Urwatul-Wusqaa - Az-Zukhruf : 63
وَ لَمَّا جَآءَ عِیْسٰى بِالْبَیِّنٰتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَ لِاُبَیِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ تَخْتَلِفُوْنَ فِیْهِ١ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ
وَلَمَّا جَآءَ : اور جب لائے عِيْسٰى : عیسیٰ بِالْبَيِّنٰتِ : کھلی نشانیاں قَالَ : اس نے کہا قَدْ جِئْتُكُمْ : تحقیق میں لایاہوں تمہارے پاس بِالْحِكْمَةِ : حکمت وَلِاُبَيِّنَ : اور تاکہ میں بیان کردوں لَكُمْ : تمہارے لیے بَعْضَ الَّذِيْ : بعض وہ چیز تَخْتَلِفُوْنَ فِيْهِ : تم اختلاف کرتے ہو جس میں فَاتَّقُوا اللّٰهَ : پس ڈرو اللہ سے وَاَطِيْعُوْنِ : اور اطاعت کرو میری
اور جب عیسیٰ (علیہ السلام) نشانیاں لے کر آئے تو انہوں نے کہا کہ میں تمہارے پاس حکمت لے کر آیا ہوں اور اس لیے (آیا ہوں) کہ بعض وہ باتیں جن میں تم جھگڑتے رہتے ہو تم پر واضح کر دوں پس تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو
عیسیٰ (علیہ السلام) جب رسول بن کر آئے تھے انہوں نے قوم سے کیا کہا تھا ؟ 63 ؎ مسیح (علیہ السلام) کی آمد سے قبل یہود مختلف گروہوں میں تقسیم ہوچکے تھے اور ہر ایک گروہ دوسرے کو کافر کہتا تھا اور ان کے عقائد میں بہت فرق اور اختلاف رونما ہوچکا تھا۔ مثلاً : 1 ایک جماعت صدوقی تھی اس کا یہ عقیدہ تھا کہ انسان کے اعمال نیک وبد کی سزا اس دنیا میں مل جاتی ہے۔ قیامت ، آخرت میں جزا وسزا ، حشر نشر سب باتیں غلط اور بےبنیاد ہیں۔ 2 دوسری جماعت فریسی کہلاتی تھی اس جماعت کے لوگ قیامت ، آخرت میں جزا وسزا ، حشر ونشر وغیرہ کو حق سمجھتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے لیے یہ ضروری سمجھتے تھے کہ دنیا کی لذات سے کنارہ کشی اختیار کی جائے چناچہ وہ آبادیوں سے الگ خانقاہوں اور جھونپڑوں میں زندگی بسر کرتے تھے ایک وقت ایسا آیا جب کہ خانقاہیں اور جھونپڑیاں بدکاری کا اڈا بن گئیں اور وہاں ہر قسم کی بدکاری کا ارتکاب کیا جانے لگا۔ 3 تیسری جماعت کا ہن کے نام سے موسوم تھی یہ لوگ مذہبی رسوم اور خدمت ہیکل بجا لاتے تھے لیکن ان کی یہ حالت ہوگئی تھی کہ انہوں نے مذہبی رسوم اور خدمت ہیکل کو تجارتی کاروباربنالیا تھا جب تک ہر ایک رسم اور خدمت ہیکل پر نذرانے وغیرہ نہ لے لیتے تھے وہ کوئی قدم نہیں و اٹھاتے تھے۔ تورات کے احکام میں اغراض نفسانی کی تکمیل کے لیے تحریف کرتے تھے ، اپنی تصنیفات اور اجتہادات کو کتاب الٰیا کا درجہ دیتے تھے ، اس کے متعلق قرآن کریم میں ارشاد الٰہی ہے کہ (یحرفون الکلم عن مواضعہ) (المائدہ 5 : 13) ” وہ لوگ مفہوم کلام کو اپنی جگہ سے ہٹادیتے تھے “ اور ایک جگہ ارشاد فرمایا یا کہ (فویل للذین یکتبون الکتب بایدیھم ثم یقولون ھذا من عند اللہ لیشترو بہ ثمنا قلیلاً فویل لھم مما کتب ایدیھم وویل لھم مما یکسبون) (البقرہ 2 : 79) ” افسوس ہے ان لوگوں کے لیے جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں پھر کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس کے عوض تھوڑی قیمت لے لیں پس ان کے لیے افسوس ہے اس کی وجہ سے جوان کے ہاتھوں نے لکھا اور ان کے لیے افسوس ہے اس وجہ سے جو وہ کماتے ہیں “۔ 4 چوتھی جماعت احبار اور فقیہوں کی تھی اور یہ لوگ مذہب کے اجارہ دار سمجھے جاتے تھے اور عوام میں سب سے زیادہ مقبول تھے۔ یہ جنت کے پروانے لکھ دیتے اور لوگوں سے اس کے معاوضہ میں بڑی بھاری رقوم وصول کرتے تھے۔ حرام کو حلال اور حلال کو حرار قرار دیتے تھے اور عوام میں یہ عقیدہ پیدا کردیا تھا کہ حرام اور حلال کچھ نہیں مگر وہی جس کو وہ حلال یا حرام قرار دے دیں۔ قرآن کریم کی سورة التوبہ کی آیت 31 میں ان لوگوں کو (اربابامن دون اللہ) کہا گیا ہے۔ زیر نظر آیت میں یہود کی انہیں بیماریوں اور اختلافوں کا ذکر کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ جب عیسیٰ (علیہ السلام) صریح نشانیاں لیے ہوئے آیا تو اس نے کہا کہ ” میں تم لوگوں کے پاس حکمت لے کر آیا ہوں اور اس لیے آیا ہوں کہ تم پر بعض ان باتوں کی حقیقت کھول دوں جن میں تم اختلاف کر رہے ہوں اس لیے تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ “ عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان مذہبی پیشوائوں کے متعلق یہ فرمایا کہ ” تم خدا کے حکموں کو ترک کرکے آدمیوں کی روایت کو قائم رکھتے ہو۔ “ اور مزید ان کو کہا کہ ” تم اپنی روایت کو ماننے کے لیے خدا کے حکم کو کیا خوب باطل کرتے ہو۔ “ (مرقس 7 ، 8 ، 9) ” تم اپنی روایت سے خدا کے حکم کو کیوں ٹال دیتے ہو “ مزید فرمایا کہ ” تم اپنی روایت سے خدا کا کلام باطل کردیا ہے۔ “ (متی 15 : 3 ، 7) ” مسیح (علیہ السلام) کی بعثت سے پہلے یہود کے عقائد اور اعمال کا یہ حال تھا کہ وہ مشرکانہ رسوم و عقائد کو جزو مذہب بناچکے تھے اور جھوٹ ، فریب ، بغض وحسد جیسی بداخلاقیوں کو عملاً اخلاق کریمانہ کی حیثیت دے رکھی تھی اور بجائے شرمسار ہونے کے وہ ان پر فخر کا اظہار کرتے تھے اور ان کے علماء و احبار نے تو دنیا کے لالچ اور حرص میں کتاب اللہ تک کو تحریف کیے بغیر نہ چھوڑا اور درہم و دینار پر خدا کی آیات کو فروخت کرڈالا اور عوام سے نذریں اور بھینٹ حاصل کرنے کی خاطر حلال کو حرام اور حرام کو حلال بنانے سے بھی دریغ نہیں کیا اور اس طرح قانون الٰہی کو مسخ کرڈالا۔ “ (انسائیکلوپیڈیا برنانیکا) مسیح (علیہ السلام) نے ان کو مخاطب کرکے فرمایا کہ : ” اے ریا کار فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس ! کہ آسمان کی بادشاہی لوگوں پر بند کرتے ہو کیونکہ نہ تو آپ داخل ہوتے ہو اور نہ داخل ہونے والوں کو داخل ہونے دیتے ہو۔ “ ( متی 23 : 13) ” اے ریا کار فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس ! کہ تم بیوائوں کے گھروں کو دبا بیٹھے ہو اور دکھاوے کے لیے نماز کو طول دیتے ہو ، تمہیں زیادہ سزا ہوگی۔ “ (متی 23 : 14) ” اے ریا کار فقیہو اور فریسیو تم پر افسوسٖ ! کہ ایک مرید کرنے کے لیے تری اور خشکی کا دورہ کرتے ہو اور جب وہ مرید ہوچکتا ہے تو اس کے لیے اپنے سے دونا جہنم کافرزند بنادیتے ہو۔ “ (متی 23 : 15) ” اے اندھے راہ بتانے والو ! تم پر افسوس جو تم کہتے ہو کہ اگر کوئی مقدس کی قسم کھائے تو کچھ بات نہیں لیکن اگر مقدس کے سونے کی قسم کھائے تو اس کا پابند ہوگا۔ “ (متی 23 : 16) ” اے احمقوں اور اندھوں کون بڑا ہے سونا یا مقدس جس نے سونے کو مقدس کیا ہے۔ “ (متی 23 : 17) ” اے ریاکار فقیہو اور فریسیو ! تم پر افسوس کہ تم سفیدی بھری ہوئی قبروں کی مانند ہو جو اوپر تو خوبصورت دکھائی دیتی ہیں مگر اندر مردوں کی ہڈیوں اور ہر طرح کی نجاست سے بھری پڑی ہیں۔ اس طرح تم بھی ظاہر میں راست باز دکھائی دیت ہو مگر باطن میں ریاکاری اور بےدینی سے بھرے ہوئے ہو۔ “ (متی 23 : 28) افسوس کہ مسیح (علیہ السلام) کی بعثت سے پہلے جو اودھم یہود نے مچا رکھی تھا اس کا ذکر آپ نے مختصر سے مختصر الفاظ میں پڑھ لیا لیکن آج جو اودھم قوم مسلم کے ان سیاسی لیڈروں ، حکمرانوں ، مذہی راہنمائوں اور پیشوائوں نے مچارکھا ہے وہ اس سے بھی سوا ہے اور انہوں نے یہودیوں کو بھدی بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ الاماشاء اللہ۔
Top