Urwatul-Wusqaa - Al-Ahzaab : 38
مَا كَانَ عَلَى النَّبِیِّ مِنْ حَرَجٍ فِیْمَا فَرَضَ اللّٰهُ لَهٗ١ؕ سُنَّةَ اللّٰهِ فِی الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ١ؕ وَ كَانَ اَمْرُ اللّٰهِ قَدَرًا مَّقْدُوْرَا٘ۙ
مَا كَانَ : نہیں ہے عَلَي النَّبِيِّ : نبی پر مِنْ حَرَجٍ : کوئی حرج فِيْمَا : اس میں جو فَرَضَ اللّٰهُ : مقرر کیا اللہ نے لَهٗ ۭ : اس کے لیے سُنَّةَ اللّٰهِ : اللہ کا دستور فِي : میں الَّذِيْنَ : وہ جو خَلَوْا : گزرے مِنْ قَبْلُ ۭ : پہلے وَكَانَ : اور ہے اَمْرُ اللّٰهِ : اللہ کا حکم قَدَرًا : مقرر کیا ہوا مَّقْدُوْرَۨا : اندازہ سے
نبی (کریم ﷺ کے لیے اس کام میں کوئی مضائقہ نہیں جس کو اللہ نے اس کے لیے مقرر کردیا ، جو (پیغمبر) پہلے گزر چکے ہیں ان کے بارے میں بھی اللہ کا یہی دستور رہا ہے (کہ غلط رسومات کو وہ توڑتے رہے) اور یہ اللہ ہی کا حکم تھا (جو آپ ﷺ نے کیا) وہ ایک فیصلہ شدہ بات تھی
جس چیز کو اللہ نے حلال اور جائز رکھا ہے اس میں نبی کوئی مضائقہ نہیں سمجھے گا 38 ۔ زیر نظر آیت کے مضمون کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور یہ تقسیم خود رب ذوالجلال والا کرام ہی نے کردی ہے۔ 1) ” نبی کریم ﷺ کے لئے اس کام میں مضائقہ نہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے مقرر کردیا۔ “ مطلب بالکل صاف ہے کہ لوگوں کا رواج کیا ہے اور وہ کیا کہتے ہیں ؟ اس کی طرف تو وہی لوگ دیکھ سکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کا ڈر اپنے دلوں میں نہیں رکھتے بلکہ لوگوں کے ڈر اور خوف کو اپنے دلوں میں جمائے بیٹھے ہیں اور نبی کے لئے تو اللہ تعالیٰ کے حکم کو جو اہمیت حاصل ہے اس کے سامنے دنیا کے لوگوں کی وہ کوئی پرواہ اپنے دل میں نہیں رکھتا بلاشب وہ بغیر کسی حیل حجت کے وہ کر گزرے گا جس کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو حکم ملا۔ یہی وہ اصول ہے جس کے مطابق اللہ کے رسول محمد رسول اللہ ﷺ نے زینب کو طلاق ہوجانے کے بعد پیغام نکاح بھیج دیا کیونکہ اس پیغام کے بھیجنے کا حکم الٰہی خصوصیت کے ساتھ نبی کریم ﷺ کے پاس موجود تھا پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ رسول اللہ ﷺ زینب کو پیغام نکاح نہ دیتے اور جب اس نے اس پیغام کو منور کیا تو آپ ﷺ اس سے نکاح نہ کرتے اور اس خیال کو دل میں جمائے رکھتے کہ اس سلسلہ میں لوگ کیا کہیں گے ؟ ہاں ! بلا شبہ آپ ﷺ کو خیال پیدا ہوا کہ اگر زیدنے زینب کو طلاق دے دی تو لوگ کیا کہیں گے ؟ اس لئے کہ یہ نکاح آپ ﷺ نے نہایت زور دے کر کرایا تھا لیکن یہ خیال کب تک دامن گیر رہا ؟ جب تک اس سلسلہ میں حکم الٰہی نہیں آیا تھا پھر جب حکم الٰہی نازل ہوگیا تو آپ ﷺ کو اس کا خیال تک بھی نہ رہا اور آپ ﷺ سمجھ گئے کہ اس میں کونسی حکمت پنہاں تھی جس حکمت کے تحت اس نکاح پر زور دیا گیا اور پھر کیا حکمت مخفی ہے کہ مشیت ایزدی کے تحت زید نے طلاق دی اور اس طرح متنبی کی وہ رسم جو عربوں میں موجود تھی اس کی بیخ کنی کرنے کے لئے اور اس کی جڑوں تک اکھاڑ پھینکنے کے لئے یہ طے پایا کہ بس زید کو زید بن محمد کے نام سے موسوم کیا گیا تھا وہ زید چونکہ فی الواقع محمد رسول اللہ ﷺ کا بیٹا نہیں تھا اس لئے اس کی بیوی سے اس کے طلاق دینے کے بعد نکاح لازم قرار دیا تاکہ آنے والے زمانے میں بھی کسی کو اس طرح کا کوئی شک باقی نہ رہے اور اس بات کی بیخ کنی کردی جائے کہ متنبی کو کوئی حقیقی بیٹے کا قائم مقام قرار دے کر اس کی اصل ولدیت کو بدل دے۔ 