Urwatul-Wusqaa - Al-Kahf : 83
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنْ ذِی الْقَرْنَیْنِ١ؕ قُلْ سَاَتْلُوْا عَلَیْكُمْ مِّنْهُ ذِكْرًاؕ
وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور آپ سے پوچھتے ہیں عَنْ : سے (بابت) ذِي الْقَرْنَيْنِ : ذوالقرنین قُلْ : فرمادیں سَاَتْلُوْا : ابھی پڑھتا ہوں عَلَيْكُمْ : تم پر۔ سامنے مِّنْهُ : اس سے۔ کا ذِكْرًا : کچھ حال
آپ ﷺ سے ذوالقرنین کا حال دریافت کرتے ہیں تم کہہ دو میں اس کا کچھ حال تمہیں پڑھ کر سنا دیتا ہوں
ذوالقرنین کا حال آپ ﷺ سے دریافت کرتے ہیں تو آپ ﷺ ان کو بتادیں : 89۔ سلف میں اگرچہ ” ذوالقرنین “۔ کے متعلق بہت کچھ بیان کیا گیا ہے لیکن آج اگر اس کو بیان کیا جائے گا تو لوگ ہنسیں گے اگرچہ وہ اسلام کی باتیں سمجھ کر منہ سے کچھ نہ کہیں ، یہی وجہ ہے کہ متاخرین نے اس سلسلہ میں دو راہیں اختیار کیں ایک جماعت سلف کے بعض اقوال کو نقل کرنے کے بعد یہ کہہ دینے پر اکتفا کرتی ہے کہ زیر بحث باتیں جو قرآن کریم کے بیان کردہ ” ذوالقرنین “ کے ساتھ پوری طرح مطابقت نہیں رکھتیں اس لئے ہمارے لئے یہ کافی ہے کہ ایک طرف یہ یقین جانیں کہ قرآن کریم نے جس حد تک ” ذوالقرنین “ کی شخصیت پر روشنی ڈالی ہے اس کو حق سمجھیں اور باقی تفصیلات اللہ کے سپرد کردیں ، اور اسی طرح بیان کرتے چلیں جس طرح سنتے آئے ہیں ۔ لیکن دوسری جماعت اس بات کے درپے ہے کہ قرآن کریم کی عطا کردہ روشنی میں ان حقائق کی تفصیلات کو واضح کریں چناچہ اس سلسلہ میں جو کوشش انہوں نے کی وہ بہت حد تک کامیاب رہی اور بہت سے گوشے روشنی میں آئے اور کتنے حقائق تھے جو واضح ہوئے ، اس سوال کے متعلق جو قریش نے یہود کے ایما پر کیا تھا اس کا ذکر ہم سورت کے شروع میں کرچکے ہیں اور بار بار دہرانے کی ضرورت نہیں ، بہرحال ” ذوالقرنین “ کا سوال بھی انہیں سوالوں میں سے ایک ہے ۔ اس کا جو جواب قرآن کریم میں دیا گیا وہ ان لوگوں کے لئے مسکت تھا جو مخاطبین اول تھے اور آج کی تحقیق ان لوگوں کے لئے یقینا مسکت ہے جنہوں نے اسلام پر اعتراض کرتے ہوئے اس کو ایک وہمی مفروضہ قرار دیا ہے ۔ ” ذوالقرنین “ کس شخصیت کا لقب ہے ؟ اس بحث کے لئے دو شخصیتیں سامنے آتی ہیں سکندر مقدونی اور پارس کے ایک نوجوان گورش جسے یونانیوں نے ” سائرس “ عبرانیوں نے ” خورس “ اور عربوں نے ” خسرو “ کے نام سے یاد کیا ۔ لیکن اس بحث نے اتنا طول پکڑا کہ اگر اس کا مختصر سے مختصر ذکر بھی کیا جائے تو کم از کم 400 صفحات سے زائد کی کتاب تیار ہوجائے ، اس ساری بحث کا نتیجہ متاخرین نے یہ نکالا کہ قرآن کریم کا بیان کردہ ” ذوالقرنین “ دوسری شخصیت یعنی گورش جس کو سائرس ‘ خورس اور خسرو کے ناموں سے بھی یاد کیا جاتا ہے یہی ہے اور سکندر مقدونی قطعا اس شخصیت سے مراد نہیں لیا جاسکتا ۔ اور یہی بات صحیح ہے ۔ اس کی مختصر سی تفصیلات دیکھنا ہوں تو قصص القرآن حفظ الرحمن سیوہاروی کی جلد سوم میں عنوان ” ذوالقرنین “ کا مطالعہ کریں اور تفسیری اوراق میں دیکھنا مطلوب ہوں تو ترجمان القرآن جلد دوم تفسرن سورة الکہف کے آخر میں ایک مقالہ ” ذوالقرنین “ کو دیکھیں دونوں کتابیں اردو زبان میں ہیں اور عام جگہوں میں دستیاب ہیں اس لئے ہمیں انہی پر اکتفا کرنا ہے اس لئے تفصیلات درج کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہاں تفسیر نوٹس میں جو آئے گا اس کو دیکھتے جائیں ۔
Top