Tafseer-e-Madani - Al-Muminoon : 78
فَتَقَطَّعُوْۤا اَمْرَهُمْ بَیْنَهُمْ زُبُرًا١ؕ كُلُّ حِزْبٍۭ بِمَا لَدَیْهِمْ فَرِحُوْنَ
فَتَقَطَّعُوْٓا : پھر انہوں نے کاٹ لیا اَمْرَهُمْ : اپنا کام بَيْنَهُمْ : آپس میں زُبُرًا : ٹکڑے ٹکڑے كُلُّ حِزْبٍ : ہر گروہ بِمَا : اس پر جو لَدَيْهِمْ : ان کے پاس فَرِحُوْنَ : خوش
مگر ان لوگوں نے اپنے دین کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کردیا، ہر گروہ اسی ٹکڑے پر مگن اور مست ہے جو اس کے پاس ہے
72 تفریق دین کے جرم کا ذکر ۔ والعیاذ باللہ : سو حضرات انبیائے کرام نے تو ایک ہی دین کی دعوت دی مگر ان کی امتوں نے اس کے باوجود اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو حضرات انبیاء و رسل کا دین بھی ایک تھا اور ان سب کی دعوت بھی ایک تھی۔ لیکن اس کے باوجود ان کی امتوں نے ٹکڑے ٹکڑے کردیا آپس میں اپنے دین کو ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو جن کو حضرات انبیائے کرام نے ایک ہی دین و ملت کی تعلیم و تلقین فرمائی تھی انہوں نے آگے مختلف ناموں سے کئی دین بنا لئے۔ کوئی یہودی بن گیا، کوئی نصرانی، کوئی مجوسی اور کوئی کچھ اور۔ (صفوۃ التفاسیر وغیرہ) ۔ سو دین حق تو ایک ہی دین تھا اور ایک ہی ہے۔ اور حضرات انبیائے کرام نے اسی ایک دین کی دعوت دی تھی اور سب کو اسی کی طرف بلایا تھا۔ لیکن مختلف لوگوں اور ان کے نام نہاد مذہبی پیشواؤں نے اپنی مختلف اہواء و اَغراض اور خواہشات نفس کی بناء پر اس میں تفرقہ ڈالا اور اس کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ اور انہوں نے جانتے بوجھتے اور کھلے دلائل آجانے کے باوجود ایسے کیا۔ محض اپنی اہواء و اَغراض اور آپس کی ضد کی بناء پر۔ جیسا کہ سورة بقرۃ کی آیت نمبر 213 میں اس کی تصریح فرمائی گئی۔ سو اس آیت کریمہ میں صاف اور صریح طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ سب لوگ ایک ہی امت اور ایک ہی طریقے پر تھے۔ پھر جب انہوں نے اپنی اہواء و اَغراض کے مطابق مختلف طریقے اور راستے اپنا لیے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی ہدایت کے لیے خوشخبری سنانے والے اور خبردار کرنے والے رسول بھی بھیجے اور ان کے ساتھ اپنی کتابیں بھی اتاریں تاکہ اس طرح وہ لوگوں کے درمیان اختلافات کا فیصلہ کرسکے۔ مگر ان لوگوں نے کھلے اور واضح دلائل آجانے کے باوجود آپس میں ضد کی بنا پر اختلاف کیا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو ان اختلافات کے بارے میں نور ہدایت سے نوازا جو ایمان لائے اس کے اذن سے۔ اور اللہ تعالیٰ نور ہدایت سے نوازتا ہے جس کو چاہتا ہے سیدھے راستے کی طرف۔ (البقرۃ : 213) ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید - 73 ہر گروہ اپنے ہی ٹکڑے پر مست ہے : سو اصل حقیقت تو یہی تھی اور یہی ہے کہ سب انبیائے کرام کی دعوت ایک ہی تھی۔ اور سب کا دین ایک ہی دین تھا۔ لیکن بعد میں لوگوں نے اس کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور اس کے نتیجے میں ہر گروہ اپنے اسی ٹکڑے پر مست ہے جو اس کے پاس ہے۔ اور وہ سمجھتا ہے کہ میں ٹھیک ہوں اور کامیابی کی راہ پر چل رہا ہوں۔ وہ اس بارے میں سوچنے اور غور و فکر سے کام لینے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتا کہ حق اور حقیقت کیا ہے۔ تو پھر ایسوں کو حق اور ہدایت کا نور کیسے مل سکتا ہے ؟ ۔ والعیاذ باللہ ۔ بعینہ یہی بات تمام انبیائے کرام کی دعوت کا حوالہ دینے کے بعد سورة انبیاء میں ارشاد فرمائی گئی۔ ملاحظہ ہو سورة انبیاء آیت نمبر 92 تا 93 ۔ سو اس حقیقت کو اس طرح تکرار و تاکید کے ساتھ بیان کر کے واضح فرما دیا گیا کہ سب انبیائے کرام کی دعوت ایک ہی دعوت اور سب کا دین ایک ہی دین تھا۔ لیکن بعد میں لوگوں نے اپنی اہواء و اَغراض کی بناء پر اس کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ اور ہر گروہ اپنے ٹکڑے پر ایسا مست و مگن ہوگیا کہ حق بات سننے کو بھی تیار نہیں ہوتا ۔ الا ماشاء اللہ والعیاذ باللہ ۔ اور حق اور حقیقت بہرحال کل کی طرح آج بھی یہی ہے کہ دین حق ایک ہی دین تھا اور ایک ہی ہے۔ یعنی اسلام جو کہ دین فطرت ہے اور جو اس کائنات کا دین ہے۔ اور نجات کی راہ وہی ہے جو اس دین نے پیش فرمائی ہے اور بس ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید -
Top