Al-Qurtubi - Al-Qalam : 48
فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَ لَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوْتِ١ۘ اِذْ نَادٰى وَ هُوَ مَكْظُوْمٌؕ
فَاصْبِرْ : پس صبر کرو لِحُكْمِ رَبِّكَ : اپنے رب کے حکم کے لیے وَلَا تَكُنْ : اور نہ تم ہو كَصَاحِبِ الْحُوْتِ : مانند مچھلی والے کے اِذْ نَادٰى : جب اس نے پکارا وَهُوَ مَكْظُوْمٌ : اور وہ غم سے بھرا ہوا تھا
تو اپنے پروردگار کے حکم کے انتظار میں صبر کئے رہو اور مچھلی (کا لقمہ ہونے) والے (یونس) کی طرح نہ ہونا کہ انہوں نے خدا کو پکارا اور وہ غم و غصے میں بھرے ہوئے تھے
فاصبر لحکم ربک اپنے رب کے فیصلہ پر صبر کیجیے (1) یہاں حکم، قضا کے معنی میں ہے۔ ایک قول یہ کیا یا ہے : اس کا معنی ہے آپ ﷺ کے رب نے آپ ﷺ کو جو رسالت کی تبلیغ کا حکم دیا ہے اس پر صبر کیجیے۔ ابن بحر نے کہا، اپنے رب کی نصرت (میں تاخیر) پر صبر کیجیے۔ قتادہ نے کہا، جلدی نہ کیجیے اور ناراض نہ ہوں آپ ﷺ کی مدد ضرور کی جائے گی۔ ایک ضول یہ کیا گیا ہے : یہ آیت، آیت سیف سے منسوخ ہے۔ ولاتکن کصاحب الحوت مراد حضرت یونس (علیہ السلام) ہیں یعنی غضب، اندرونی پریشانی اور جلد بازی میں حضرت یونس (علیہ السلام) کی طرح نہ ہوجائیے۔ قتادہ نے کہا : اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم ﷺ کو صبر کی تلقین کرتا ہے اور صبر کا حکم دیتا ہے جس طرح صاحب حوت نے جلدی کی اللہ کا رسول جلدی نہیں کرتا (2) اس کی وضاحت سورة یونس، سورة انبیاء اور سورة صافات میں گزر چکی ہے۔ ذی اور صاحب کی اضافت کے بارے میں گفتگو سورة یونس میں گزر چکی ہے یہاں اعادہ کی ضرورت نہیں۔ اذنادی جب حضرت یونس نے مچھلی کے پیٹ میں دعا کی لا الہ الا انت سبحنک انی کنت من الظلمین۔ (3) وھو مکظوم۔ وہ غم سے بھرے ہوئے تھے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے، وہ کرب سے بھرے ہوئے تھے۔ پہلا قول حضرت ابن عباس اور دوسرا مجاہد کا ہے۔ دوسرا قول عطا اور باو مالک کا ہے۔ ماوردی نے کہا، دونوں میں فرق یہ ہے کہ غم دل میں ہوتا ہے اور کرب انفاس میں ہوتا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : مکظوم کا معنی محبوس ہے۔ کضم کا معنی حبس ہے یعنی روکنا۔ اسی معنی میں یہ قول ہے : فلاں کضم غیضہ فلان نے اپنا غصہ روک لیا، یہ ابن بحر کا قول ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ کظلمہ سے ماخوذ ہے اس سے مراد نفس کی نالی ہے، یہ مبرد کا قول ہے۔ یہ اور دوسری چیزیں سورة یوسف میں گزر چکی ہیں۔
Top