Urwatul-Wusqaa - Al-Muminoon : 33
وَ قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِهِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ كَذَّبُوْا بِلِقَآءِ الْاٰخِرَةِ وَ اَتْرَفْنٰهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ۙ مَا هٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ١ۙ یَاْكُلُ مِمَّا تَاْكُلُوْنَ مِنْهُ وَ یَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُوْنَ۪ۙ
وَقَالَ : اور کہا الْمَلَاُ : سرداروں مِنْ قَوْمِهِ : اس کی قوم کے الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا وَكَذَّبُوْا : اور جھٹلایا بِلِقَآءِ : حاضری کو الْاٰخِرَةِ : آخرت وَاَتْرَفْنٰهُمْ : اور ہم نے انہیں عیش دیا فِي : میں الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی مَا ھٰذَآ : یہ نہیں اِلَّا : مگر بَشَرٌ : ایک بشر مِّثْلُكُمْ : تمہیں جیسا يَاْكُلُ : وہ کھاتا ہے مِمَّا : اس سے جو تَاْكُلُوْنَ : تم کھاتے ہو مِنْهُ : اس سے وَيَشْرَبُ : اور پیتا ہے مِمَّا : اس سے جو تَشْرَبُوْنَ : تم پیتے ہو
قوم کے جن سرداروں نے کفر کی راہ اختیار کی تھی اور آخرت کے پیش آنے سے منکر تھے اور جنہیں دنیا کی زندگی میں ہم نے آسودگی دے رکھی تھی کہنے لگے اس سے زیادہ اس کی کیا حیثیت ہے کہ تمہارے ہی جیسا ایک آدمی ہے ؟ جو کچھ تم کھاتے ہو یہ بھی کھاتا ہے ، جو کچھ تم پیتے ہو یہ بھی پیتا ہے
ساری کافر قوموں نے ایک ہی جیسا سوال اٹھایا کہ کبھی بشر رسول نہیں ہوسکتا : 33۔ آدم (علیہ السلام) کے بعد جتنے رسولوں کا نام لے کر ذکر کیا اور جن کا بغیر نام کے ذکر ہوا سب کے متعلق یہ بیان کیا گیا کہ ہر رسول کی قوم نے رسول کو ماننے سے اس لئے انکار کیا کہ انہوں نے رسول کو بشر و انسان پایا اور سب سے پہلا اعتراض ان کا یہی تھا کہ تم آخر ہو کیا ؟ ایک بشر ہی تو ہو پھر ہم بھی بشر اور تم بھی بشر اس لئے ہم تمہاری رسالت کو کیونکر قبول کرلیں جب کہ ہم اپنے آباؤ اجداد سے سنتے آرہے ہیں کہ رسول کبھی بشر نہیں ہوتا ۔ سورة بنی اسرائیل میں ان میں سے بعض کا یہ اعتراض بھی نقل کیا جا چکا ہے کہ یہ تو کھاتا ہے جیسے ہم کھاتے ہیں اور پیتا ہے جیسے ہم سب پیتے ہیں اور بازاروں میں سودا سلف خریدنے لئے جاتا ہے جیسے ہم جاتے ہیں ۔ یہ تو اسی طرح پیدا ہوا جیسے ہم سب پیدا ہوئے ہیں پھر آخر ہم اس کو رسول مانیں تو کیسے ؟ یہاں بھی انہی سوالوں میں سے دو سوالوں کا ذکر کیا گیا کہ یہ بشر بھی ہے اور ہماری طرح کھاتا پیتا بھی ہے ، چونکہ ان ساری باتوں کی تفصیل پیچھے سورة ہود آیت 27 ‘ سورة یوسف آیت 31 ‘ سورة الحجر آیت 28 ‘ سورة بنی اسرائیل آیت 93 ‘ 94 سورة مریم آیت 17 میں گزر چکی ہے ۔ اس لئے وہیں سے کسی مقام کو ملاحظہ فرما لیں ۔ ہاں ! رہی یہ بات کہ بار بار اس کا ذکر کیوں کیا گیا ؟ محض اس لئے کہ نبی اعظم وآخر ﷺ کو دیکھ کر بھی کفار مکہ نے یہی اعتراض کیا تھا اس لئے بار بار آپ ﷺ کو بتایا گیا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہر نبی کو ایسا کہا گیا ہے لہذا آپ ﷺ اپنا کام کئے جائیں لیکن افسوس کہ آج بھی اکثریت سارے نبیوں ‘ رسولوں کے متعلق اور خصوصا نبی کریم ﷺ کے متعلق یہی نظریہ رکھتی ہے کہ وہ بشر نہیں تھے بلکہ بشر کہنے اور ماننے والوں کو طرح طرح سے مطعون کیا جاتا ہے اور ان کے خلاف عوام کالانعام کو اسی طرح بھڑکایا جاتا ہے جیسا کہ اس وقت انبیاء ورسل کے خلاف وہ لوگ بھڑکاتے تھے اس کی وضاحت بھی گزشتہ مقامات پر گزر چکی ہے جس کا حوالہ اوپر دیا جا چکا ہے ۔
Top