۔ دل سے بھی اور زبان سے بھی۔ گویا اس جملہ کو ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی تردید کردی جنہوں نے یہ کہا کہ زکریا (علیہ السلام) نے نشانی طلب کی تھی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی زبان کو تین رات تک بند کردیا تھا تاکہ وہ کسی سے بات چیت نہ کرسکیں۔ اللہ تعالیٰ نے خود اس کی وضاحت فرما دی کہ ایسا بالکل نہیں کہ آپ کی زبان بطور مرض یا سزا بالکل بند ہوجائے اور آپ بالکل گونگے ہوجائیں جیسا کہ انجیل میں بتایا گیا ہے بلکہ ذکر و تسبیح میں آپ برابر لگے رہیں گے البتہ لوگوں سے عام گفتگو نہ کریں گے اور کمال بھی اسی میں ہے کہ انسان کی زبان بند نہ ہو بلکہ وہ عام گفتگو کو بند کر دے۔ بولنے کی طاقت ہونے کے باوجود انسان لغویات سے بچے یہ تو کمال ہے لیکن اگر کوئی بات غلو منہ سے نکال لینے پر قادر ہی نہ رہے اور پھر وہ کوئی لغو بات نہ کرے تو کمال کیونکر ہوا وہ تو مجبوری ہوئی۔ نہ معلوم ہمارے ہاں ہر بات کا بتنگڑ بنانے کی کیوں عادت ہے ؟ انسان کا کام تو یہ ہے کہ جب وہ کسی کی کوئی بات سے تو اس کو خود بھی سمجھنے کی کوشش کرے۔ جو کوئی کہے مان لینا تو کوئی کمال کی بات نہیں۔ ہم اس بات کے بالکل پابند نہیں کہ جو کچھ تورات و انجیل میں اس وقت موجود ہے اس کے ماننے پر مجبور ہوں ہاں ! تورات و انجیل کا وہ حصہ جو قرآن کریم نے محفوظ کرلیا ہمارا ایمان ہے کہ وہ انجیل میں تھا۔ اس وقت موجود ہو تو بھی اور اگر نہ موجود ہو تو بھی کیونکہ تورات و انجیل میں تحریف یہی نہیں کہ ایک بار ہوئی ہو بلکہ بار بار ہوتی رہتی ہے۔ آج بھی اگر آپ تورات و انجیل کے مختلف نسخے اکٹھے کر کے ان کو آپس میں ملائیں تو بہت فرق نکلے گا۔ کیونکہ جب ایک بار کمی بیشی ہوگئی تو اب ہوتی ہی رہے گی اور اس سے ان کا محفوظ رہنا ممکن ہی نہ رہا۔ چونکہ انجیل کی یہ عبارت تھی کہ ” اور دیکھو جس دن تک یہ باتیں واقع نہ ہو لیں تو چپکا رہے گا اور بول نہ سکے گا اس لیے کہ تو نے میری باتوں کا جو اپنے وقت پر ہوں گی یقین نہ کیا۔ جب وہ باہر آیا تو ان سے بول نہ سکا۔ پس انہوں نے معلوم کیا کہ اس نے مقدس رویا دیکھی اور وہ ان سے اشارے کرتا تھا اور وہ گونگا ہی رہا۔ “ (لوقا 1 : 22 ۔ 23) قرآن کریم جو تمام صحیفوں پر مہیمن و نگران اور نگہبان ہے اور ان کی تمام غلطیوں اور غلط بیانیوں کی تصحیح کرتا جاتا ہے یہاں بھی اس نے حسب معمول اپنا فرض ادا کیا اور حضرت زکریا (علیہ السلام) سے یہ بہتان رفع کر کے صحیح صورت حال کو بیان کردیا کہ ایک شکریہ ادا کرنے کی علامت غیبی تھی کہ انہوں نے خود درخواست کی تھی جس پر یہ ہدایت الٰہی نازل ہوئی تھی آپ اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تہلیل میں لگے رہو اور عام بول چال بند کردو اور یہ حالت اعتکاف کی مدت بھی خود ہی متعین فرما دی اور زکریا (علیہ السلام) نے ایسا ہی کیا اور تسبیح و تہلیل کے اوقات میں دو اوقات کا خاص ذکر فرما دیا پہلا وقت ” عش “ تھا جو زوال آفتاب سے لے کر رات کے اندھیرے تک کا سارا وت اس میں اور ” ابکار “ طلوع فجر سے دن چڑھے تک کا وقت اس میں شامل ہے اور محاورہ میں مراد صبح و شام کے اوقات کی تعین و تخصیص ہی نہیں بلکہ اس سے مراد دوام بھی ہو سکتا ہے۔ یعنی صبح سے شام اور شام سے صبح گویا پورے اوقات حوائج و ضروریات انسانی کے علاوہ سارا وقت اس طرح صرف کرو۔
Top