Tafseer-e-Majidi - Aal-i-Imraan : 41
قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِّیْۤ اٰیَةً١ؕ قَالَ اٰیَتُكَ اَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَةَ اَیَّامٍ اِلَّا رَمْزًا١ؕ وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ كَثِیْرًا وَّ سَبِّحْ بِالْعَشِیِّ وَ الْاِبْكَارِ۠   ۧ
قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب اجْعَلْ : مقرر فرما دے لِّيْٓ : میرے لیے اٰيَةً : کوئی نشانی قَالَ : اس نے کہا اٰيَتُكَ : تیری نشانی اَلَّا : کہ نہ تُكَلِّمَ : بات کرے گا النَّاسَ : لوگ ثَلٰثَةَ اَيَّامٍ : تین دن اِلَّا : مگر رَمْزًا : اشارہ وَاذْكُرْ : تو یاد کر رَّبَّكَ : اپنا رب كَثِيْرًا : بہت وَّسَبِّحْ : اور تسبیح کر بِالْعَشِيِّ : شام وَالْاِبْكَارِ : اور صبح
(زکریا علیہ السلام) بولے اے میرے پروردگار میرے لئے کوئی نشانی مقرر کردے۔108 ۔ ارشاد ہوا کہ تیرے لئے نشانی یہ ہے کہ تو لوگوں سے بات نہ کرسکے گا تین دن تک بجز اشارہ کے،109 ۔ اور اپنے پروردگار کو بکثرت یاد کرتے رہو اور تسبیح کرتے رہو دن ڈھلے بھی اور صبح بھی،110 ۔
108 ۔ (جس سے مجھے معلوم ہوجائے کہ گھر میں حمل ہے اور زمانہ ولادت قریب ہے اور میں ادائے شکر کا سامان کرسکوں) (آیت) ” ایۃ “۔ ہر ایسی چیز ہے جس سے قدرت الہی نصرت غیبی خاص طور پر ظاہر ہورہا ہے۔ ایسی چیز کو قدرۃ معمول عام سے کی قدر ہٹا ہونا چاہیے اور اس واقعہ میں اعجازی رنگ ضرور ہونا چاہیے۔ 109 ۔ (اور تسبیح و عبادت الہی میں اس حال میں بھی جاری رہے گی) (آیت) ” الاتکلم الناس “۔ انجیل کے بیان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کوئی بڑی معصیت حضرت زکریا (علیہ السلام) سے سرزد ہوگئی تھی۔ اور اس کی سزا میں ان کی قوت گویائی چند روز کے لئے سلب کرلی گئی تھی۔” اور دیکھ جس دن تک یہ باتیں واقع نہ ہولیں تو چپکا رہے گا اور بول نہ سکے گا۔ اس لیے کہ تو نے میری باتوں کا جو اپنے وقت پر ہوں گی یقین نہ کیا۔ جب وہ باہر آیا تو ان سے بول نہ سکا۔ پس انہوں نے معلوم کیا کہ اس نے مقدس رؤیا دیکھی ہے اور وہ ان سے اشارے کرتا تھا۔ اور وہ گونگاہی رہا “۔ (لوقا، 1:20، 22) قرآن مجید جو تمام قدیم صحیفوں پر مہیمن یا نگران ونگہبان ہے اور ان کی تمام غلطیوں اور غلط بیانیوں کی تصحیح کرتا جاتا ہے، یہاں بھی اس نے حسب معمول اپنا فرض ادا کیا اور حضرت زکریا (علیہ السلام) سے یہ بہتان رفع کرکے صحیح صورت حال یہ بیان کی کہ ایک علامت غیبی عطاہوئی تھی کہ آپ تسبیح وذکر الہی تو اپنی جگہ پر بدستور کرتے رہیں گے۔ البتہ لوگوں سے بات چیت کی قوت آپ کو تین دن کے لیے حاصل نہ رہے گی۔ (آیت) ” تکلم الناس “۔ میں الناس “ ہی تو فقرہ کی جان ہے۔ انما خص تکلیم الناس لیعلم انہ یحبس لسانہ عن القدرۃ علی تکلیمھم خاصۃ مع ابقاء قدرتہ علی التکلم بذکر اللہ (مدارک) (آیت) ” ثلثہ ایام “۔ تین دن اور تین راتیں۔ دن کہنے سے رات اس میں تبعا شامل ہوگئی ہے۔ سکوت طویل خصوصا صوم سکوت کی حالت میں قدیم مذاہب وادیان میں جزء عبادت رہ چکا ہے۔ (آیت) ” رمزا “۔ رمز میں سرکے اشارے بھی آگئے اور ہاتھوں کے بھی۔ انجیل میں ہے :۔ ” اور وہ ان سے اشارے کرتا تھا “۔ (لوقا، 1: 13) فقہاء مفسرین نے آیت سے استنباط کیا ہے کہ اشارہ بھی کلام کا قائمقام ہے۔ فی ھذہ الایۃ دلیل علی ان الاشارۃ تنزل منزلۃ الکلام وذلک موجود فی کثیر من السنۃ (قرطبی) 110 ۔ (دل و زبان سے) (آیت) ” واذکر۔ وسبح “۔ یعنی ذکر الہی وتسبیح کا شغل دل میں بھی جاری ہے اور زبان سے بھی یہ نہ ہوگا کہ آپ کی زبان بہ طور مرض یا عذاب الہی کے مطلقا بند ہوجائے اور آپ بالکل ” گونگے “ ہوجائیں (جیسا کہ انجیل میں درج ہے) بلکہ ذکر وتسبیح میں آپ برابر لگے رہیں گے۔ البتہ لوگوں سے گفتگو پر قادر نہ رہیں گے اور یہی اس امر کی علامت ہوگی کہ حمل قرار پا گیا اور ظہور یحییٰ (علیہ السلام) کا زمانہ قریب آگیا۔ عشی۔ زوال آفتاب سے لے کر رات کے اندھیرے تک کا سارا وقت اس میں آگیا۔ العشی من حین ان تزول الشمس الی ان تغیب (کشاف) (آیت) ” ابکار “۔ طلوع فجر سے دن چڑھے تک کا وقت اس میں شامل ہے۔ الابکار من طلوع الفجر الی وقت الضحی (کشاف) محاورہ میں مراد صبح وشام کے اوقات کی تعیین و تخصیص ہی نہیں بلکہ دوام بھی ہوسکتی ہے۔
Top