Tafseer-al-Kitaab - At-Tawba : 31
اِتَّخَذُوْۤا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ١ۚ وَ مَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِیَعْبُدُوْۤا اِلٰهًا وَّاحِدًا١ۚ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ؕ سُبْحٰنَهٗ عَمَّا یُشْرِكُوْنَ
اِتَّخَذُوْٓا : انہوں نے بنا لیا اَحْبَارَهُمْ : اپنے احبار (علما) وَرُهْبَانَهُمْ : اور اپنے راہب (درویش) اَرْبَابًا : رب (جمع) مِّنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا وَالْمَسِيْحَ : اور مسیح ابْنَ مَرْيَمَ : ابن مریم وَمَآ : اور نہیں اُمِرُوْٓا : انہیں حکم دیا گیا اِلَّا : مگر لِيَعْبُدُوْٓا : یہ کہ وہ عبادت کریں اِلٰهًا وَّاحِدًا : معبود واحد لَآ : نہیں اِلٰهَ : کوئی معبود اِلَّا هُوَ : اس کے سوا سُبْحٰنَهٗ : وہ پاک ہے عَمَّا : اس سے جو يُشْرِكُوْنَ : وہ شرک کرتے ہیں
ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے علماء اور مشائخ کو اپنا رب بنا لیا ہے اور مریم کے بیٹے مسیح کو بھی ' حالانکہ انہیں ایک معبود (برحق) کے سوا (کسی اور کی) بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا ' وہ ( اللہ) جس کے سوا کوئی (اور) معبود نہیں ' وہ ان کی مشرکانہ باتوں سے پاک ہے۔
[17] احادیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے جب یہ آیت پڑھی تو نومسلم عیسائی عدی بن حاتم نے عرض کیا کہ ہم اپنے علماء و مشائخ کو اِلٰہ کب مانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ کیا ایسا نہیں ہے کہ جس بات کو وہ حرام ٹھہرا دیتے ہیں تم حرام سمجھ لیتے ہو اور جس بات کو حلال کہہ دیتے ہیں تم حلال مان لیتے ہو ؟ انہوں نے عرض کیا کہ یہ تو ہم ضرور کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ بس یہی ان کو اِلٰہ بنا لینا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اپنے پیشواؤں کو تشریع دین کا حق دے دینا یعنی اس بات کا حق کہ جو کچھ وہ اپنی خواہش اور رائے سے ٹھہرا دیں اس کی بلاچون و چرا اطاعت کرنی قرآن کے نزدیک انہیں اِلٰہ بنا لینا ہے۔ افسوس کہ مسلمان بھی اس گمراہی سے نہ بچ سکے۔ انہوں نے بھی اپنے آئمہ و مشائخ کو مستقل مطاع قرار دے کر عملاً انہیں اِلٰہ کے درجے پر پہنچا دیا ہے۔ یہ قرآن اور سنت کو چھوڑ دیں گے لیکن اپنے امام یا شیخ کے قول کو نہ چھوڑیں گے۔
Top