Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 93
فَتَوَلّٰى عَنْهُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَكُمْ١ۚ فَكَیْفَ اٰسٰى عَلٰى قَوْمٍ كٰفِرِیْنَ۠   ۧ
فَتَوَلّٰي : پھر منہ پھیرا عَنْهُمْ : ان سے وَقَالَ : اور کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم لَقَدْ : البتہ اَبْلَغْتُكُمْ : میں نے پہنچا دئیے تمہیں رِسٰلٰتِ : پیغام (جمع) رَبِّيْ : اپنا رب وَنَصَحْتُ : اور خیر خواہی کی لَكُمْ : تمہاری فَكَيْفَ : تو کیسے اٰسٰي : غم کھاؤں عَلٰي : پر قَوْمٍ : قوم كٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
تو وہ ان کو یہ کہہ کر چھوڑ کر چل دیا کہ اے میرے ہم قومو، میں نے تمہیں اپنے رب کے پیغام پہنچا دیے، تمہاری خیر خواہی کردی تو اب میں کفر کرنے والوں کا غم کیوں کروں ! !
فَتَوَلّٰي عَنْهُمْ وَقَالَ يٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّيْ۔ یہی آیت الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ اوپر قوم صالح کی سرگزشت میں گزر چکی ہے۔ ملاحظ ہو آیت 79۔ وہاں ہم نے اس کے موقع و محل کی تفصیل سے وضاحت کی ہے۔ حضرت شعیب ؑ نے یہ بات درحقیقت اس وقت فرمائی ہے جب انہوں نے خدا کی طرف سے حکم ہجرت مل جانے کے بعد اعلان برات کر کے ہجرت فرمائی ہے لیکن عذاب کی مبادرت دکھانے کے لیے اس کا ذکر عذاب کے ذکر کے بعد ہوا۔ اس اسلوب کی مثالیں قرآن میں ایک سے ایک بڑھ کر لطیف موجود ہیں جو پیچھے بھی گزر چکی ہیں اور آگے بھی آئیں گی۔ فَكَيْفَ اٰسٰي عَلٰي قَوْمٍ كٰفِرِيْنَ میں مرجد افسوس کی نفی نہیں بلکہ ہمدردانہ افسوس کی نفی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ میں نے تمہیں خدا کا پیغام پہنچا دیا اور تمہاری خیر خواہی میں اپنے دن رات ایک کردیے۔ اس سب کے باوجود بھی اگر تم اپنا بیڑا غرق کرنے پر تلے بیٹھے ہو تو اب میرے لیے تمہارے اس انجام پر ترس کھانے کا کیا موقع باقی رہا ! !
Top