Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 136
اُولٰٓئِكَ جَزَآؤُهُمْ مَّغْفِرَةٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا١ؕ وَ نِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَؕ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ جَزَآؤُھُمْ : ان کی جزا مَّغْفِرَةٌ : بخشش مِّنْ : سے رَّبِّھِمْ : ان کا رب وَجَنّٰتٌ : اور باغات تَجْرِيْ : بہتی ہیں مِنْ : سے تَحْتِھَا : اس کے نیچے الْاَنْھٰرُ : نہریں خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہیں گے فِيْھَا : اس میں وَنِعْمَ : اور کیسا اچھا اَجْرُ : اجر الْعٰمِلِيْنَ : کام کرنے والے
یہی لوگ ہیں کہ ان کے رب کی طرف سے ان کیلئے عفو و بخشش کا اجر ہے اور باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں وہ ہمیشہ انہی باغوں میں رہیں گے اور کتنا ہی اچھا بدلہ ہے جو اچھے کام کرنے والوں کے حصہ میں آئے گا
جس شخص نے جنت حاصل کرلی گویا وہ صحیح معنوں میں کامیاب ہوگیا : 251: اس طرح کے وہ سارے متقی لوگ ہیں جو صحیح معنوں میں اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور بخشش حاصل کرلیں گے اور اس انعام خداوندی کو جیت جائیں گے جس کے صلہ میں ان کو جنت الفردوس کا وارث بنا دیا جائے گا اور وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ وہ جنت کیا ہے ؟ وہ باغات ہیں جن میں ہر طرح کے پھل اور ہر طرح کی آسانیاں وہاں میسر ہوں گی۔ ” اُوْلٰٓئِکَ “ کا اشارہ صاف انہی لوگوں کی طرف ہے جن کا ذکر اوپر آچکا ہے کہ غلطیاں ، خطائیں اور لغزشیں بھی ان سے صادر ہوتی رہتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ وہ ان کی تلافی اور تدارک بھی کرتے رہتے ہیں بس انہی کے لیے یہ جنت کی نعمتیں بیان ہو رہی ہیں۔ فرمایا : ” دیکھو ! کتنا ہی اچھا بدلہ ہے جو اچھے کام کرنے والوں کے حصے میں آئے گا۔ “ ” عَامِلِیْنَ “ کے لفظی معنی تو صرف عمل کرنے والے کے ہیں لیکن نظم قرآنی میں اس سے مراد عمل صالح کرنے والے ہی مراد لیے جاتے ہیں۔ اور اچھے اعمال کی وضاحت اوپر آ چکی ہے۔
Top