Urwatul-Wusqaa - Ash-Shu'araa : 15
قَالَ كَلَّا١ۚ فَاذْهَبَا بِاٰیٰتِنَاۤ اِنَّا مَعَكُمْ مُّسْتَمِعُوْنَ
قَالَ : فرمایا كَلَّا : ہرگز نہیں فَاذْهَبَا بِاٰيٰتِنَآ : پس تم دونوں جاؤ ہماری نشانیوں کے ساتھ اِنَّا : بیشک ہم مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ مُّسْتَمِعُوْنَ : سننے والے
فرمایا ہرگز (ایسا) نہیں (ہو گا) پس تم دونوں ہماری نشانیوں کے ساتھ جاؤ ، ہم تمہارے ساتھ ہیں اور سنتے ہیں (جو کچھ وہ کہیں گے)
ہرگز ایسا نہیں ہوگا تم دونوں جاؤ اور پیغام پہنچاؤ میں بھی سنتا اور دیکھتا ہوں : 15۔ فرمایا اے موسیٰ تیری بات ہم نے سن لی جاؤ ہارون کو ہم نے تیرا شریک کار بنا دیا اور بےفکر ہوجاؤ فرعون ایسی کوئی حرکت نہیں کرے گا اور نہ ہی وہ کرسکتا ہے کیونکہ اس کا فیصلہ تمہاری عدم موجودگی میں ہوچکا ہے اب فرعون کے لئے ایسی سزا کے اٹھانے کا کوئی اندیشہ باقی نہیں تم پیغام پہنچاؤ جو کچھ تم اس کو کہو گے اور جو کچھ وہ تم دونوں کو جواب دے گا ہم بھی اس کو سنیں گے اور اس کا نتیجہ بھی ہم سے پوشیدہ نہیں۔ قرآن کریم کا نزول چونکہ انسانوں ہی کی زبان میں ہے اس لئے وہ سارے خدشات جو انسان کو پیش آتے رہتے ہیں وہ ان کا ذکر کرتا ہے اور اس سے تفہیم یہ کرانا مقصود ہے کہ انبیاء کرام (علیہ السلام) بھی انسان ہی ہوتے ہیں اور انسانی خدشات انکے اندر بھی موجود ہوتے ہیں اس لئے جو کرنے کا کام ہے وہ سارے خدشات کے باوجود کرنا ہی چاہئے سارے خدشات دور کرنے کے بعد کوئی کام نہیں کیا جاسکتا ، انسان اگر سارے خدشات دور کرکے کوئی کام کرنا چاہے تو وہ کچھ بھی نہیں کرسکتا اور سارے خدشات کے باوجود جو کرنا چاہے اس کے لئے قدم اٹھا دے تو اس کا پایہ تکمیل تک پہنچنا عین ممکن ہے مصلحت اندیش ہمیشہ مصلحتیں ہی سوچتے رہتے ہیں اور جو ہونا ہوتا ہے وہ وہ چکا ہوتا ہے صاحب نظر کی نظر صرف کام پر چاہئے کہ کام کرنے کا ہے یا نہیں اگر کام کرنے کا ہے تو اس کا کرنا ہی عقلمندی ہے یہی بات موسیٰ (علیہ السلام) کو اور آپ کے ذریعہ سے ساری انسانیت کو سمجھائی جا رہی ہے ہر نیک کام میں معیت الہی کا یقین کامل ہی کام کے ہوجانے کی اصل کلید ہے۔
Top