Urwatul-Wusqaa - Al-Anbiyaa : 88
فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ١ۙ وَ نَجَّیْنٰهُ مِنَ الْغَمِّ١ؕ وَ كَذٰلِكَ نُـْۨجِی الْمُؤْمِنِیْنَ
فَاسْتَجَبْنَا : پھر ہم نے قبول کرلی لَهٗ : اس کی وَنَجَّيْنٰهُ : اور ہم نے اسے نجات دی مِنَ الْغَمِّ : غم سے وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح نُْۨجِي : ہم نجات دیتے ہیں الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
تب ہم نے اس کی پکار سن لی اور غمگینی سے اس کو نجات دی ، ہم اس طرح ایمان والوں کو نجات دیا کرتے ہیں
حضرت یونس (علیہ السلام) کی پکار سن لی اور ان کو نبوت عطا کر کے قوم کی طرف واپس جانے کا حکم سنایا : 88۔ حضرت یونس (علیہ السلام) ایسی مضطرب حالت میں اپنے وطن سے بھاگے تھے کہ آپ کی کوئی منزل نہیں تھی کہ کدھر جانا ہے اہل کشتی میں سوار ہوئے تو آپ نے اپنا غم اللہ تعالیٰ کی توحید بیان کرکے ہلکا کیا اور کشتی بہرحال اپنی منزل مقصود کو پہنچ گئی سارے لوگ اپنی اپنی منزل کو سدھارے لیکن جس کی کوئی منزل ہی نہ تھی اس پر کیا بیتی ہوگی یہ وہی شخص جان سکتا ہے جس کی اپنی منزل گم ہوچکی ہو اور وہ تن تنہا میدان میں رہ گیا ہو جہاں نہ کسی سے کوئی جان پہچان ہو اور نہ کسی کی اس سے یا اس کی کسی سے کوئی غرض ہی وابستہ ہو ۔ کہا جاتا ہے کہ خدا کرے کہ اکیلا درخت بھی نہ ہو ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس (علیہ السلام) کے نینوی سے نکلنے کے بعد آپ کی قوم کو توبہ وانابت کی توفیق دی انہوں نے توبہ میں مثال قائم کردی اور اللہ تعالیٰ نے ان کو معاف فرما دیا اور ادھر مضطرب اور مجبور یونس کو وحی الہی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ان کو نبی بنا کر اس قوم کی طرف واپس کردیا اور ایک وقت تک وہ اپنی قوم میں رہ کر ان کو تبلیغ کرتے رہے تفصیل اس کی سورة یونس کی آیت 98 کے بعد مختصر سرگزشت کے مضمون میں ملے گی جیسا کہ گزشتہ آیت کے حاشیہ میں آپ پڑھ چکے وہاں سے ملاحظہ فرما لیں۔
Top