Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 137
قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ سُنَنٌ١ۙ فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِیْنَ
قَدْ خَلَتْ : گزر چکی مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے سُنَنٌ : واقعات فَسِيْرُوْا : تو چلو پھرو فِي الْاَرْضِ : زمین میں فَانْظُرُوْا : پھر دیکھو كَيْفَ : کیسا كَانَ : ہوا عَاقِبَةُ : انجام الْمُكَذِّبِيْنَ : جھٹلانے والے
تم سے پہلے بھی دنیا میں دستور اور قانون رہ چکے ہیں ، پس دنیا کی سیر کرو اور دیکھو کہ جو لوگ احکام حق کو جھٹلانے والے تھے ان کا انجام کیا ہوا اور پاداش عمل میں ان کو کیسے نتائج پیش آئے
حق جھٹلانے والوں کا انجام نگاہ میں رکھو اور اپنا انجام سمجھ جاؤ : 252: ” سُنَنٌ “ سنۃ کی جمع ہے ، ” سنت “ طریقہ کو کہتے ہیں اور عرف اسلام میں رسول اللہ ﷺ کے دیے گئے احکام یا کیے گئے کاموں کو کہا جاتا ہے اس جگہ مطلب یہ ہے کہ تم سے پہلے بہت سی قومیں آئیں اور ان کے انبیاء نے ان کو اللہ کا پیغام پہنچایا لیکن بہت ہی کم تھے جنہوں نے اس پیغام کو قبول کیا اور بہت سے لوگوں نے انکار کردیا۔ کیا تم کو معلوم نہیں کہ اس کے متعلق انہوں نے کون کون سی راہیں اختیار کی ہیں اور کیا کیا طریقے اختیار کیے اور آخرکار ان کا انجام کیا ہوا ؟ یعنی امم سابقہ کی ہلاکت اور استیصال کے طریقے کیا تھے ؟ مختصر یہ کہ آیت زیر نظر میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو خبردار کردیا کہ خبردار ہوجاؤ اگر احد میں تم کو کچھ کو فت پہنچی ہے تو وہ تمہارے اپنے کیے کے نتیجے میں پہنچی ہے اور بجائے اس کے کہ تم اپنے کیے پر پچھتاؤ کہ ہم نے کیا کردیا اور اس کا افسوس کرو اگر تم نے ہمارے رسول ہی کا انکار کردیا تو پھر رسول کے انکار کرنے والوں کا انکام بھی اچھی طرح ذہن نشین کرلو۔ اس سے ایک طرف مسلمانوں کو خبردار کردیا اور دوسری طرف منافقین کے کان بھی کھول دیے کہ تم بھی اچین طرح غور کرلو کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور رسول کبھی بھی ناکام نہیں ہوئے بلکہ ہمیشہ کامیاب ہی ہوئے اور ناکامی ہمیشہ مخالفین ہی کے حصے میں آئی۔ اگر تم کو اس بات میں کوئی شک ہے تو پچھلے مخالفین کا انجام دیکھ لو اور زمین میں چل پھر کر اچھی طرح اپنی تسلی کرلو۔ سیدنا نوح (علیہ السلام) کے وقت سے شروع ہوجاؤ اور عیسیٰ (علیہ السلام) تک جتنے انبیاء کرام کی داستانوں سے تم واقف ہو ایک ایک کر کے اچھی طرح دیکھتے جاؤ کہ کون کامیاب ہوا اور کون ناکام ؟ پھر اگر کسی معاملہ میں تم کو ابہام ہے تو معلوم حاصل کرلو یقینا تم کو ہر جگہ یہی بات نظر آئے گی کہ کامیابی رسول ﷺ کے حصے میں آئی اور ناکامی مخالفنی کا مقدر بنی اور اب بھی وہی ہوگا جو پہلے ہوتا آیا۔ رہی یہ وقتی صورت حال تو یہ تمہارے اپنے عمل کا نتیجہ تھی اور تم کو بتا دیا گیا ہے کہ جو بھی غلط عمل کرتا ہے وہ اس کے نتیجہ سے دو چار ہوتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنا خاص فضل تم پر کیا اور تمہیں ایک طرح کی ہزیمت دکھانے کے بعد پھر فتح مند کردیا اور تمہارے مخالفین فتح حاصل کرتے کرتے رہ گئے اور انجام کار بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔ ایک بار پھر سن لو کہ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے : 253: جیسے تم نے اعمال کیے ہیں ویسے ہی نتائج تم نے پا لیے اور آئندہ بھی تم کو یہ بات نہ بھولنا چاہیے کہ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔ رسول کے حکم کی نافرمانی اتنا بڑا جرم ہے کہ اس سے بڑا کوئی اور جرم نہیں۔ پھر قومی کاموں میں یہ بھی قانون خداوندی ہے کہ کام ایک بگاڑتا ہے اور خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اس لیے جن لوگوں کے ذمہ قومی کام لگائے جائیں ان کی سوچ اور ان کی فکر بہت بلند ہونی چاہیے اور یہ بھی کہ ان لوگوں کو اپنے ذاتی فوائد قومی فائدوں پر قربان کرنے چاہئیں اگر وہ ایسا نہ کریں تو وہ حقیقت میں قومی کام کرنے کے اہل نہیں ہوتے۔ جن لوگوں کو رسول اللہ ﷺ جبل عینین پر مقرر کیا تھا اور ان کی کمان عبداللہ بن جبیر کے ہاتھ میں دی تھی ان کو خصوصاً یہ ہدایت بھی کی گئی تھی کہ تم دوبارہ حکم ملنے تک یہیں رہو گے اور اس جگہ کو خالی نہیں چھوڑو گے۔ انہوں نے کیا کیا ؟ کہ فتح کی خبر سنتے ہی غنیمت لوٹنے میں مصرفو ہوگئے حالانکہ امیر نے بھی ان کو منع کیا۔ کفار میدان سے بھاگ رہے تھے کہ خالد بن ولید ؓ جو اس وقت کفار کے سپہ سالار تھے نے دیکھا کہ پیچھے سے وہ گھاٹی خالی ہے تو اس نے اچانک پلٹ کر اس طرف سے حملہ کردیا اور جو لوگ ابھی وہاں رہ گئے تھے ان کو قتل کر کے اسلامی لشکر پر پیچھے سے ٹوٹ پڑا جب کہ مسلمانوں کو اس طرف سے حملہ کی کوئی امید نہ تھی کیونکہ ان کے خیال میں یہ طرف بالکل محفوظ تھی۔ اس طرح اس حملہ نے مسلمانوں کے اوسان خطا کردیے اور ان گھاٹی پر مقرر کیے گئے لوگوں کی غلط عملی کا خمیازہ جو ان کو بھگتنا پڑا وہ بھگت گئے۔ اور ایک گزر جانے والے واقعہ پر جتنا افسوس کیا جائے وہ دوبارہ واپس نہیں آسکتا۔ آئندہ کے لیے اس سے عبرت حاصل کرتے رہنا چاہیے اور دوبارہ ایسی غلطی نہ کرنی چاہیے عقلمندی کا یہی تقاضا ہے۔
Top