Tafheem-ul-Quran - At-Tawba : 39
اِلَّا تَنْفِرُوْا یُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا١ۙ۬ وَّ یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَكُمْ وَ لَا تَضُرُّوْهُ شَیْئًا١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
اِلَّا تَنْفِرُوْا : اگر نہ نکلو گے يُعَذِّبْكُمْ : تمہیں عذاب دے گا عَذَابًا : عذاب اَلِيْمًا : دردناک وَّ : اور يَسْتَبْدِلْ : بدلہ میں لے آئے گا قَوْمًا : اور قوم غَيْرَكُمْ : تمہارے سوا وَلَا تَضُرُّوْهُ : اور نہ بگاڑ سکو گے اس کا شَيْئًا : کچھ بھی وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز پر قَدِيْرٌ : قدرت رکھنے والا
تم نہ اُٹھو گے تو خدا تمہیں دردناک سزا دے گا،40 اور تمہاری جگہ کسی اور گروہ کو اُٹھائے گا،41 اور تم خدا کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکو گے، وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے
سورة التَّوْبَة 40 اسی سے یہ مسئلہ نکلا ہے کہ جب تک نفیر عام (جنگی خدمت کے لیے عام بلاوا) نہ ہو، یا جب تک کسی علاقے کی مسلم آبادی یا مسلمانوں کے کسی گروہ کو جہاد کے لیے نکلنے کا حکم نہ دیا جائے، اس وقت تک تو جہاد فرض کفایہ رہتا ہے، یعنی اگر کچھ لوگ اسے ادا کرتے رہیں تو باقی لوگوں پر سے اس کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے۔ لیکن جب امام المسلمین کی طرف سے مسلمانوں کو جہاد کا عام بلاوا ہوجائے، یا کسی خاص گروہ یا خاص علاقے کی آبادی کو بلاوا دے دیا جائے تو، پھر جنہیں بلاوا دیا گیا ہو ان پر جہاد فرض عین ہے، حتٰی کہ جو شخص کسی حقیقی معذوری کے بغیر نہ نکلے اس کا ایمان تک معتبر نہیں ہے۔ سورة التَّوْبَة 41 یعنی خدا کا کام کچھ تم منحصر نہیں ہے کہ تم کرو گے تو ہوگا ورنہ نہ ہوگا۔ درحقیقت یہ تو خدا کا فضل و احسان ہے کہ وہ تمہیں اپنے دین کی خدمت کا زرین موقع دے رہا ہے۔ اگر تم اپنی نادانی سے اس موقع کو کھو دو گے تو خدا کسی اور قوم کو اس کی توفیق بخش دے گا اور تم نامراد رہ جاؤ گے۔
Top