Tafheem-ul-Quran - Al-Ahzaab : 45
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ : بیشک ہم نے آپ کو بھیجا شَاهِدًا : گواہی دینے والا وَّمُبَشِّرًا : اور خوشخبری دینے والا وَّنَذِيْرًا : اور ڈر سنانے والا
اے نبیؐ 81 ،ہم نے تمہیں بھیجا ہے گواہ بنا کر 82 ،  بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر 83
سورة الْاَحْزَاب 81 مسلمانوں کو نصیحت کرنے کے بعد اب اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو خطاب کر کے چند کلمات تسکین ارشاد فرماتا ہے۔ مقصود کلام یہ ہے کہ آپ کو ہم نے یہ کچھ مراتب عالیہ بخشے ہیں، آپ کی شخصیت اس سے بہت بلند ہے کہ یہ مخالفین اپنے بہتان و افترا کے طوفان اٹھا کر آپ کا کچھ بگاڑ سکیں۔ لہٰذا آپ نہ ان کی شرارتوں سے رنجیدہ ہوں اور نہ ان کے پروپیگینڈے کو پرکاہ کے برابر بھی کوئی وقعت دیں۔ اپنے فرائض منصبی ادا کیے جائیے اور انہیں جو کچھ ان کا جی چاہے بکنے دیجیے۔ ان کے ساتھ ضمناً تمام خلق کو، جس میں مومن و کافر سب شامل ہیں، یہ بتایا گیا ہے کہ ان کا سابقہ کسی معمولی انسان سے نہیں ہے بلکہ ایک بہت بڑی شخصیت سے ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے بلند ترین مقام پر سرفراز فرمایا ہے۔ سورة الْاَحْزَاب 82 نبی کو " گواہ " بنانے کا مفہوم اپنے اندر بڑی وسعت رکھتا ہے جس میں تین قسم کی شہادتیں شامل ہیں۔ ایک قولی شہادت، یعنی یہ کہ اللہ کا دین جن حقائق اور اصولوں پر مبنی ہے، نبی ان کی صداقت کا گواہ بن کر کھڑا ہو اور دنیا سے صاف صاف کہہ دے کہ وہی حق ہیں اور ان کے خلاف جو کچھ ہے باطل ہے۔ خدا کی ہستی اور اس کی توحید، ملائکہ کا سجود، وحی کا نزول، حیات بعد الموت کا وقوع اور جنت و دوزخ کا ظہور خواہ دنیا کو کیسا ہی عجیب معلوم ہو اور دنیا ان باتوں کے پیش کرنے والے کا مذاق اڑائے یا اسے دیوانہ کہے، مگر نبی کسی کی پروا کیے بغیر اٹھے اور ہانک پکار کر کہہ دے کہ یہ سب کچھ حقیقت ہے اور گمراہ ہیں وہ لوگ جو اسے نہیں مانتے۔ اسی طرح اخلاق اور تہذیب اور تمدن کے جو تصورات اقدار، اصول اور ضابطے خدا نے اس پر منکشف کیے ہیں، انہیں اگر ساری دنیا غلط کہتی ہو اور ان کے خلاف چل رہی ہو تب بھی نبی کا کام یہ ہے کہ انہی کو علی الاعلان پیش کرے اور ان تمام خیالات اور طریقوں کو غلط قرار دے جو ان کے خلاف دنیا میں رائج ہوں۔ اسی طرح جو کچھ خدا کی شریعت میں حلال ہے نبی اس کو حلال ہی کہے خواہ ساری دنیا اسے حرام سمجھتی ہو، اور جو کچھ خدا کی شریعت میں حرام ہے نبی اس کو حرام ہی کہے خواہ ساری دنیا اسے حلال و طیب قرار دے رہی ہو۔ دوسرے عملی شہادت، یعنی یہ کہ نبی اپنی پوری زندگی میں اس مسلک کا عملاً مظاہرہ کرے جسے دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے وہ اٹھا ہے۔ جس چیز کو وہ برائی کہتا ہے اس کے ہر شائبے سے اس کی زندگی پاک ہو۔ جس چیز کو وہ بھلائی کہتا ہے، اس کی اپنی سیرت میں وہ پوری شان کے ساتھ جلوہ گر ہو۔ جس چیز کو وہ فرض کہتا ہے اسے ادا کرنے میں وہ سب سے بڑھ کر ہو۔ جس چیز کو وہ گناہ کہتا ہے اس سے بچنے میں کوئی اس کی برابری نہ کرسکے۔ جس قانون حیات کو وہ خدا کا قانون کہتا ہے اسے نافذ کرنے میں وہ کوئی کسر نہ اٹھا رکھے۔ اس کا اپنا اخلاق و کردار اس بات پر گواہ ہو کہ وہ اپنی دعوت میں کس قدر سچا اور کتنا مخلص ہے۔ اور اس کی ذات اس کی تعلیم کا ایسا مجسم نمونہ ہو جسے دیکھ کر ہر شخص معلوم کرلے کہ جس دین کی طرف وہ دنیا کو بلا رہا ہے وہ کس معیار کا انسان بنانا چاہتا ہے، کیا کردار اس میں پیدا کرنا چاہتا ہے، اور کیا نظام زندگی اس سے برپا کرانا چاہتا ہے۔ تیسرے اخروی شہادت، یعنی آخرت میں جب اللہ کی عدالت قائم ہو اس وقت نبی اس امر کی شہادت دے کہ جو پیغام اس کے سپرد کیا گیا تھا وہ اس نے بےکم وکاست لوگوں تک پہنچا دیا اور ان کے سامنے اپنے قول اور عمل سے حق واضح کردینے میں اس نے کوئی کوتاہی نہیں کی۔ اسی شہادت پر یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ ماننے والے کس جزا کے، اور نہ ماننے والے کس سزا کے مستحق ہیں۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ نبی ﷺ کو شہادت کے مقام پر کھڑا کر کے اللہ تعالیٰ نے کتنی بڑی ذمہ داری آپ پر ڈالی تھی اور وہ کیسی عظیم شخصیت ہونی چاہیے جو اس مقام بلند پر کھڑی ہو سکے۔ ظاہر بات ہے کہ نبی ﷺ سے دین حق کی قولی اور عملی شہادت پیش کرنے میں ذرہ برابر بھی کوئی کوتاہی نہیں ہوئی ہے، تبھی تو آخرت میں آپ ﷺ یہ شہادت دے سکیں گے کہ میں نے لوگوں پر حق پوری طرح واضح کردیا تھا، اور تبھی اللہ کی حجت لوگوں پر قائم ہوگی۔ ورنہ اگر معاذاللہ آپ ہی سے یہاں شہادت ادا کرنے میں کوئی کسر رہ گئی ہو تو نہ آپ آخرت میں ان پر گواہ ہو سکتے ہیں اور نہ منکرین کے خلاف مقدمہ ثابت ہوسکتا ہے۔ بعض لوگوں نے اس شہادت کو یہ معنی پہنانے کی کوشش کی ہے کہ نبی ﷺ آخرت میں لوگوں کے اعمال پر شہادت دیں گے، اور اس سے وہ یہ استدلال کرتے ہیں کہ حضور ﷺ تمام اعمال کو دیکھ رہے ہیں، ورنہ بےدیکھے شہادت کیسے دے سکیں گے۔ لیکن قرآن مجید کی رو سے یہ تاویل قطعاً غلط ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کے لوگوں کے اعمال پر شہادت قائم کرنے کے لیے تو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرا ہی انتظام فرمایا ہے۔ اس غرض کے لیے اس کے فرشتے ہر شخص کا نامۂ اعمال تیار کر رہے ہیں (ملاحظہ ہو ق ٓ، آیات 17۔ 18 اور الکہف۔ آیت 149) اور اس کے لیے وہ لوگوں کے اپنے اعضاء سے بھی گواہی لے لے گا (یٰسٓ65۔ حم السجدہ 20۔ 21) رہے انبیاء علیم السلام، تو ان کا کام بندوں کے اعمال پر گواہی دینا نہیں بلکہ اس بات پر گواہی دینا ہے کہ بندوں تک حق پہنچا دیا گیا گیا تھا۔ قرآن صاف فرماتا ہے " یَوْمَ یَجْمَعُ اللّٰہُ الرُّسُلَ فَیَقُوْلُ مَا ذَآ اُجِبْتُمْ قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ۔ (المائدہ۔ 109) جس روز اللہ تمام رسولوں کو جمع کرے گا، کہ تمہاری دعوت کا کیا جواب دیا گیا، تو وہ کہیں گے کہ ہم کو کچھ خبر نہیں، تمام غیب کی باتوں کو جاننے والے تو آپ ہی ہیں۔ اور اسی سلسلے میں حضرت عیسیٰ ؑ کے متعلق قرآن کہتا ہے کہ جب ان سے عیسائیوں کی گمراہی کے متعلق سوال ہوگا تو وہ عرض کریں گے وَکُنْتُ عَلَیْھِمْ شَھِیْداً مَّادُمْتُ فِیْھِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ۔ (المائدہ۔ 117) میں جب تک ان کے درمیان تھا اسی وقت تک ان پر گواہ تھا۔ جب آپ نے مجھے اٹھا لیا تو آپ ہی ان پر نگراں تھے۔ یہ آیات اس باب میں بالکل صریح ہیں کہ انبیا (علیہم السلام) اعمال خلق کے گواہ نہیں ہوں گے۔ پھر گواہ کس چیز کے ہو نگے ؟ اس کا جواب قرآن اتنی ہی صراحت کے ساتھ یہ دیتا ہے وَکذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّتہً وَّسَطاً لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآءَ عَلی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْداً۔ (البقرہ۔ 143) اور اے مسلمانو ! اسی طرح ہم نے تم کو ایک امت وَسَط بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہوں۔ وَیَوْمَ نَبْعَثُ فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ شَھِیْداً عَلَیْھِمْ مِّنْ اَنْفُسِھِمْ وَجِئْنَا بِکَ شَھِیْداً عَلیٰ ھٰٓؤُلَآءِ۔ (النحل۔ 89) اور جس روز ہم ہر امت میں انہی کے اندر سے ایک گواہ اٹھا کھڑا کریں گے جو ان پر گواہی دے گا اور (اے محمد) تمہیں ان لوگوں پر گواہ کی حیثیت سے لائیں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کے روز نبی ﷺ کی شہادت اپنی نوعیت میں اس شہادت سے مختلف نہ ہوگی جسے ادا کرنے کے لیے حضور ﷺ کی امت کو اور ہر امت پر گواہی دینے والے شہداء کو بلایا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ اگر یہ شہادت اعمال کی ہو تو ان سب کا بھی حاضر و ناظر ہونا لازم آتا ہے۔ اور اگر یہ گواہ صرف اس امر کی شہادت دینے کے لیے بلائے جائیں گے کہ خلق تک اس کے خالق کا پیغام پہنچ گیا تھا تو لامحالہ حضور ﷺ بھی اسی غرض کے لیے پیش ہوں گے۔ اسی مضمون کی تائید وہ احادیث بھی کرتی ہیں جن کو بخاری، مسلم، ترمذی، ابن ماجہ امام احمد وغیرہم نے عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عباس، ابو الدرداء، انس بن مالک اور بہت سے دوسرے صحابہ ؓ سے نقل کیا ہے، جن کا مشترک مضمون یہ ہے کہ نبی ﷺ قیامت کے روز اپنے بعض اصحاب کو دیکھیں گے کہ وہ لائے جا رہے ہیں، مگر وہ آپ ﷺ کی طرف آنے کے بجائے دوسرے رخ پر جا رہے ہوں گے یا دھکیلے جا رہے ہوں گے۔ حضور ﷺ ان کو دیکھ کر عرض کریں گے کہ خدایا، یہ تو میرے صحابی ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تم نہیں جانتے کہ تمہارے بعد انہوں نے کیا کرتوت کیے ہیں۔ یہ مضمون اتنے صحابہ سے اتنی کثیر سندوں کے ساتھ نقل ہوا ہے کہ اس کی صحت میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں۔ اور اس سے یہ بات صریحاً ثابت ہوتی ہے کہ نبی ﷺ اپنی امت کے ایک ایک شخص اور اس کی ایک ایک حرکت کے شاہد قطعاً نہیں ہیں۔ رہی وہ حدیث جس میں یہ ذکر آیا ہے کہ حضور ﷺ کے سامنے آپ کی امت کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں، تو وہ کسی طرح بھی اس مضمون سے متعارض نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس کا حاصل صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حضور ﷺ کو امت کے حالات سے باخبر رکھتا ہے۔ اس کے یہ معنی کب ہیں کہ حضور ﷺ ہر شخص کے اعمال کا عینی مشاہدہ فرما رہے ہیں۔ سورة الْاَحْزَاب 83 یہاں اس فرق کو ملحوظ رکھیے کہ کسی شخص کا بطور خود ایمان و عمل صالح پر اچھے انجام کی بشارت دینا اور کفر وبد عملی پر برے انجام سے ڈرانا اور بات ہے اور کسی کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبشر و نذیر بنا کر بھیجا جانا بالکل ہی ایک دوسری بات۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس منصب پر مامور ہو وہ تو اپنی بشارت اور اپنے انذار کے پیچھے لازماً ایک اقتدار رکھتا ہے جس کی بنا پر اس کی بشارتوں اور اس کی تنبیہوں کو قانونی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے۔ اس کا کسی کام پر بشارت دینا یہ معنی رکھتا ہے کہ جس احکم الحاکمین کی طرف سے وہ بھیجا گیا ہے وہ اس کام کے پسندیدہ اور مستحق اجر ہونے کا اعلان کر رہا ہے، لہٰذا وہ فرض یا واجب یا مستحب ہے اور اس کا کرنے و الا ضرور اجر پائے گا۔ اور اس کا کسی کام کے برے انجام کی خبر دینا یہ معنی رکھتا ہے کہ قادر مطلق اس کام سے منع کر رہا ہے لہٰذا وہ ضرور گناہ اور حرام ہے اور یقیناً اس کا مرتکب سزا پائے گا۔ یہ حیثیت کسی غیر مامور کی بشارت اور تنبیہ کو کبھی حاصل نہیں ہو سکتی۔
Top