Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 50
وَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ لِاُحِلَّ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ حُرِّمَ عَلَیْكُمْ وَ جِئْتُكُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ١۫ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ
وَمُصَدِّقًا : اور تصدیق کرنے والا لِّمَا : جو بَيْنَ يَدَيَّ : اپنے سے پہلی مِنَ : سے التَّوْرٰىةِ : توریت وَلِاُحِلَّ : تاکہ حلال کردوں لَكُمْ : تمہارے لیے بَعْضَ : بعض الَّذِيْ : وہ جو کہ حُرِّمَ : حرام کی گئی عَلَيْكُمْ : تم پر وَجِئْتُكُمْ : اور آیا ہوں تمہارے پاس بِاٰيَةٍ : ایک نشانی مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب فَاتَّقُوا : سو تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَاَطِيْعُوْنِ : اور میرا کہا مانو
توراۃ کی جو میرے سامنے موجود ہے تصدیق کروں اور بعض چیزیں جو تم پر حرام ہوگئی ہیں انہیں تمہارے لیے حلال کر دوں اور میں تمہارے رب کی طرف سے نشانی یعنی پیغام نبوت لے کر تمہارے پاس آیا ہوں دیکھو تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت و فرمانبرداری کرو
عیسیٰ (علیہ السلام) نے یہود کی حلت و حرمت میں دخل اندازی کی نشاندہی فرما دی : 118: نبوت کے اجراء سے لے کر ختم نبوت تک جتنے انبیاء کرام اس دنیا میں تشریف لائے وہ کسی قوم کی طرف اور کسی علاقہ میں بھی مبعوث ہوئے چونکہ ان سب کا مخرج انبعاث ایک تھا لہٰذا ان کے اصول تعلیم ایک ہی طرح کے تھے اور ہر آنے والا اپنے سے پہلے کی تصدیق کرنے والا تھا۔ ہر نبی نے اس بات کی نشاندہی فرمائی کہ یہ تعلیم نبی کی ہے اور یہ یہ باتیں تم نے یعنی اس کی قوم نے اپنی طرف سے داخل تعلیم کردی ہیں جن کا نبوت کی دلائی ہوئی تعلیم کے ساتھ قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسی اصول کے مطابق سیدناعیسیٰ (علیہ السلام) بھی یہود سے یہی کہه رہے ہیں کہ میں شریعت موسوی کو مٹانے کے لیے نہیں اس کی تجدید و تصدیق کے لیے آیا ہٟں اور اس قسم کی تصریحات مروجہ انجیل میں موجود ہیں مثلاً : ” یہ نہ سمجھو کہ میں توریث یا نبیوں کی کتاب کو منسوخ کرنے آیا ہوں۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں۔ “ (متی 17:5) ” آسمان و زمین کا ٹل جانا شریعت کے ایک نقطہ کے مٹ جانے سے آسان ہے۔ “ (لوقا 17:16) ہاں ! علمائے یہود نے فقہی موشگافیوں سے بعض حلال چیزیں حرام کرلی ہیں اور حرام چیزیں حلال کرلی ہیں اور ان کی نشاندہی کر کے قانون الٰہی میں جو حلال ہیں ان کو حلال اور جو حرام ہیں ان کو حرام بیان کرتا ہوں اس سے شریعت موسوی کی تصدیق ہوتی ہے تکذیب نہیں۔ عیسیٰ (علیہ السلام) قوم یہود کو اس طرح مخاطب کرتے ہیں مثلاً : ” اے محنت اٹھانے والو ! اور بوجھ سے دبے ہوئے لوگو ! سب میرے پاس آؤ میں تمہیں آرام دوں گا۔ میرا جوا اپنے اوپر اٹھا لو اور مجھ سے سیکھ لو کیونکہ میں حلیم ہوں اور دل کا فروتن تو تمہاری جانیں آرام پائیں گی کیونکہ میرا جوا نرم ہے اور میرا بوجھ ہلکا۔ “ (متی 30 , 28:12) یعنی تمہاے صبروں اور ربیوں نے اپنی طرف سے جو احکام توریت میں خلط ملط کردیے ہیں اس سارے بوجھ کو تم سے دور کرنے آیا ہوں۔ متقی وہی ہے جو رسول کی اطاعت کرے : 119: ” میں تمہارے رب کی طرف سے نشانی لے کر تمہارے پاس آیا ہوں۔ “ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو عطا کردہ بہت سے نشانات کے بعد دوبارہ ارشاد فرمانا کہ میں تمہارے پاس نشانی لے کر آیا ہوں کا مطلب کیا ہوا ؟ یہی کے سارے نشانات میں سے بڑی نشانی تو خود منصب نبوت و رسالت ہے۔ جس سے بڑھ کر کوئی بڑی نشانی نہیں ہو سکتی۔ انبیاء کرام کو جو ” آیات بینات “ دیے گئے ان کا ماحصل کیا تھا ؟ یہی کہ تم میرے نبی و رسول کی نبوت و رسالت کو قبول کرلو۔ اب بتایا جارہا ہے کہ خدا کی طرف سے رسول اس لیے نہیں آتا کہ بس اس کی رسالت پر ایمان لے آؤ اور بار بار منہ سے کہتے رہو کہ ہم تو ایمان لے آئے نبوت و رسالت کو ہم نے مان لیا۔ رسول کی رسالت پر ایمان کا مطلب یہ ہے کہ جب تم ایمان لے آئے تو با اطاعت و فرمانبرداری بھی صرف اور صرف اسی کی کرنا ہے۔ اور اسی چیز کا نام رسول کی رسالت پر ایمان لانا ہے یہ نہیں کہ زبان سے اس کی رسالت پر ایمان لے آؤ اور پھر اطاعت جس کی چاہو کرتے رہو۔ فقہی مسالک اختیار کرنے والوں کو گوش ہوش سے سن لینا چاہیے کہ رسول کے آنے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ زندگی کا جو قانون وہ لے کر آیا ہے تمام قوانین کو چھوڑ کر صرف اسی کی پیروی کی جائے اور خدا کی طرف سے جو احکام وہ دیتا ہے تمام احکام کو چھوڑ کر صرف انہی پر عمل کیا جائے۔ اگر کسی نے یہی نہ کیا تو پھر اس کا محض رسول کو رسول مان لینا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اس کی مزید تشریح سورة الشعراء میں ملے گی جہاں پر رسول کی مختصر تعلیم کے بعد یہ جملہ بار بار دھرایا گیا ہے۔ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَطِیْعُوْنِ “ ۔ مختصر یہ کہ نبی و رسول کی اطاعت عین اللہ کی اطاعت ہے جیسا کہ قرآن کریم میں بھی بیان ہوا کہ : مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ 1ۚ (النساء 4 : 80) ” جس شخص نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی “ اس لیے کہ اللہ کی اطاعت ممکن ہی نہیں جب تک کہ رسول کی اطاعت نہ کی جائے کیونکہ رسول ہی وہ ذات ہے جو یہ بتاتا ہے کہ یہ اللہ کا حکم ہے خواہ وہ حکم نفی ہو یا اثبات ہو انسان ہر معاملہ میں یہ فیصلہ نہیں کرسکتا اور کامیابی کا انحصار بھی اس بات پر ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت و فرمانبرداری کی جائے۔ وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا (الاحزاب 33 : 71) ” اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے تو اس نے بہت بڑی کامیابی حاصل کرلی۔ “ اور یہی بات اس آیت میں سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمائی۔
Top