Urwatul-Wusqaa - Al-Hadid : 24
اِ۟لَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ وَ یَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ١ؕ وَ مَنْ یَّتَوَلَّ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ
الَّذِيْنَ : وہ لوگ يَبْخَلُوْنَ : جو بخل کرتے ہیں وَيَاْمُرُوْنَ النَّاسَ : اور حکم دیتے ہیں لوگوں کو بِالْبُخْلِ ۭ : بخل کا وَمَنْ : اور جو کوئی يَّتَوَلَّ : روگردانی کرتا ہے فَاِنَّ اللّٰهَ : تو بیشک اللہ تعالیٰ هُوَ الْغَنِيُّ : وہ بےنیاز ہے الْحَمِيْدُ : تعریف والا ہے
جو لوگ خود بھی بخل کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی بخل کرنا سکھاتے ہیں اور جو منہ موڑتے ہیں بلاشبہ اللہ تو غنی ہے اور لائق حمد (و ثنا) ہے
جو لوگ بخل کرتے اور بخل کا حکم دیتے ہیں ان کو سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ غنی ، تعریف کیا گیا ہے 24 ؎ ( بخل) کیا ہے ؟ بخل رذائل میں سے ہے اور ہر رذالت بد اخلاقی ہے۔ گویا بخل بھی اساسی بد اخلاقیوں میں سے ایک بد اخلاقی ہے اور ایسی بد اخلاقی ہے جو بہت سی بد اخلاقیوں کی جڑ ہے۔ خیانت ، بد دیانتی ، بےمروتی ، بےرحمی ، بد سلوکی اور دنائت اس کی اولاد ہیں۔ حرص ، طمع ، لالچ ، تنگ نظری ، کم ہمتی ، پست ہمتی اور اس طرح کی بہت سی بد اخلاقیاں اس کی جڑیں اور شاخیں ہیں ۔ اسلام نے جھوٹ کے بعد اس نامراد بیماری کا قلع قمع کیا ہے اس کی وہ مذمت کی ہے کہ اس کو اسلام کے اندر کہیں جگہ نہیں ملی اور جہاں یہ نامراد بیماری موجود ہو وہاں اسلام کبھی داخل نہیں ہوتا ۔ مختصر طور پر آپ اس طرح سمجھ لیں کہ کنجوسی کا دوسرا نام ہے ۔ یعنی مال و متاع کو اس جگہ خرچ کرنے سے روک رکھنا جہاں خرچ کرنا چاہئے اسی کا نام بخل ہے جو جود و سخاوت کی ضد ہے۔ بخیل کی دو قسمیں ہیں ایک خود مناسب جگہ خرچ نہ کرنا دوسرے غیر کو بھی خرچ کرنے سے روک دینا اور یہ اور بھی زیادہ قابل مذمت ہے اور زیر نظر آیت میں دونوں ہی کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ اس کی وضاحت ہم پیچھے عروۃ الوثقیٰ جلد دوم سورة آل عمران کی آیت 180 جلد سوم سورة النساء کی آیت 37 ، جلد چہارم سورة التوبہ کی آیت 76 ، جلد ہشتم سورة محمد کی آیت 37 میں کرچکے ہیں اس لیے محولہ سورتوں کی محولہ آیتوں کی تفسیر کو دیکھ لیں ۔ اس جگہ یہ آیت گزشتہ آیت کی مزید تشریح کے طور پر آئی ہے جو دراصل گزشتہ آیت کے دو الفاظ (محتال فخور) کی وضاحت ہے۔ لاریب بخیل اس نکتہ کو بھول جاتا ہے کہ مال و دولت مقصود بالذات چیز نہیں بلکہ وہ صرف چیزوں کے حصول کا ذریعہ ہے۔ سونے چاندی کی اینٹیں خود بخود روٹی ، کپڑا اور مکان کی چار دیوری نہیں بن سکتیں اس لیے ان کو سمیٹ کر رکھنے سے کچھ حاصل نہیں ۔ ان کو ضروری اور اعلیٰ مقصود کے حصول میں خرچ کرنا ہے ، ان کا صحیح مصرف اللہ رب ذوالجلال والاکرام کی بتائی ہوئی جگہیں ہی ہو سکتی ہیں ۔ منافق اپنے مالوں کو خرچ کرتے ہیں لیکن ان جگہوں پر جہاں ان کو شہرت حاصل ہو اور ان کی نمود و نمائش ہو اور جس جگہ ان کو یہ مقصد حاصل نہ ہو وہاں وہ ایک پائی تک کا خرچ کرنا جان دینے سے مشکل تصور کرتے ہیں لیکن جہاں ان کو نمود و نمائش حاصل ہو وہاں وہ تجوریوں کا منہ کھول دیتے ہیں ، مال تو ان کا بھی خرچ ہوجاتا ہے اور ان کا بھی جو رضائے الٰہی کے حصول کے لیے خرچ کرتے ہیں لیکن ایک کا انجام دوزخ ہے اور دوسرے کا انجام جنت ہے۔ حدیث میں ہے کہ جس شخص نے بخل کے باعث اس دنیا کے مال کو گلے کا ہار بنا رکھا تھا وہ قیامت کے روز واقعی اس کے گلے کا ہار بنا دیا جائے گا لیکن وہ اس روز زہریلے سانپ کی طرح ہوگا کہ اس کو ڈسے گا اور اترے گا بھی نہیں ۔ قرآن کریم نے بخل کی مثال قارون کے نام سے دی ہے جو بنی اسرائیل ہی کا ایک آدمی تھا جس کے مال و متاع کی چابی بردار ایک بہت بڑی طاقت ور جماعت تھی اور اس کو تذاتہٖ دولت کے ڈھیروں کا کچھ پتہ تک نہ تھا لیکن جب اس کا پکڑ کا وقت آیا تو اس کی شان و شوکت اس کے کچھ کام نہ آسکی اور اس کے بعد کتنے قارونوں کا حال ہم تاریخ میں پڑھ چکے ہیں اور آج کے قرونوں کی حالت بھی یقینا دیدنی ہوگی جب ان کی پکڑ کا وقت آئے گا تو سارا کروفر ہوا ہوجائے گا اور تقدیر میں لکھا ان کو مل کر رہے گا ۔
Top