Tafseer-e-Madani - Al-A'raaf : 139
وَ لَا تَهِنُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
وَلَا تَهِنُوْا : اور سست نہ پڑو وَلَا تَحْزَنُوْا : اور غم نہ کھاؤ وَاَنْتُمُ : اور تم الْاَعْلَوْنَ : غالب اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اور نہ تم ہمت ہارو (آئندہ کیلئے اے مسلمانو ! ) اور نہ غم کھاؤ (گزشتہ پر) اور (حقیقت بہرحال یہی ہے کہ) غالب تم ہی ہو اگر تم (واقعی اور سچے) مومن ہو4 اگر تم کو کوئی زخم پہنچا ہے تو (یہ کوئی ہمت ہارنے کی بات نہیں کہ)
281 غلبہ اہل ایمان ہی کا مقدر ہے : سو یہاں پر دو لفظوں میں ایک عظیم الشان حقیقت کا اظہار وبیان فرما دیا ۔ سبحان اللہ ! ! ۔ اتنے مختصر لفظوں میں کتنی بڑی حقیقت کو آشکارا فرما دیا گیا کہ غلبہ اے مسلمانو ! تمہارا، اور صرف تمہارا ہی ہے، کیونکہ { اَنْتُمْ } اور { اَلاَعْلَوْنَ } دونوں معرفہ ہیں۔ اور قاعدہ کے مطابق جب مبتدا اور خبر دونوں معرفہ ہوں، تو اس میں حصر کا مفہوم پیدا ہوجا تا ہے۔ پس غلبہ بہرحال مسلمان ہی کیلئے ہے، مگر شرط صرف یہ ہے کہ تم سچے مومن اور واقعی ایماندار ہوؤ۔ سو اس سے معلوم ہوا کہ ایمانی قوت حقیقی غلبہ و کامیابی کیلئے شہ کلید ہے۔ اور ایمانی کمزوری سب خرابیوں اور کمزوریوں کی جڑ بنیاد ۔ والعیاذ باللہ ۔ اور آج امت مسلمہ کی حالت زار اس کا ایک واضح اور کھلا ثبوت ہے کہ کمزوری خود مسلمان کے اندر ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو مسلمان کی زبوں حالی کا اصل سبب اور حقیقی باعث یہی ہے کہ مسلمان مسلمان نہیں۔ کیونکہ ایمان صرف زبانی کلامی دعو وں کا نام نہیں بلکہ یہ عبارت ہے اس نور خداوندی سے جس سے بندہ مومن کا باطن منور اور اس کا دل معمور ہوتا ہے اور یقین صادق کی اس قوت کا ظہور اس کے اعمال و افعال میں ہوتا ہے ۔ وباللّٰہ التوفیق و علی ما یحبُّ یرید وہوالہادی الی سواء السبیل ۔ بہرکیف اس جملے میں مبتدا و خبر کی تعریف سے جو حصر اور قصر کا مفہوم پیدا ہوتا ہے اس سے یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ غلبہ اہل ایمان ہی کا مقدر اور انہی کا حق ہے ۔ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو صحیح اور حقیقی معنوں میں مومن بننا نصیب فرمائے ۔ آمین ثم آمین۔
Top