Urwatul-Wusqaa - Az-Zukhruf : 62
وَ لَا یَصُدَّنَّكُمُ الشَّیْطٰنُ١ۚ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ
وَلَا يَصُدَّنَّكُمُ : اور نہ روکے تم کو الشَّيْطٰنُ : شیطان اِنَّهٗ : بیشک وہ لَكُمْ : تمہارے لیے عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ : دشمن ہے کھلا
اور شیطان تم کو ہرگز روکنے نہ پائے بلاشبہ وہ تمہارا صریح دشمن ہے
شیطان تم کو روک نہ دے کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے 62 ؎ روز قیامت کے تسلیم کرنے سے تم کو شیطان روک نہ دے کیونکہ قیامت کا تسلیم کرنا عقائد اسلام میں سے بنیادی عقیدہ ہے جس شخص نے قیامت کا انکار کیا گویا اس نے اللہ ، رسول اور اس کی کتابوں سے انکار کی۔ شیطان جو انسان کا ابدی دشمن ہے وہ اس معاملہ میں انسان کو شک وشبہ میں مبتلا کرتا آیا ہے ، کررہا ہے اور کرتا رہے گا یہی وجہ ہے کہ کفار مکہ شیطان کے بہلاوے میں آئے ہوئے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ پیچھے آپ آیت 57 میں لفظ (یصدون) پڑھ چکے ہیں اور زیرنظر آیت میں (یصدنکم) آیا ہے اس لیے اس فرق کو بھی سمجھ لینا چاہیے کہ اس سے معنوں میں کیا فرق پڑتا ہے۔ اس کا مادہ ص دو ہے اور صد کا مضارع یصد بھی آتا ہے اور یصد بھی اگر مضارع یصد ہو تو اس کے معنی اعراض کرنے کے آتے ہیں یا روکنے کے اور اگر مضارع یصد ہو تو اس کے معنی ضج یعنی فریاد کرنا یا چلانا کے آتے ہیں۔ (لسان العرب) اوپر آیت 57 میں (یصدون) کا لفظ استعمال ہوا اس لیے وہاں چلا اٹھنے کے کیے گئے اور زیر نظر آیت میں (یصدنکم) کا لفظ ہے اس لیے معنی روکنے کے کیے گئے ہیں۔
Top