Urwatul-Wusqaa - Al-Muminoon : 28
فَاِذَا اسْتَوَیْتَ اَنْتَ وَ مَنْ مَّعَكَ عَلَى الْفُلْكِ فَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ نَجّٰىنَا مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ
فَاِذَا : پھر جب اسْتَوَيْتَ : تم بیٹھ جاؤ اَنْتَ : تم وَمَنْ : اور جو مَّعَكَ : تیرے ساتھ (ساتھی) عَلَي : پر الْفُلْكِ : کشتی فَقُلِ : تو کہنا الْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کے لیے الَّذِيْ : وہ جس نے نَجّٰىنَا : ہمیں نجات دی مِنَ : سے الْقَوْمِ : قوم الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور جب تو اپنے ساتھیوں کے ساتھ کشتی میں سوار ہوجائے تو اس وقت تیری زبان سے یہ صدا اٹھے ساری ستائشیں اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں ظالم قوم سے نجات دی
جب تم کشتی پر سوار ہوگئے تو بس نجات پاگئے اب حمد الہی کا ترانہ گاؤ : 28۔ کشتی پر سوار ہونے سے پہلے ہی سیدنا نوح (علیہ السلام) کو بتادیا گیا کہ جب تم اور تمہارے ساتھی اور تمہاری ضرورت کی اشیاء وجانور اور چوپائے سوار ہوجائیں تو سمجھ لو کہ جو کشتی میں داخل ہوگئے اس عذاب الہی سے نجات پا گئے گویا وہی بچ سکیں گے جو کشتی پر سوار ہوں گے ‘ یہ بات اتنی وضاحت سے کیوں ارشاد فرمائی ؟ اس لئے کہ حالات کا تقاضا یہ تھا کہ اگر پانی امڈ آیا تو باقی لوگوں میں سے کچھ بچے گا یا نہیں لیکن کشتی والوں کی غرقابی یقینی ہے ‘ کیوں ؟ اس لئے کہ یہ سارا علاقہ پہاڑی علاقہ ہے اور کشتی پانی پر تیرتی ہوئی پانی کے زور ہی سے کسی نہ کسی پہاڑ کے ساتھ ٹکڑا کر پاش پاش ہوجائے گی ایسا نہیں ہو سکتا کہ کشتی پر سوار ہونے والے بچ جائیں اس لئے رب ذوالجلال والاکرام نے سیدنا نوح (علیہ السلام) کو پوری وضاحت سے یقین دلا دیا کہ ایسا نہیں ہوگا جیسا کہ حالات کا ظاہری تقاضا آپ کو اور دوسروں لوگوں کو نظر آتا ہے اس لئے کہ اس کشتی پر سوار ہونے کا حکم ہم دے رہے ہیں اور اس پانی کو امڈ آنے کا حکم بھی ہمارا ہے لہذا ہمارے حکم سے نہ کشتی باہر ہے اور نہ ہی یہ سیلاب جب ہم ایک بات کا اعلان کر رہے ہیں تو ایسا کیونکر ہوسکتا ہے کہ ہمارے اعلان کے خلاف ہوجائے اس طرح سیدنا نوح (علیہ السلام) کو پوری یقین دہانی کرائی گئی اور حکم دیا گیا کہ جب تم کشتی پر سوار ہوجاؤ تو اللہ تعالیٰ کی تعریفات کے گیت گاؤ جس نے تم کو ظالموں کے پنچہ استبداد سے نجات عطا فرما دی اور اچھی طرح سمجھ لو کہ جب وہ کسی کو نجات دینا چاہتا ہے تو اس طرح اس کا ہاتھ ظاہر ہو کر مخالفین کا گلا دبا دیتا ہے اس لئے کہا جاتا ہے کہ ” خدا کی لاٹھی میں آواز نہیں ہوتی “ پتہ تب چلتا ہے جب ظالموں کے سر قلم ہوجاتے ہیں ۔
Top