Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 44
فَذَرْنِیْ وَ مَنْ یُّكَذِّبُ بِهٰذَا الْحَدِیْثِ١ؕ سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَۙ
فَذَرْنِيْ : پس چھوڑدو مجھ کو وَمَنْ يُّكَذِّبُ : اور جو کوئی جھٹلاتا ہے بِهٰذَا : اس الْحَدِيْثِ : بات کو سَنَسْتَدْرِجُهُمْ : عنقریب ہم آہستہ آہستہ کھینچیں گے ان کو مِّنْ حَيْثُ : جہاں سے لَا يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتے نہ ہوں گے
پس تو مجھ کو اور ان کو جو اس کتاب کو جھٹلا رہے ہیں چھوڑ دے ہم ان کو درجہ بدرجہ (جہنم کی طرف) لیے جا رہے ہیں اس طرح کہ ان کو خبر تک نہیں
آپ سمجھے اور اس کتاب کے جھٹلانے والوں کو چھوڑ دیں ہم ان کو دوزخ کی طرف لے جائیں گے 44 ؎ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان کو ٹھوکر لگتی ہے اور وہ منہ کے بل گرتا ہے ، اس کو تکلیف پہنچتی ہے اور بعض کا زیادہ ہی نقصان ہوجاتا ہے تاہم اگر اس کی قسمت باور کرے اور اس کا مقدر درست ہو تو ایسے لوگ اس ٹھوکر سے سنبھل جاتے ہیں جیسے ان لوگوں کی حالت تھی جو پیچھے باغ والوں کی تمثیل میں بیان کئے گئے کہ ان کا نقصان ہوا لیکن بات ان کی سمجھ میں آگئی۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان کو ٹھوکر لگتی ہے لیکن وہ سنبھلنے کی بجائے ٹھوکر میں مزید پختہ ہوجاتا ہے اور اپنے نظریہ کو قطعاً نہیں بدلتا بلکہ جوں جوں ان کی رسی ڈھیلی کی جاتی ہے اور ان کی دولت اور عزت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے تو پہلے اگر وہ ضلع کونسل میں تھے تو اب ایم پی اے ہوگئے اور اگر ایم پی اے تھے تو ان کو ایم این اے بننے کا موقع مل گیا اور پھر اس طرح وہ کسی وزارت اور صدارت کو حاصل کر گئے تو ان کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی کہ وہ اگر ڈیڑھ چھائل تھے تو اب ڈھائی چھائل ہوگئے پہلے چھوٹے چھوٹے ظلم کرتے تھے اور اب بڑے بڑے ظلم ڈھانے لگے اور ان کو یہ غلطی لگ گئی کہ شاید انہی مظالم کے باعث عہدے بڑھتے ہیں اور مال و دولت جمع کرنے کا یہی وہ نسخہ ہے اس لئے جو کچھ وہ کر رہے ہیں بس یہی عادات و خصائل اللہ میاں کو بھی پسند ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان ظالموں کی رسی دراز کی جا رہی ہے کہ جتنے ظلم چاہتے ہو اس دنیا میں کھل کر کرلو کہ عنقریب اس دنیا کی زندگی ختم ہونے والی ہے اور آخرت کا دن آنے والا ہے جو تمہارے لئے رسوائی کا دن ہے اور اس روز تک کو ان ظلموں کا صحیح صحیح بدلہ دیا جائے گا۔ ان کی اسی حالت کے پیش نظر آیت میں ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ یہ ظالم جو نت نئے ظلم کے دروازے کھول رہے ہیں آپ ﷺ ان کو مجھ پر چھوڑ دیں یعنی ان کی خبر میں خود لے لوں گا کیونکہ میں نے ہی ان کی رسی ڈھیلی کی ہے اور میں ہی نے ان کی آزمائش کے لئے قاعدہ و قانون مقرر کردیا ہے اور ان لوگوں کو اس طرح درجہ بدرجہ بلند سے بلند تر کئے جا رہا ہوں کہ جتنا بلند ہونے کا ان کو خیال بھی نہیں تھا اور یہ اس لئے بھی ہے کہ اس دنیا کی زندگی کا قاعدہ ہم نے یہ مقرر ہی نہیں کیا کہ اس دنیا میں صرف اور صرف ان لوگوں کو دیا جائے جو نیک و پارسا ہوں کیونکہ میں صرف نیک اور پارسائوں کا رب نہیں ہوں بلکہ کافروں ، مشرکوں اور سارے نافرمانوں کا بھی رب ہوں اس لئے ہم نے اس دنیا کے قانون میں یہ اصول ہی نہیں بنایا کہ یہاں صرف فرمانبرداروں کو ملے اور نافرمانوں کو نہ ملے بلکہ جن اصولوں کے تحت اس دنیا میں مال دیا جاتا ہے ان اصولوں کے مطابق نافرمان ، اکھڑ ، ہیکٹر اور جاہل ، نادان لوگ زیادہ حاصل کرلیتے ہیں اور ان کو دیا جاتا ہے جتنی وہ کوشش اور ہمت کرتے ہیں اور ان کو اندھا دھند رزق دیا جاتا ہے اور ان کو اتنا ملتا ہے کہ وہ اس کا حساب تک نہیں کرسکتے۔
Top