Tafheem-ul-Quran - Al-Hadid : 24
اِ۟لَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ وَ یَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ١ؕ وَ مَنْ یَّتَوَلَّ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ
الَّذِيْنَ : وہ لوگ يَبْخَلُوْنَ : جو بخل کرتے ہیں وَيَاْمُرُوْنَ النَّاسَ : اور حکم دیتے ہیں لوگوں کو بِالْبُخْلِ ۭ : بخل کا وَمَنْ : اور جو کوئی يَّتَوَلَّ : روگردانی کرتا ہے فَاِنَّ اللّٰهَ : تو بیشک اللہ تعالیٰ هُوَ الْغَنِيُّ : وہ بےنیاز ہے الْحَمِيْدُ : تعریف والا ہے
جو خود بُخل  کرتے ہیں اور دوسروں  کوبُخل کرنے پر اُکساتے ہیں۔ 43 اب اگر کوئی رُوگردانی کرتا ہے تو اللہ بےنیاز اور ستودہ صفات ہے۔ 44
سورة الْحَدِیْد 43 یہ اشارہ ہے اس سیرت کی طرف جو خود مسلم معاشرے کے منافقین میں اس وقت سب کو نظر آ رہی تھی۔ ظاہری اقرار ایمان کے لحاظ سے ان میں اور مخلص مسلمانوں میں کوئی فرق نہ تھا۔ لیکن اخلاص کے فقدان کی وجہ سے وہ اس تربیت میں شامل نہ ہوئے تھے جو مخلصین کو دی جا رہی تھی، اس لیے ان کا حال یہ تھا کہ جو ذرا سی خوشحالی اور مشیخت ان کو عرب کے ایک معمولی قصبے میں میسر آئی ہوئی تھی وہی ان کے چھوٹے سے ظرف کو پھلائے دے رہی تھی، اسی پر وہ پھٹے پڑتے تھے، اور دل کی تنگی اس درجے کی تھی کہ جس خدا پر ایمان لانے اور جس رسول کے پیرو ہونے اور جس دین کو ماننے کا دعویٰ کرتے تھے اس کے لیے خود ایک پیسہ تو کیا دیتے، دوسرے دینے والوں کو بھی یہ کہہ کہہ کر روکتے تھے کہ کیوں اپنا پیسہ اس بھاڑ میں جھونک رہے ہو۔ ظاہر بات ہے کہ اگر مصائب کی بھٹی گرم نہ کی جاتی تو اس کھوٹے مال کو، جو اللہ کے کسی کام کا نہ تھا، زر خالص سے الگ نہ کیا جاسکتا تھا، اور اس کو الگ کیے بغیر کچے پکے مسلمانوں کی ایک مخلوط بھیڑ کو دنیا کی امامت کا وہ منصب عظیم نہ سونپا جاسکتا تھا جس کی عظیم الشان برکات کا مشاہدہ آ خرکار دنیا نے خلافت راشدہ میں کیا۔ سورة الْحَدِیْد 44 یعنی یہ کلمات نصیحت سننے کے بعد بھی اگر کوئی شخص اللہ اور اس کے دین کے لیے خلوص، فرمانبرداری اور ایثار و قربانی کا طریقہ اختیار نہیں کرتا اور اپنی اسی کجروی پر اڑا رہنا چاہتا ہے جو اللہ کو سخت ناپسند ہے، تو اللہ کو اس کی کچھ پروا نہیں۔ وہ غنی ہے، اس کی کوئی حاجت ان لوگوں سے اٹکی ہوئی نہیں ہے۔ اور وہ ستودہ صفات ہے، اس کے ہاں اچھی صفات رکھنے والے لوگ ہی مقبول ہو سکتے ہیں، بد کردار لوگ اس کی نگاہ التفات کے مستحق نہیں ہو سکتے۔
Top