Tafseer-al-Kitaab - Al-Hajj : 52
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّ لَا نَبِیٍّ اِلَّاۤ اِذَا تَمَنّٰۤى اَلْقَى الشَّیْطٰنُ فِیْۤ اُمْنِیَّتِهٖ١ۚ فَیَنْسَخُ اللّٰهُ مَا یُلْقِی الشَّیْطٰنُ ثُمَّ یُحْكِمُ اللّٰهُ اٰیٰتِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌۙ
وَمَآ اَرْسَلْنَا : اور نہیں بھیجا ہم نے مِنْ قَبْلِكَ : تم سے پہلے مِنْ : سے۔ کوئی رَّسُوْلٍ : رسول وَّلَا : اور نہ نَبِيٍّ : نبی اِلَّآ : مگر اِذَا : جب تَمَنّىٰٓ : اس نے آرزو کی اَلْقَى : ڈالا الشَّيْطٰنُ : شیطان فِيْٓ : میں اُمْنِيَّتِهٖ : اس کی آرزو فَيَنْسَخُ : پس ہٹا دیتا ہے اللّٰهُ : اللہ مَا يُلْقِي : جو ڈالتا ہے الشَّيْطٰنُ : شیطان ثُمَّ : پھر يُحْكِمُ اللّٰهُ : اللہ مضبوط کردیتا ہے اٰيٰتِهٖ : اپنی آیات وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
اور (اے پیغمبر، ) ہم نے تم سے پہلے کوئی ایسا رسول نہیں بھیجا اور نہ نبی (جسے یہ معاملہ نہ پیش آیا ہو) کہ جب اس نے (اللہ کی آیتیں) پڑھ کر سنائیں (تو) شیطان نے اس کے پڑھنے (کے بارے) میں (طرح طرح کے شبہات لوگوں کے دلوں میں) ڈال دئیے۔ پھر اللہ شیطان کے ڈالے ہوئے (شبہات) کو مٹا دیتا ہے اور اپنی آیتوں کو (اور زیادہ) پختہ کردیتا ہے اور اللہ (سب کچھ) جاننے والا (اور) حکمت والا ہے۔
[38] رسول اور نبی کے فرق کے بارے میں ملاحظہ ہو سورة مریم حاشیہ 20 صفحہ 715۔ [39] اصل میں الفظ تمنّیٰ استعمال ہوا ہے جس کے دو معنی ہیں، ایک معنی کسی چیز کی خواہش یا آرزو کے اور دوسرے معنی تلاوت کے ہیں یعنی کسی چیز کو پڑھنا۔ یہاں دوسرے معنی مراد ہیں۔ [40] یعنی جب بھی پیغمبر نے کلام الٰہی لوگوں کو سنایا تو شیطان نے اس کے بارے میں لوگوں کے دلوں میں وسوسہ اندازی کر کے شکوک و شبہات پیدا کر دئیے۔ مثلاً نبی نے آیت حرم علیکم المیتۃ (تم پر مردار حرام کیا گیا) پڑھ کر سنائی تو شیطان نے شبہ ڈالا کہ دیکھو اپنا مارا ہوا تو حلال اور اللہ کا مارا ہوا حرام کیسے ہوا۔ [41] یعنی شیطان کے ڈالے ہوئے شبہات کو اللہ رفع کردیتا ہے اور ایک آیت سے جو شبہات پیدا ہوتے ہیں انھیں بعد کی واضح تر آیات سے صاف کردیا جاتا ہے۔
Top