Mualim-ul-Irfan - Al-Qalam : 48
فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَ لَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوْتِ١ۘ اِذْ نَادٰى وَ هُوَ مَكْظُوْمٌؕ
فَاصْبِرْ : پس صبر کرو لِحُكْمِ رَبِّكَ : اپنے رب کے حکم کے لیے وَلَا تَكُنْ : اور نہ تم ہو كَصَاحِبِ الْحُوْتِ : مانند مچھلی والے کے اِذْ نَادٰى : جب اس نے پکارا وَهُوَ مَكْظُوْمٌ : اور وہ غم سے بھرا ہوا تھا
پس اپنے رب کے حکم کے لیے صبر کریں اور مچھلی والے کی طرح نہ بن جائیں جب اس نے دعا کی تو وہ غم سے بھرا ہوا تھا۔
گذشتہ سے پیوستہ (ربط) : پہلی آیتوں میں توحید و رسالت کے منکرین کا بیان تھا ۔ قیامت میں پیش آنے والے حالات کا ذکر تھا۔ ابتدائی آیات میں کفر کرنے والوں کی بدگوئی کا حال تھا کہ حضور ﷺ کی رسالت سے انکار کرتے تھے اور العیاذباللہ آپ کو دیوانہ اور پاگل قرار دیتے تھے۔ اس کے بعد مشرکین کے اس رویہ کا ذکر تھا۔ کہ وہ چاہتے ہیں کہ آپ ﷺ مداہنت کریں توا س طرح ایک دوسرے سے اتفاق ہو سکے گا مگر اللہ تعالیٰ نے اس سے منع کردیا۔ اس کے بعد بیان ہوا کہ اللہ نے جو مال و دولت دے رکھا ہے۔ وہ محض آزمائش کے لیے ہے۔ باغ والوں کا ھال بیان ہوا ان کو اللہ تعالیٰ نے آزمایا پھر ان کا مال و دولت بلاک کردیا۔ اسی طرح فرمایا کہ مکہ کے مشرکین کو مال و دولت دے کر آزمایا گیا ہے۔ وہ یہ نہ سمجھیں کہ اللہ کے محبوب ہیں بلکہ یہ تو آزمائش ہے۔ آگے قیامت کا حال بیان فرمایا کہ وہاں پر یہ لوگ پچھتائیں گے۔ صبر کی تلقین : آخری آیات میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو تسلی دلائی ہے کہ کافر لوگ آپ کو بڑی تکلیف دیتے تھے۔ العیاذ باللہ آپ کو دیوانہ کہتے تھے حالانکہ اللہ کا نبی جو اخلاق عالیہ پر فائز ہوتا ہے بڑا ہی دانا اور عقلمند ہوتا ہے۔ مگر یہ لوگ حسد کی بنا پر آپ کو پاگل کہتے تھے۔ جس سے آپ کو تکلیف پہنچی تھی ، توحید و رسالت اور قیامت کے انکار سے بھی آپ دل برداشتہ ہوتے تھے۔ تو اس سلسلہ میں ان آیات کے اندر اللہ نے تسلی کا مضمون بیان فرمایا۔ قرآن کریم میں تسلی کا مضمون کثرت سے بیان ہوا ہے بعض اوقات کوئی پہلا نمونہ بیان کر کے تسلی دی جاتی ہے۔ جیسے نوح (علیہ السلام) کا واقہ ہے ۔ انہوں نے بھی جب نصیحت کی تو قوم کہنے لگی یہ تو پاگل ہے انہوں نے ڈانٹ دیا کہ ہم تہماری کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں ، کھبی دوسروں کو کہہ دیا یہ بیوقوف آدمی ہے۔ اس کی بات نہ سننا توا نہوں نے صبر کیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا نمونہ بھی بیان فرمایا۔ یہاں پرا للہ تعالیٰ نے ایک اور نبی کا حال ذکر کیا ہے۔ کہ ان سے ایک معمولی سی لغزش ہوگئی تھی۔ انہوں نے بےصبری سے کام لیا اور کتنی بڑی آزمائش میں پڑگئے۔ اے نبی ﷺ آپ ایسانہ کریں۔ بلکہ اپنے رب کے حکم کے لیے صبر کریں جو حکم آئے اس کے مطابق عمل کریں ، جلد بازی نہ کریں اور ان لوگوں کی باتوں پر تکلیفوں اور ایذائوں پر صبرکریں۔ کہیں دل برداشتہ ہو کر ان کے لیے جلدی عذاب نہ طلب کرلیں۔ انتقام میں جلدی نہ کریں یہ مناسب نہیں ہے۔ اپنے رب کے حکم کا انتظار کریں اور مشرکین کی تکلیف دہ باتوں پر استقلال سے کام لیں۔ صبرواطاعت لازم و ملزوم ہیں : صبر ملت ِ ابراہیمی کا ایک بہت بڑا صول ہے۔ جس طرح ذکر نماز اور شکرو غیرہ ہیں اسی طرح صبر بھی ہے۔ صبر کا مادہ اطاعت کے لیے ہوتا ہے۔ جو شخص صبر نہیں کرتا وہ اطاعت نہیں کرسکتا۔ اطاعت میں صبر کرنا پڑتا ہے۔ روزہ ، حج جہاد نماز کے لیے صبر کرنا پڑتا ہے۔ صبر کے بغیر اطاعت نہیں ہو سکتی۔ برداشت کرنا نفس کی اس پر جمانا ، طہارت وغیرہ یہ سب پابندیاں ہیں بڑے صبر کا کام ہے۔ اسی لیے فرمایا آپ صبر کریں اور آپ کا صبر اللہ کی توفیق سے ہی ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے خدا تعالیٰ سے توفیق بھی طلب کریں۔ جس طرح ذکر فکر اور نماز ہے اسی طرح صبر ہے۔ جب تکلیف آئے تو اسے من جانب اللہ سمجھ کر برداشت کریں۔ تکالیف کو لانا اور رفع کرنا اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے۔ لہٰذا جب تکلیف آئے تو بےصبری کا اظہار نہ کریں۔ صبرو صلوٰۃ کے ذریعے استعانت : سورۃ بقرہ میں ارشاد ہوتا ہے جب تم کو تکلیف پہنچے تو اس کا مقابلہ صبر اور نماز کے ساتھ کرو۔ اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرو ، نماز پڑھو کہ نماز توجہ الہٰی اللہ کا بہت بڑا ذریعہ ہے دوسرے صبر کرو۔ برداشت کرو ، بےصبر سے کام نہ لو۔ انسان کا مزاج عموماََ بےصبری کی طرف مائل ہوتا ہے۔ جیسے ارشاد ہے انسان بےصبر ، تنگ دل پیدا کیا گیا ہے۔ دوسری جگہ کا لفظ فرمایا کہ انسان بڑا تنگ دل ہے۔ لہٰذا حکم ہوتا ہے کہ اطاعت پر اور مصیبت کے آنے پر صبر کرو۔ امام غزالی (رح) فرماتے ہیں اپنے نفس کو خواہشات سے روکنا صبر ہے۔ اس مقام پر وہ تکالیف مراد ہیں جو مشرکین کی طرف سے پہنچائی جارہی ہیں۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کا واقعہ : صبر کی تلقین کرتے ہوئے اور مچھلی ولاے کی طرح نہ بن جائیں جنہوں نے بےصبری سے کام لیا تھا۔ مچھلی والے سے مراد حضرت یونس (علیہ السلام) ہیں۔ یہ شام اور فلسطین کے علاقہ میں رہتے تھے ، جہاں بنی اسرائیل آباد تھے۔ ان کے دور میں حزقیل بادشاہ تھا۔ اس وقت کے بڑے نبی حضرت شعیا (علیہ السلام) تھے۔ اس بادشاہی میں بیک وقت اللہ کے پانچ بنی تھے۔ جن میں حضرت یونس (علیہ السلام) بھی شامل تھے۔ بادشاہ مومن ، مطیع اور منقاد تھا۔ اللہ کے نبیوں کی اطاعت کرتا تھا۔ یہ موصل اور نبیوں شام اور عراق کے درمیان ہیں ۔ موصل اب عراق کا ایک صوبہ ہے۔ نینوٰی بھی وہاں کا ایک قصبہ ہے۔ وہاں کے لوگوں نے کچھ تعدی کی تھی انکے علاقے میں آدمی مارے گئے۔ اور غلام بنا کرلے گئے ، تو بادشاہ نے خیال کی کہ ان کو سمجھانا چاہیے کہ قیدیوں کو واپس کردیں اور زیادتی نہ کریں۔ اس کا ذکر حضرت شعیا (علیہ السلام) سے کیا گیا کہ اس طرح زیادتی ہوئی ہے۔ اس وقت اللہ کے پانچ نبی موجود ہیں۔ مناسب ہے کہ ان میں سے ایک کو وہاں بھیج دیں۔ تجویز یہ ہوئی کہ حضرت یونس (علیہ السلام) جو بڑے نیک اور عبادت گذار ہیں۔ ان کو وہاں بھیج دیں۔ اگرچہ ان کے مزاج میں فداتنگی ہے۔ تاہم ان کے زہد وتقوی کی بنا پر ان کا جانا ہی زیادہ مناسب ہے۔ حضرت شعیا (علیہ السلام) نے حضرت یونس (علیہ السلام) کو مامور کیا۔ کہ وہاں جا کر نیکی کی تلقین کریں۔ انہوں نے نینوٰی جا کر خدا کا پیغام سنایا لوگوں کو سمجھایا کہ زیادتی نہ کریں ۔ آپ نے وہاں کافی عرصہ تک تبلیغ کا فریضہ سر انجام دیا مگر لوگوں نے ان کی دعوت کو قبول نہ کیا۔ تو حضرت یونس (علیہ السلام) نے ان لوگوں کو عذاب کی وعید سنائی کہ ان کی نافرمانی کی وجہ سے خدا کی جانب سے ان پر عذاب آئے گا۔ یہ اتنی بات تو اللہ کے حکم سے ہوئی تھی ، لیکن اس موقع پر یونس (علیہ السلام) سے لغزش یہ ہوئی کہ وحی الہٰی کا انتظار کرنے سے پہلے ہی وہاں سے نکل گئے۔ سمجھے کہ اب مجھ پر کوئی تنگی نہیں ہوگی۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کے واقعات قرآن پاک کی مختلف سورتوں مثلاََ سورة انبیاء ۔ سورة یونس سورة صفت وغیرہ میں مذکور ہیں۔ اور اس سورة میں ایک حصہ بیان ہوا ہے۔ قرآن پاک کی کوئی تاریخ کی کتاب تو ہے نہیں۔ جو ہر واقعہ کو مسلسل ایک جگہ بیان کر دے۔ یہ تو ایک نصیحت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت کے مطابق نصیحت کے لیے جتنی بات جس جگہ موزوں ہوتی ہے۔ بیان کردی جاتی ہے۔ الغرض حضرت یونس (علیہ السلام) بےصبری کی بنا پر حکم الہٰی کا انتظار کئے بغیر وہاں سے نکل گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ابتائیں مبتلا ہوگئے۔ سورة انبیاء میں ہے غیرت الہیٰ کی وجہ سے قوم پر غصے کی حالت میں نکل گئے۔ قوم کو کافی عرصہ سمجھاتے رہے مگر انہوں نے ایک نہ سنی اللہ کے لیے قوم پر ناراض ہوتے ہوئے نکل گئے۔ حوت سے مراد مچھلی ہے۔ دوسری جگہ فرمایا۔ یعنی نوالے جب غصے کی حالت میں نکل گئے۔ اس سورة کی ابتداء میں بھی ان کا ذکر ہے۔ ن کو کئی باتوں سے مناسبت ہے جیسا کہ ابتدائی آیتوں میں عرض کیا۔ ن سے مراد دوات ہے۔ تو قلم کے ساتھ ذکر کیا۔ اور بعض فرماتے ہیں کہ ن سے مراد مچھلی ہے کیونکہ ذی النون مچھلی والے کو کہا گیا ہے۔ یہاں پر حوت کا لفظ آیا ہے حوت ، سمک اور ن کا اطلاق مچھلی پر ہوتا ہے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کی یہ لغزش کوئی صغیرہ یا پاکیزہ گناہ نہ تھا بلکہ ایک معمولی غلطی تھی چونکہ وہ اللہ کے نبی تھے بڑے آدمی تھے۔ اس لیے ان کی معمولی سی لغزش بھی بڑی سمجھی جاتی ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہوا تھا۔ قرآن پاک میں موجود ہے لیکن معمولی غلطی پر بڑی گرفت آئی۔ یہ اللہ کی شان ہے کہ نبیوں کی تربیت زیادہ مقصود ہوتی ہے۔ وہاں خلاف اولیٰ بات پر بھی بڑی گرفت ہوجاتی ہے۔ اسی لیے وہ لوگ ڈرتے رہتے ہیں۔ ان میں اللہ کے جلال اور عظمت کا بہت اثر ہوتا ہے۔ قیامت والی حدیث میں آتا ہے کہ لوگ سفارش کے لیے انبیاء کے پا س جائیں گے مگر تھر تھرائیں گے۔ وجہ کیا ہے کہیں گے آج تو خدا تعالیٰ غصے میں ہے۔ پتہ نہیں ہم پر گرف کرے ، ہم یہ کام نہیں کرسکتے۔ لہذا دوسرے کے پاس جائو ، خدا کی عظمت و جلال کے سامنے معمولی با ت پر بڑی گرفت ہوتی ہے حالانکہ ان سے کوئی صغیرہ یا کبیرہ گناہ سر زد نہیں ہوتا۔ بہت معمولی سی بات تھی ۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو تنبیہ فرمائی۔ آپ ﷺ ترش رو ہوگئے محض اس وجہ سے کہ ایک اندھا آیا ہے۔ اور خیال کیا کہ یہ بڑے لو گ ہیں شاید یہ ہدایت قبول کرلیں۔ اللہ نے بڑی سختی سے فرمایا جو طلبگار بن کر آتا ہے اس کی طرف زیادہ توجہ کریں جو اعراض کرتا ہے۔ اس کے درپے نہ ہوں آپ ذمہ دار نہیں ہیں۔ اسی طرح مچھلی والے یعنی حضرت یونس (علیہ السلام) سے ہوا کہ وحی الہٰی کا انتظار کیے بغیر وہاں سے نکل پڑے اور گرفت ہوگئی۔ سورة انبیاء میں موجو ہے۔ اس نے گمان کیا کہ ہم سختی نہیں کریں گے۔ حالانکہ وہ لغزش تھی اور ہم نے سخت ابتلاء میں ڈال دیا۔ یونس (علیہ السلام) کو مچھلی کے پیٹ میں ڈال دیا گویا قید خانے میں ڈال دیا۔ مچھلی کا واقعہ مشہور ہے۔ دریا کے کنارے پر پہنچے جہاز میں سوار ہوئے۔ جہاز میں پھینکے جانے کے لیے ہر بار قرعہ حضرت یونس (علیہ السلام) کے نام نکلتا ہے جہاز والے انکا نوارنی چہرہ دیکھ کر ان کو دریا میں پھینکنے سے ہچکچاتے ہیں کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ مگر قرعہ انہیں کے نام نکلتا ہے۔ آخر انہیں دریا میں پھینک دیا گیا اور آپ سیدے مچھلی کے منہ میں پہنچ گئے۔ پھر کیا ہوا یونس (علیہ السلام) نے دریا اور مچھلی کے پیٹ کی تاریکیوں میں اپنے رب کو پکارا چالیس دن ، دس دن یا تین دن خدا ہی بہتر جا نتا ہے کہ کتنا عرصہ مچھلی کے پیٹ میں رہے۔ اللہ کا حکم تاھ کہ مچھلی پیٹ قید خانہ ہے۔ یونس (علیہ السلام) مچھلی کی خوراک نہیں ہیں۔ تو ان اندھیروں میں رب کو پکارا کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور خطا کا رتو میں ہی تھا۔ دفع مصیبت کا بہترین وظیفہ : ترمذی شریف کی روایت میں حضور ﷺ کا ارشاد ہے یعنی مصیبت زدہ آدمی کی دعا یہی حضرت یونس (علیہ السلام) والی دعا ہے۔ اگر کوئی مصیبت زدہ یہ دعا کرے گا توا للہ تعالیٰ اس کی دعا ضرور قبول فرمائیں گے۔ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں۔ کہ مشائخ اور بزرگان دین نے اپنے تجربات کی بنا پر آیت کریمہ کے پڑھنے کے طریقے دریافت کئے ہیں۔ اس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ سو پچاس آدمی جمع ہوں اور ایک مجلس میں سوالاکھ مرتبہ آیت کریمہ پڑھی جائے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ انسان تنہائی میں بیٹھ کر پڑھے۔ عشاء کے بعد اندھیرے میں بیٹھ جائے اور پانی کا پیالہ پا س رکھ لے۔ ہر روز تین سو مرتبہ یہ دعا پڑھے۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد پیالے میں ہاتھ ڈال کر پانی اپنے چہرے اور جسم پر ملتا رہے۔ یہ عم تین دن سات دن یا چالیس دن کرے گا۔ تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول کریں گے اور پریشانی دور فرما دیں گے۔ بہر حال یہ طریقہ حدیث میں نہیں ہے۔ حدیث میں اتنا ہی ہے کہ مصیبت زدہ کی دعا صرف یونس (علیہ السلام) کے لیے ہی نہیں بلکہ جو بھی مصیبت زدہ اسے پڑھے گا اللہ تعالیٰ اس کی پریشانی دور کریں گے۔ یونس (علیہ السلام) کی پریشانی : بہر حال حضور ﷺ کو تلقین کی جارہی ہے کہ آپ مشرکین کی ایذارسانی پر صبر کریں اور مچھلی والے کی طرح نہ ہوجائیں کہ سخت آزمائش میں مبتلا ہونے پر جب انہوں نے دعا کی تو غم سے بھرے ہوئے تھے۔ ایک طرف مچھلی کے پیٹ میں تاریکیوں کے اندر جو دم گھٹنے والی جگہ تھی۔ دوسری طرف لوگوں کا آپ کے بات کو نہ ماننا۔ تمسخر کرنا اور پھر عذاب الہیٰ کا سلسلہ یونس (علیہ السلام) کا بغیر انتظار حکم خدا وندی چلے جانا اور گرفت میں آجانا۔ یہ ساری باتیں تھیں۔ جن کی وجہ سے یونس (علیہ السلام) غم سے بھرے ہوئے تھے یعنی مکظوم تھے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ ان حالات میں اگر ان کے رب کی نعمت احسان اور مہربانی ان کا تدارک نہ کرتی نہ سنبھالتی البتہ پھینک دیا جاتا انہیں چٹیل میدان میں اس حالت میں کہ وہ ہارے ہوئے ہوتے ۔ مگر اللہ مہربانی شامل حال رہی تو یونس (علیہ السلام) کو کسی حال میں نقصان نہیں پہنچنے دیا سوائے اس کے کہ ان کے جسم پر کھال میں حبس کی وجہ سے نرمی آگئی تھی کھال بالکل نرم ہوگئی تھی تو اس موقع پر بھی اللہ تعالیٰ نے مدد فرمائی کہ دریائے دجلہ کے کنارے اس چٹیل میدان میں مچھلی نے آپ کو ریت کے اوپر اگل دیا۔ اور اس طرح آپ کے نہایت نرم جسم کو کوئی نقصان نہ پہنچا۔ پھر جیسا کہ سورة صفت میں آتا ہے اللہ تعالیٰ نے فوری طور پر ان پر کدو کا درخت اگایا۔ کدو کے خواص : حدیث میں آتا ہے کہ حضور ﷺ کو کدو بہت پسند تھا۔ آپ ﷺ کو اس سے طبعی محبت تھی ، آپ نے فرمایا یہ میرے بھائی یونس (علیہ السلام) کا درخت ہے ۔ کدو بہت اچھی سبزی ہے۔ اطبا نے بھی اس پر تجربات کئے ہیں۔ گھیا گول ہو یا لمبا ، اللہ تعالیٰ نے اس میں وقت حافظہ کی تاثیر رکھی ہے۔ تاثیر کے لحاظ سے مرطوب اور ٹھنڈا ہے۔ تاہم اس میں وقت حافظہ کو قوی کرنے کا مادہ ہے ، عجیب چیز ہے۔ فرماتے ہیں کہ کدو کے پتے پر مکھیاں نہیں بیٹھتیں۔ شاید اللہ تعالیٰ کی یہ خاص حکمت تھی کہ وہاں کدو کی بیل اگا دی کہ اس کے پتوں کا سایہ ہو اور یونس (علیہ السلام) کے نہایت نرم و نازک جسم پر مکھیاں بھی نہ بیٹھیں۔ اس صحرا کے اندر کوئی دوسرا انسان موجود نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ہرنی کو بھیج کر یونس (علیہ السلام) کے لیے دودھ کی غذا مہیا کی ۔ آپ وہاں چالیس روز تک رہے۔ یونس (علیہ السلام) کی واپسی : یونس (علیہ السلام) کے متعقلق حکم ہوا کہ ہم نے یونس (علیہ السلام) کو دوبارہ ایک لاکھ یا زیادہ جو کہ غالباََ ایک لاکھ بیس ہزار تھے ان کی طرف بھیجا وہ اپنی قوم کے پاس واپس آئے تو وہاں حالات ہی بدل چکے تھے۔ وہ تمام لوگ تائب ہوچکے تھے اور اپنے پیغبر (علیہ السلام) کا انتظار کر رہے تھے۔ کہ وہ اللہ کا بندہ کدھر گیا ہے۔ وہ لوگ عذاب الہٰی کو آتا ہوا دیکھ کر تائب ہوچکے تھے۔ یونس (علیہ السلام) کی برزگی : فرمایا اللہ تعالیٰ نے یونس (علیہ السلام) کو برگزیدہ بنایا اور اسے صالحین میں بنایا۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ کوئی شخص یہ نہ کہے کہ میں یونس (علیہ السلام) سے بہتر ہوں۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ میرے بارے میں بھی نہ کہو۔ ان سے لغزش ہوئی تھی تو اللہ نے گرفت کی۔ وہ خدا کے نبی اور رسول تھے۔ اور نبیوں سے معمولی لغزش ہی ہو سکتی ہے۔ صغیرہ یا پاکیزہ گناہ تو سرزد ہوتا نہیں۔ لہٰذا آپنے آپ کو ان سے بہتر نہ کہویا کسی طریقے سے ان کی توہین نہ کر بیٹھو ۔ کہ ایسا کرنے سے کفر کا خطرہ ہے۔ تو فرمایا اللہ نے انہیں برگزیدہ بنایا اور یہ ہی آدم (علیہ السلام) کے متعلق بھی فرمایا اور اسے صالحین میں سے بنایا۔ یونس (علیہ السلام) کی یہ معمولی سی لغزش بےصبری کا نتیجہ تھا۔ لہذا اے نبی (علیہ السلام) آپ ایسا نہ کریں بلکہ ایذا کو برداشت کریں قاضی ثناء اللہ پانی پتی (رح) کہتے ہیں کہ نبیوں کی لغزش کا بلاوجہ ذکر کرنا بھی مکروہ تحریمی ہے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کا باوجود عصمت کے گناہ کو پانی طرف منسوب کرنا یہ مجاز پر محمولی ہے ۔ جیسا کہ بعض اہل طریقت باوجود ایمان کے کفر کو اپنی طرف منسوب کردیتے ہیں۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کا اعتراف اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا اعتراف بھی اسی قبیل سے ہے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) سے کوئی گناہ نہیں سرزد ہوا تھا۔ صرف خطائے اجتہادی ہوئی تھی۔ کہ انہوں نے چلے جانے کو اجتہاد سے جائز سمجھا اور انتظار وحی نہ کیا۔ حالانکہ امید وحی تک انبیاء (علیہ السلام) کو انتظار کرنا مناسب ہے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) سے اس واقعہ میں کسی امر کی مخالفت نہیں ہوئی صرف اجتہاد میں خطا ہوئی۔ یہ خطا امت کے لوگوں کے حق میں تو معاف ہوتی ہے مگر انبیاء (علیہ السلام) کی تربیت اور تہذیب زائد مقصو دہوتی ہے۔ اس لیے یہ ابتلاء میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ یونس (علیہ السلام) کو بھی اجتہادی غلطی پر یہ ابتلا ہوا۔ تردیکان رابیش بودحیرانی ۔ انبیاء (علیہ السلام) کو صرف جسمانی تکلیف دی جاتی ہے۔ کیونکہ انبیاء (علیہ السلام) حقیقی گناہ اور حقیقی عقویت سے پاک ہوتے ہیں۔ (حضرت تھانوی (رح) حضرت شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ انبیاء (علیہ السلام) ددر امتثال امرا لہٰی بیہچ وجہ تقصیر نہ کردہ امذ۔ کہ اللہ تعالیٰ کے حکم میں کسی طرح کوتاہی نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور ﷺ خاتم النبیین کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ آپ پہنچا دیں جو آپ پر نازل کیا گیا ہے اگر آپ نے ذرہ بھر کوتاہی کی تو یہ سمجھا جائے گا کہ آپ نے حق رسالت آدم (علیہ السلام) موسیٰ (علیہ السلام) یا یونس (علیہ السلام) کی لغزش کا ذکر محض لاپرواہی کے ساتھ کرنا مکروہ ہے ۔ وہاں قرآن پاک کی تفسیر کے سلسلہ میں جہاں بات سمجھانی مقصود ہو۔ تشریح کرنا ہو تو جائز ہے ورنہ بلاوجہ لغزش کا ذکر کرنا اپنی بڑائی بیان کرنا ہے اور بنی کی توہین کا ارتکاب ہے اور ایسا کرنے سے کفر لازم آنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ تبلیغ جاری رکھنے کا حکم : فرمایا کہ کافر لوگ آپ ﷺ کو اپنی آنکھوں سے گھو ر گھور کر دیکھیں۔ جیسے تجھے ہلاک کرنا چاہتے ہیں۔ یا آپ پر اثر انداز ہونا چاہتے ہیں ۔ تاکہ آپ ان کی تر شروئی سے تنگ آکر تبلیغ کرنا چھوڑ دیں۔ فرمایا قریب ہے کہ یہ لوگ پھسلائیں اور جب وہ قرآن پاک کو سنتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ پاگل ہے۔ پھر اسی پہلی آیت والے جملے کو دہرایا ۔ تو ظاہر ہے ان حرکات سے آپ ﷺ کو سخت تکلیف پہنچی تھی۔ اور گھور گھور کر دیکھنے سے مراد ہے کہ گویا نگاہوں نہیں ادا کیا۔ مسئلہ :۔ حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی (رح) تفسیر مظہری سورة صافات کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔ (ترجمہ) انبیاء (علیہ السلام) کی لغزش کا ذکر کرنا جائز نہیں۔ کیونکہ انکی لغزشیں کمال انابت الی اللہ اور انکے رفع درجات کو واجب کرتی ہیں۔ اور جس شخص نے انبیاء (علیہ السلام) میں سے کی ایک پر بھی اعتراض کیا تو اس نے کفر کیا۔ تمام نبیوں کے بارہ میں ایک جیسا حکم ہے کیونکہ یہ آیت کہ ہم اللہ تعالیٰ کے رسولوں میں کسی ایک کے درمیان بھی فرق نہیں کرتے۔ بالکل واضح ہے اور بخاری و مسلم کی یہ حدیث بھی ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ کہ کسی شخص کے لیے مناسب نہیں کہ وہ یہ کہے کہ میں یونس بن متی سے افضل ہوں۔ 12۔ عبدالحمید سواتی۔ سے کھار ہے ہیں۔ پھسلا رہے ہیں تا کہ آپ ﷺ مرعوب ہو کر تبلیغ کرنا چھوڑدیں۔ نظر بد برحق : بعض فرماتے ہیں نظر بد لگ جاتی ہے۔ نظر بدبرحق ہے حدیث میں آتا ہے کہ بعض آدمیوں میں نظر بد کا مادہ ہوتا ہے۔ ان کی نگاہوں میں ایسی تاثیر ہوتی ہے کہ دیکھتے ہی استعجاب پیدا ہوتا ہے۔ اور اس کا اثر ہوجاتا ہے۔ بعض احادیث میں یہ الفاظ ہیں کہ نظر بد انسان کو قبر میں اور اونٹ کو ہانڈی میں پہنچا دیتی ہے۔ اس کا اثر فوری ہوتا ہے۔ آدمی بیمار ہوجاتا ہے یا ہلاک ہوجاتا ہے۔ حضور ﷺ کے صحابہ میں بعض کی نظر لگ جاتی تھی۔ کوئی شخص حوض کے کنارے تہ بند باندھے نہار ہا تھا۔ دوسرے نے دیکھا کہ جسم بڑا خوبصورت ہے ۔ کہنے لگا ، کمال جسم ہے ایسا پہلے نہیں دیکھا۔ اس کا فوری اثر ہوا۔ بخار آیا اور آدمی تڑپنے لگا۔ حضور ﷺ کو پتہ چلا تو اس کو بلا کر کہا کہ تم میں سے کیوں کوئی اپنے بھائی کو قتل کرتا ہے۔ تم نے اس کے لیے برکت کی دعا کیون نہ کی۔ لہذا اگر کسی کی نگاہ میں ایسی تاثیر ہو تو اسے کہنا چاہیے اللہ برکت دے۔ برکت کی دعا کرنی چاہیے تاکہ نظر بد کا اثر نہ ہو۔ یہ بھی فرمایا کہ اگر تم میں سے کسی کی نظر بد لگتی ہو تو نظر بد والے شخص کا وضو یا غسل کا مستعمل پانی اگر مریض کے جسم پر دال دیا جائے تو اللہ شفا دے دیتا ہے۔ یہ حکمت خدا وندی ہے کہ جس جسم میں بیماری رکھی ہے۔ اس میں شفا بھی رکھی ہے ۔ جیسے مکھی کے متعلق فرمایا کہ مکھی کے ایک پر میں بیماری ہے اور دوسرے پر میں شفا کا مادہ ہوتا ہے۔ وہ بیماری والا پر پہلے ڈبوتی ہے۔ اسی لیے مناسب ہے کہ اگر کوئی گرم چیز نہ ہو ، پانی ہو تو جب مکھی ایک پر کو ڈبوئے تو تم دوسرا بھی ڈبودو مکھی کو پھینک دو اور چیز کو استعمال کرلو۔ اسی طرح بیماری کا اثر زائل ہوجائے گا۔ اسی طرح نظر بدوالے کے جسم میں بھی بیماری اور شفا دونوں چیزیں ہوتی ہیں۔ اگر اس کے غسل کا پانی مریض کے سر پر ڈال دیا جائے تو اللہ تعالیٰ شفا دے دیتے ہیں۔ قرآن پاک نصیحت ہے : الغرض کفار و مشرکین جب قرآن پاک سنتے تھے تو حضور ﷺ کو پاگل کہتے تھے جس سے آپ کو تکلیف پہنچتی تھی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے صبر کی تلقین فرمائی۔ نیز یہ بھی فرمایا کہ یہ قرآن پاک پاگلوں کا کلام نہین ہے بلکہ یہ تو تمام جہان والوں کے لیے نصیحت ہے۔
Top