Tafseer-e-Madani - Al-Hadid : 24
اِ۟لَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ وَ یَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ١ؕ وَ مَنْ یَّتَوَلَّ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ
الَّذِيْنَ : وہ لوگ يَبْخَلُوْنَ : جو بخل کرتے ہیں وَيَاْمُرُوْنَ النَّاسَ : اور حکم دیتے ہیں لوگوں کو بِالْبُخْلِ ۭ : بخل کا وَمَنْ : اور جو کوئی يَّتَوَلَّ : روگردانی کرتا ہے فَاِنَّ اللّٰهَ : تو بیشک اللہ تعالیٰ هُوَ الْغَنِيُّ : وہ بےنیاز ہے الْحَمِيْدُ : تعریف والا ہے
جو خود بھی بخل کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی بخل کی تعلیم دیتے ہیں اور جو کوئی اللہ سے منہ موڑے گا تو یقینا اللہ (کا اس سے کچھ بھی نہیں بگڑے گا کہ وہ یقینا) ہر کسی سے بےنیاز اور ہر طرح کی خوبی اور حمد کا سزاوار ہے
[ 96] بخیلوں کی نفسیات کے ایک خاص پہلو کا ذکر وبیان : یعنی یہ کہ ایسے لوگ دوسروں کو بھی بخیل کی تعلیم و تلقین گرتے ہیں تاکہ اس طرح خود ان کے بخل پر پردہ پڑا ہے، چناچہ ان کی اس صفت کاشفہ کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ جو دوسرے لوگوں کو بھی بخل کی دعوت دیتے ہیں۔ تاکہ اس طرح خود ان کے بخل و کنجوسی پر پردہ پڑا رہے، جیسا کہ کئی لوگ خیر خواہ اور سمجھدار بن کر کہا کرتے تھے، کہ صاحب مال جوڑ کر رکھو کہ آڑے وقت میں کام آئے گا، آئندہ اولاد و آرام و راحت سے کھائے گی، کبھی بھی مشکل وقت پیش آسکتا ہے، اس وقت یہ کام مال دے گا اگر اس کو یونہی غریبوں مسکینوں میں بانٹتے رہے تو آئندہ کیا کرو گے، وغیرہ وغیرہ، سو اس طرح کنجوس لوگ دوسروں کے حوصلے پست کرتے وران کو بھی انفاق فی سبیل اللہ سے روکتے ہیں۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ [ 97] اللہ تعالیٰ کی طرف سے منہ موڑنے والے خود اپنا ہی نقصان کرتے ہیں۔ والعیاذ باللّٰہ : سو ارشاد فرمایا گیا اور بخل سے کام لینے والوں کو تہدید آمیز تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ سے منہ موڑے گا وہ یقینا اپنا ہی نقصان کرے گا یعنی جو اس کی اطاعت و بندگی سے منہ موڑے گا اور اس کی راہ میں اور اس کی رضا کے لئے خرچ کرنے سے کنی کترائے گا والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ تو وہ یقینا خود اپنا ہی نقصان کرے گا، اللہ کا کچھ نہیں بگاڑے گا کہ وہ ہر کسی سے اور ہر اعتبار سے غنی اور بےنیاز ہے، سو وہ جو بندوں سے انفاق کا مطالبہ کرتا ہے تو وہ خود ہی ان کے بھلے اور فائدے کیلئے کرتا ہے، کہ وہ غنی اور بےنیاز ہونے کے ساتھ ساتھ رحمن و رحیم بھی ہے سبحانہ وتعالیٰ ، اس لئے وہ چاہتا ہے کہ یہ اس کے نام پر اور اس کی رضا کے لیے خرچ کرکے خود اپنی بہتری اور بھلائی کا سامان کریں، اور دنیا کے متاع فانی کو اس کے بینک میں جمع کراکر " اضعافاً مضاعفۃ " صلہ و بدلہ پائیں، اور ابدی بادشاہی کی نعمت بےمثال سے بہرہ مند و سرفراز ہوں۔ اللّٰہم فخذنا بنواصنا الی ما فیہ حبک ورضاک، بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ، یا ذا الجلال والاکرام، [ 98] اللہ تعالیٰ ہر کسی سے اور ہر لحاظ سے بےنیاز ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ جو کوئی روگردانی کرے گا یعنی اس وحدہٗ لاشریک کی طرف سے تو وہ خود اپنا ہی نقصان کرے گا اللہ تعالیٰ کا کوئی نقصان نہیں کرے گا کہ یقینا اللہ بڑا ہی بےنیاز ہے ہر خوبی کا مالک۔ پس اس کیلئے کسی قسم کے نفع یا نقصان کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، سبحانہ وتعالیٰ ، اور وہ جو بھی کچھ چاہتا اور فرماتا ہے وہ اپنے بندوں ہی کے نفع و فائدہ کے لئے فرماتا ہے، اور اس کے احکام وارشادات کو ماننے اور اپنانے میں خود بندوں کا ہی بھلا ہے، ورنہ وہ ہر کسی سے اور ہر طرح سے غنی وبے نیاز اور ہر خوبی کا مالک ہے۔ فایاک نسال اللہم التوفیق لذالک والسداد والثبات علیہ۔ سو وہ بندوں کو انفاق کی جو دعوت دیتا ہے تو وہ اس لیے نہیں کہ اس کے خزانوں میں کوئی کمی ہے، بلکہ اس لیے یہ دعوت دیتا ہے کہ اس طرح ان کو اپنے افضال اور عنایات سے نوازے اور سرفراز فرمائے، اور اس کی راہ میں اور اس کی رضا کے لئے دیئے گئے ان خرف ریزوں کو وہ ایک لازوال خزانے میں تبدیل کر کے ان کو واپس کرے اور ایسا کرنا اس کی شان اور اس کے کرم کا تقاضا ہے، سبحانہ وتعالیٰ ۔ سو اللہ کی راہ میں دئیے بخشے کا صلہ و بدلہ بندوں کو کہیں زیادہ بہتر اور عمدہ اجر کی شکل میں ملے گا، چناچہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ { واقرضوا للہ قرضا حسناط وما تقدموا لانفسکم من خیر تجدوہ عند اللہ ہو خیرواعظم اجرا واستغفروا اللہ ان اللہ غفور رحیم }[ المزمل :20 پ 29] یعنی جو بھی کچھ تم لوگ خود اپنی جانوں کے لئے آگے بھیجو گے اس کو تم اللہ کے یہاں کہیں بہتر شکل میں اور بہت بڑے اجر کی صورت میں موجود پاؤ گے اور وہ تمہیں موت کے بعد والی ابدی زندگی میں سدا بہار نعمتوں کی شکل میں ملے گا۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، بکل حال من الاحوال،
Top