Tafheem-ul-Quran - Al-Qalam : 48
فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَ لَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوْتِ١ۘ اِذْ نَادٰى وَ هُوَ مَكْظُوْمٌؕ
فَاصْبِرْ : پس صبر کرو لِحُكْمِ رَبِّكَ : اپنے رب کے حکم کے لیے وَلَا تَكُنْ : اور نہ تم ہو كَصَاحِبِ الْحُوْتِ : مانند مچھلی والے کے اِذْ نَادٰى : جب اس نے پکارا وَهُوَ مَكْظُوْمٌ : اور وہ غم سے بھرا ہوا تھا
پس اپنے ربّ کا فیصلہ صادر ہونے تک صبر کرو 31 اور مچھلی والے (یونسؑ)کی طرح نہ ہو جاوٴ، 32 جب اُس نے پکارا تھا اور وہ غم سے بھرا ہو۱ تھا۔ 33
سورة الْقَلَم 31 یعنی وہ وقت ابھی دور ہے جب اللہ تعالیٰ تمہاری فتح و نصرت اور تمہارے ان مخالفین کی شکست کا فیصلہ فرما دے گا۔ اس وقت کے آنے تک جو تکلیفیں اور مصیبتیں بھی اس دین کی تبلیغ میں پیش آئیں انہیں صبر کے ساتھ برداشت کرتے چلے جاؤ۔ سورة الْقَلَم 32 یعنی یونس ؑ کی طرح بےصبری سے کام نہ لو جو اپنی بےصبری کی وجہ سے مچھلی کے پیٹ میں پہنچا دیے گئے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کو اللہ کا فیصلہ آنے تک صبر کی تلقین کرنے کے بعد فوراً ہی یہ فرمانا کہ یونس ؑ کی طرح نہ ہوجاؤ، خود بخود اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ انہوں نے اللہ کا فیصلہ آنے سے پہلے بےصبری سے کوئی کام کیا تھا جس کی بنا پر وہ عتاب کے مستحق ہوگئے تھے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، یونس، آیت 98، حاشیہ 99۔ جلد سوم، الانبیا، آیات 87۔ 88 حواشی 82 تا 85، جلد چہارم، الصافات آیات 139 تا 149 حواشی 78 تا 85)۔ سورة الْقَلَم 33 سورة انبیاء میں اس کی تفصیل یہ بیان کی گئی ہے کہ مچھلی کے پیٹ اور سمندر کی تاریکیوں میں حضرت یونس ؑ نے پکارا تھا لا الہ الا انت سبحنک انی کنت من الظلمین، " کوئی خدا نہیں تیری پاک ذات کے سوا، میں واقعی خطا وار ہوں "۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کی فریاد سن لی اور ان کو غم سے نجات دی (آیات 87۔ 88
Top