2) ” جو رسول پہلے گزر گئے ان کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ کا یہی دستور رہا ہے (کہ غلط رسومات کو وہ توڑتے رہے) “ غور کرو کہ نبی کریم ﷺ سے پہلے جتنے رسول ونبی گزرے ان میں سے جس کا ذکر بھی قرآن کریم نے کیا اس کے متعلق اس کی وضاحت کردی کہ اس نبی ورسول کی آمد سے پہلے اس کی قوم کس کس رسم و رواج میں مبتلا تھی اور پھر کس طرح اس رسول ونبی نے آکر ان رسومات ورواجات کو بلائے طاق رکھ کر توحید الٰہی کا درس جاری کیا ۔ آدمی (علیہ السلام) سے لے کر عیسیٰ (علیہ السلام) تک ایک ایک نبی رسول کا تذکرہ پڑھو تم پر یہ بات روزروشن کی طرح واضح ہوجائے گا کہ ہر قوم کس طرح شرک ، کفر اور ظلم میں مبتلا تھی اور کن کن رسومات اور رواجات کے مطابق وہ زندگی گزار رہی تھی اور رسول نے آکر کس طرح ان رسومات اور رواجات کی اصلاح کی۔ پھر رسول تو بہرحال رسول تھے لیکن اللہ کے دوسرے نیک بندوں نے بھی ان کا خوب ہاتھ بٹایا اور کسی ملامت کرنیوالے کی ملامت کی پرواہ نہ کرتے ہوئیں بےدھڑک وہ کام کردکھایا جو قوم کے رسم و رواج کے سخت خلاف تھا اور پھر اس سلسلہ میں قوم نے ان کے ساتھ جو سلوک بھی کیا اس کو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے بخوشی برداشت کیا۔ غور کرو کہ عمران کے گھرانے کا اللہ نے کس طرح وضاحت کے ساتھ قرآن کریم میں ذکر کیا اور پھر سیدہ مریم کا بار بار ذکر کرکے ان کے کردار اور اخلاق کی داد دی کہ پوری قوم کی قوم اس بدرسم میں مبتلا تھی کہ وہ لوگ جو ہیکل کی نذر کردیئے گئے ان کے لئے لازم قرار پایا کہ وہ ساری عمر شادی نہیں کرسکتے۔ قرآن کریم نے مریم کو ہیکل کی نذر کردینے کی اتنی وضاحت کردی کہ اب کسی کو یہ ابہام نہ رہا کہ مریم کی شخصیت کیا تھی ؟ یا وہ شخص جو مریم کے نام سے بھی واقف ہوگا وہ جانتا ہے کہ وہ مریم ہے جس کو اس کی ماں نے اس وقت جب یہ ابھی بطن میں موجود تھی تو بیت المقدس کی خدمت کے لئے خاص کردیا تھا اور اعلان کردیا کہ ” اے اللہ ! جو کچھ میرے پیٹ میں ہے میں نے اس کو تیرے گھر کے لئے خاص کردیا “۔ اللہ تعالیٰ نے مریم کی ماں کی یہ نذر قبول کرتے ہوئے اعلان کردیا کہ تیری یہ منت ہمارے ہاں منظور ٹھہری پھر جب مریم پیدا ہوئی تو اس کی ماں کے تحت الشعور سے یہ اعلان کرادیا کہ اے اللہ ! میں اپنی اس لڑکی کو اور اس سے پیدا ہونے والی اوالد کو تیری پناہ میں دیتی ہوں گویا اس طرح مریم کی ماں نے اپنے قومی اور ملکی رواج کو ملیا میٹ کرنے کے لئے اپنی دلی خواہش کا اظہار کردیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے اس مخصوص اظہار خیال کو پروان چڑھانے کے لئے منظوری کا سرٹیفکیٹ جاری کردیا کہ تیری پاکباز بچی سے ہم تیری قوم کی اس رسم کو یقینا مٹا کر رکھ دینے کا وعدہ کرتے ہیں پھر مریم جونہی جوانی کو پہنچی تو اس نے سب سے پہلے حکم الٰہی کے مطابق یہ کام سرانجام دیا کہ اپنے چچیرے بھائی کے ساتھ جو نہایت ہی پاکباز نوجوان تھا نکاح کرلیا۔ بس اس نکاح کا ہونا تھا کہ ایک طوفان قوم بنی اسرائیل میں کھڑا ہوگیا اور ہر ایک طرف سے ان پاکباز انسانوں کو تنگ کرنے کے لئے طعنہ رینوں کی تیر اندازی شروع ہوگئی یہاں تک کہ آپ کا چیچیرا بھائی باوجود ایک پاکباز انسان ہونے اور ایک مرد ہونے کے گھبرا گیا اور اپنے دل ہی دل میں نہ معلوم کیا کچھ سوچنے لگا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نکاح کی اصل غرض وغایت فوت ہونے لگے جس کے باعث مریم کو جو تکلیف پہنچی اس کا تصور بھی آپ اور میں نہیں کرسکتے بہرحال جب مایوسی حد کو پہنچ گئی تو اللہ تعالیٰ نے مریم کی ڈوبتی کشتی کو خود سہارا دے دیا اور مریم کو فرشتہ نے مخاطب کرکے کہہ دیا کہ مریم گھبرانے کی کوئی بات نہیں تیرے رب نے تیری سن لی اور تجھے وہ اپنی طرف سے بیٹے کی خوشخبری دے رہا ہے۔ مریم نے فرشتہ کی یہ بات سنی تو حیران رہ گئی کہ میرے اللہ ! یہ کیسے ؟ میرا خاوندتو میری طرف متوجہ ہی نہیں ہوا اور بدکار میں نہیں ، فرشتہ نے فوراً جواب دیا کہ مریم تیرے رب کے لئے کیا مشکل ہے کہ تیری اس روک کو ایک پل بھر میں دور کردے کیونکہ اس کی طرف سے جو فیصلہ ہوتا ہے وہ اپنے وقت پورا ہو کر ہی رہتا ہے اور ایسا کام تیرے رب پر کوئی مشکل نہیں ہے۔ ادھر یہ بشارت آئی اور ادھر مریم کا چچیرا اپنے عزم وجزم پر قائم ہوگیا اور پھر اس نے مریم کو سہارا دیتے ہوئے صرف مریم ہی کو نہیں بلکہ اس کی ماں کو بھی ساتھ لیا اور اس علاقہ سے ہجرت کرگیا اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا کردیکھایا جو سیدہ مریم نے خواب کے اندر کیا تھا اور پھر جو حالات بھی گزرے گزرے لیکن ان لوگوں کے پائے ثبات میں ذرا لغزش نہ آئی اور اللہ تعالیٰ نے مریم کے اس بیٹے کو اس بشارت کے مطابق نبوت و رسالت اور اس کے متعلق ساری پیشگوئیوں میں سے ایک ایک کو پورا کردکھایا اور اس طرح ایک واقعہ نے دوسرے واقعہ کو جو تقویت دی اس کا ذکر آیت کے سا ٹکڑے میں کردیا۔ 3) ” اور یہ اللہ کا حکم تھا جو آپ ﷺ نے کیا اور یہ ایک فیصلہ شدہ بات تھی “۔ اس ٹکڑے نے اس کو مزید وضاحت کردی کہ یہ سارا معاملہ جو اس مدت کے اندر ہوا جس میں ایک نہیں بلکہ کئی طرح کے خدشات آپ ﷺ کو لاحق ہوئے لیکن جو اللہ کے قانون میں طے تھا وہ اپنے وقت پر کسی صفائی کے ساتھ پورا ہوا کہ تیری اس پھوپھی زاد زینب نے ایک مدت تک شادی نہ کی جو تیری قوم کے رواج کے خلاف بات تھی پھر جب نکاح ہونے پہ آیا تو ہم نے تیری قوم کے اس بت کو پاش پاش کرنے کے لئے کہ تیرے خاندان کی عورت کسی چھوٹے خاندان کے ہاں نہیں بیاہی جاسکتی۔ زینب کی محبت سے اس کو توڑ دکھایا پھر ہم نے اپنی مشیت کا فیصلہ بھی لوگوں کے سامنے کردکھایا کہ ہوتا وہی ہے جو مشیت ایزدی میں طے ہو اس میں کوئی نبی ورسول بھی ترمیم نہیں کراسکتا کہ آپ ﷺ کے دل میں یہ بات رہ رہ کر آتی رہی کہ جو نکاح میں نے اس قدر زور دے کر کرایا تھا اگر یہ فیل ہوگیا تو لوگ کیا کہیں گے ؟ لیکن ہم نے ثابت کردیا کہ اللہ کے فیصلوں کو بدلوانے کی کسی نبی ورسول میں بھی طاقت نہیں ہے اور انجام کار زید نے زینب کو طلاق کہہ ہی سنائی پھر آپ ﷺ پر جو گزری وہ ہم جانتے ہیں لیکن ہم کو اس زینب سے تیری قوم کی رسومات کا ایک بہت بڑا بت تڑوانا تھا اس لئے ہم نے آپ ﷺ کو حکم دیا کہ زینب کو نکاح کا پیغام بھیج دو وہ پیغام یقینا قبول کرے گی کہ ہماری مشیت کا فیصلہ یہی ہے پھر آپ ﷺ نے ہمارے حکم سے پیغام بھیجا اور زینب نے اس کو منظور کرلیا بلکہ اس کو اپنے لئے ایک سعادت سمجھا تو اس طرح ہم نے اس بت کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے رکھ دیا کہ متنبی کے وہی حقوق ہوتے ہیں جو اصل ولد کے ہوتے ہیں ہم نے ثابت کردیا کہ متنبی کبھی حقیقی بیٹے کی جگہ نہیں لے سکتا اور اس طرح یہ بات رہتی دنیا تک دیکھی ، پڑھی اور سنی جائے گی اگرچہ اس واقعہ کے سارے کرداروں میں سے اللہ کی ذات کے سوا ایک بھی باقی نہ رہا۔ سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم۔ قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلمان اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار
Top