Tafheem-ul-Quran - Al-A'raaf : 93
فَتَوَلّٰى عَنْهُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَكُمْ١ۚ فَكَیْفَ اٰسٰى عَلٰى قَوْمٍ كٰفِرِیْنَ۠   ۧ
فَتَوَلّٰي : پھر منہ پھیرا عَنْهُمْ : ان سے وَقَالَ : اور کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم لَقَدْ : البتہ اَبْلَغْتُكُمْ : میں نے پہنچا دئیے تمہیں رِسٰلٰتِ : پیغام (جمع) رَبِّيْ : اپنا رب وَنَصَحْتُ : اور خیر خواہی کی لَكُمْ : تمہاری فَكَيْفَ : تو کیسے اٰسٰي : غم کھاؤں عَلٰي : پر قَوْمٍ : قوم كٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
اور شعیبؑ یہ کہہ کر ان کی بستیوں سے نِکل گیا کہ ”اے برادرانِ قوم، میں نے اپنے ربّ کے پیغامات تمہیں پہنچا دیے اور تمہاری خیر خواہی کا حق ادا کر دیا۔ اب میں اُس قوم پر کیسے افسوس کروں جو قبولِ حق سے انکار کرتی ہے۔76
سورة الْاَعْرَاف 76 یہ جتنے قصے یہاں بیان کیے گئے ہیں ان سب میں ”سرِّ دلبراں در حدیث دیگراں“ کا انداز اختیار کیا گیا ہے۔ ہر قصہ اس معاملہ پر پورا پورا چسپاں ہوتا ہے جو اس وقت محمد ﷺ اور آپ کی قوم کے درمیان پیش آ رہا تھا۔ ہر قصہ میں ایک فریق بنی ہے جس کی تعلیم، جس کی دعوت، جس کی نصیحت و خیر خواہی، اور جس کی ساری باتیں بعینہ وہی ہیں جو محمد ﷺ کی تھیں۔ ور دوسرا فریق حق سے منہ موڑنے والی قوم ہے جس کی اعتقادی گمراہیاں، جس کی اخلاقی خرابیاں، جس کی جاہلانہ ہٹ دھرمیاں، جس کے سرداروں کا استکبار، جس کے منکروں کا اپنی ضلالت پر اصرار، غرض سب کچھ وہی ہے جو قریش میں پایا جاتا تھا۔ پھر ہر قصے میں منکر قوم کا جو انجام پیش کیا گیا ہے اس سے دراصل قریش کو عبرت دلائی گئی ہے کہ اگر تم نے خدا کے بھیجے ہوئے پیغمبر کی بات نہ مانی اور اصلاح حال کا جو موقع تمہیں دیا جا رہا ہے اسے اندھی ضد میں مبتلا ہو کر کھو دیا تو آخر کار تمہیں بھی اسی تباہی و بربادی سے دوچار ہونا پڑے گا جو ہمیشہ سے گمراہی و فساد پر اصرار کرنے والی قوموں کے حصہ میں آتی رہی ہے۔
Top