Urwatul-Wusqaa - Al-Fath : 27
لَقَدْ صَدَقَ اللّٰهُ رَسُوْلَهُ الرُّءْیَا بِالْحَقِّ١ۚ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ اٰمِنِیْنَ١ۙ مُحَلِّقِیْنَ رُءُوْسَكُمْ وَ مُقَصِّرِیْنَ١ۙ لَا تَخَافُوْنَ١ؕ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوْا فَجَعَلَ مِنْ دُوْنِ ذٰلِكَ فَتْحًا قَرِیْبًا
لَقَدْ : یقیناً صَدَقَ اللّٰهُ : سچا دکھایا اللہ نے رَسُوْلَهُ : اپنے رسول کو الرُّءْيَا : خواب بِالْحَقِّ ۚ : حقیقت کے مطابق لَتَدْخُلُنَّ : البتہ تم ضرور داخل ہوگے الْمَسْجِدَ : مسجد الْحَرَامَ : حرام اِنْ شَآءَ اللّٰهُ : اگر اللہ نے چاہا اٰمِنِيْنَ ۙ : امن و امان کیساتھ مُحَلِّقِيْنَ : منڈاتے ہوئے رُءُوْسَكُمْ : اپنے سر وَمُقَصِّرِيْنَ ۙ : اور کتراتے ہوئے لَا تَخَافُوْنَ ۭ : نہ تمہیں کوئی خوف ہوگا فَعَلِمَ : پس اس نے معلوم کرلیا مَا لَمْ تَعْلَمُوْا : جو تم نہیں جانتے فَجَعَلَ : پس کردی اس نے مِنْ دُوْنِ : اس سے ورے (پہلے) ذٰلِكَ : اس فَتْحًا قَرِيْبًا : ایک قریبی فتح
بیشک اللہ نے رسول ﷺ کو حقیقت کے مطابق سچا خواب دکھایا کہ ان شاء اللہ تم مسجد حرام میں امن وامان سے داخل ہو گے سروں کو منڈاتے ہوئے اور بال کترواتے ہوئے تم کو کسی بات کا خوف نہ ہوگا پھر وہ جانتا ہے جو تم نہیں جانتے پھر اس نے فتح مکہ سے قبل ہی ایک فوری فتح (اور بھی) دے دی (یہ فتح خیبر تھی)
محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھیوں کے وہ نشانات جو گزشتہ صحیفوں میں بتائے گئے 29 ؎ زیرنظر آیت وہ آیت ہے جس کے بعد ” محمدرسول اللہ ﷺ کی سرگزشت “ کا مضمون درج کیے جانے کا وعدہ ہم گزشتہ سورة محمد کے شروع اور اخیر میں کرچکے ہیں اور ان شاء اللہ اس آیت کی تفسیر کے بعد آپ اسی مضمون کو پڑھیں گے جس کے پڑھنے کی ہم تاکید گزشتہ سورت سے کرتے چلے آ رہے ہیں۔ پچھلی آیت میں غلبہ دین اسلام کا ذکر کیا تھا اور اس آیت میں اس دین کے غالب کرنے ولاے داعی الی اللہ کا نام واضح طور پر بتا دیا کہ اس دین کو غالب کرنے کے لیے جو نبی ور سول بھیجا گیا اس کا نام محمد رسول اللہ ﷺ ہے اور پھر آپ ﷺ کے بعد آپ ﷺ کے ساتھیوں کا ذکر کیا گیا اور ان کے بعض اوصاف بھی ذکر کیے گئے جن میں آپ ﷺ کا اور آپ ﷺ کے ساتھیوں کا پہلا وصف { اشداء علی الکفار رحماء بینہم } بتایا گیا ہے یعنی ” آپ ﷺ ، آپ ﷺ کے ساتھی ؓ کافروں پر بہت سخت اور آپس میں بہت رحمدل ہیں “ اب قابل غور بات یہ ہے کہ ” کافروں پر بہت سخت “ کا مطلب و مفہوم کیا ہے ؟ اس کے لیے جو لفظ لایا گا ت ہے اس پر غور کرو کہ وہ کیا ہے ؟ وہ یہ ہے { اشداء } اور { اشداء } شدیدٌ کی جمع ہے جس کے معنی زور آور ، قوی و طاقت ور کے ہیں یعنی آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھی ؓ کفار کے لیے ایک چٹان کی طرح مضبوط اور سخت ہیں۔ وہ ایسے { کانہم بینانٌ مرصوص } جیسے ” گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی دیوار ہیں “ مثلاً اینٹیں بھی پختہ ہوں اور پھر ان کو ایک دو کی نسبت کے سیمنٹ کے ساتھ جوڑ بھی دیاجائے تو کیا خیال ہے کہ کبھی آپس میں جدا جدا ہوں گی ، کیوں ؟ اس لیی کہ ان کو ایک ایسی چیز کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے کہ اس چیز نے ان کے اپنے جسم سے ان کے جوڑ کو مضبوط بنا دیا ہے لہٰذا اگر ان پر بہت سختی ہوگی تو ان کا جسم ٹوٹ سکتا ہے لیکن جوڑ نہیں کھل سکتا۔ پھر فرمایا کہ آپس میں بہت رحم دل ہیں { رحماء } رحیمٌ کی جمع ہے۔ بڑے نرم دل ، بڑے نرم مزاج۔ جس طرح موم کو پگھلا کر کسی چیز میں ڈال دیاجائے تو وہ یک جان ہوجاتا ہے اور اس میں کوئی جوڑ دکھائی نہیں دیتا گویا { اشداء علی الکفار } کی مزید تشریح اور وضاحت { رحماء بینہم } کے الفاظ نے کردی اور یہ دونوں الگ الگ صفات نہیں بلکہ ایک ہی صفت کی وضاحت ہیں۔ غور کرو کہ ایک انسان کو دوسرے انسانوں کے ساتھ ملانے کے لیے بہت سے طریقے ہیں جن طریقوں اور وصفوں سے ایک انسان دوسرے انسان سے ملتا ہے مثلاً دو حقیقی بھائیوں کو ملانے کے لیے ماں اور باپ ہیں گویا ماں اور باپ بھی انسان کے ملانے کا ایک تعلق ہے بعض اوقات دونوں سبب ہوتے ہیں اور بعض اوقات ان میں سے ایک یعنی ماں یا باپ۔ اسی طرح غور کرتے جاؤ بھائی بھائی کا تعلق ہے ، خالہ بھانجے کا تعلق ہے ، پھوپھی بھتیجے کا تعلق ہے ، حسب و نسب اور ذوی الارحام کے کتنے تعلق ہیں پھر خاندان کے تعل ق کے بعد فکر کا تعلق ہے ، ہم سبق ہونے کا تعلق ہے ، ہم پیرو مرشد ہونے کا تعلق ہے ، ہم ذات ہونے کا تعلق ہے ، ہم مشرب ہونے کا تعلق ہے ، ہم قوم ہونے کا تعلق ہے پھر ہم وطن ہونے کا تعلق ہے ۔ بہرحال ! جو میں نے سمجھا وہ آپ کے سامنے بیان کردیا اور کسی لومۃ الائم کی پروا کیے بغیر کہہ دیا چونکہ یہ مضمون سورة المائدہ کی آیت 54 میں بھی آتا ہے اور اس کی جو وضاحت وہاں بیان کی گئی ہے اس پر بھی ایک نظر ڈال لیں تو ان شاء اللہ العزیز مفید مطلب ہوگی اور سمجھنے میں مزید آسانی پیدا ہوگی کیونکہوہاں کے تقابل نے بات کو زیادہ واضح کردیا ہے۔ بلاشبہ زیر نظر جملہ { اشداء علی الکفار } کا مفہوم صحیح نہ سمجھنے کی وجہ سے جو غلط فہمیاں لوگوں میں پیدا ہوئی ہیں یا پیدا کردی گئی ہیں ان کی داستان بہت لمبی ہے۔ ہم مختصر سے مختصر الفاظ میں صرف اس قدر درخواست کریں گے کہ اس کا مطلب یہ بیان کرنا یا سمجھنا کہ عموماً سمجھ لیا گیا ہے مثلاً یہ کہ اگر کسی کافر کو راستہ میں آتے دیکھو تو اس کا راستہ تنگ کر دو ، وہ سلامتی کے ساتھ تمہارے قریب سے گزر نہ پائے بلکہ راستہ میں اتنے پھیل جاؤ کہ وہ گزرتے وقت سکڑ کر ، جھک کر ، دب کر گزرے۔ تف ہے ان لوگوں پر جنہوں نے اس کا یہ مطلب و مفہوم سمجھا اور اس کے مطابق عمل کیا ، کرایا اور اسی طرح سارے اخلاق حسنہ کا گلا کاٹ کر رکھ دیا۔ اس پر جتنا افسوس کیا جائے اتنا ہی کم ہے۔ ہاں ! اس کا سیدھا اور صاف مفہوم یہ ہے کہ کافر کے مقابلہ میں اپنے حسن اخلاق اور اچھے کردار کا اس طرح مظاہرہ کرو کہ وہ اسلام کی خوبیوں کا اعتراف کیے بغیر نہ گزر سکے۔ اس کے ساتھ انسانی ہمدردی کا اظہار اس طرح کرو کہ وہ خود بخود کچھتا ہوا تمہارے اسلام کی طرف آجائے۔ اگر کہیں کسی کاروباری صورت میں تمہارا آمنا سامنا ہوجائے تو دیانت و امانت کا مظاہرہ اس طرح کرو کہ وہ اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکے۔ دنیا کے کاروبار میں اگر ایک طرح کا کاروبار کر رہے ہو تو حسن اخلاق اور حسن کردار کا مظاہرہ اس طرح کرو کہ تمہارے کاروبار کو اس کے مقابلہ میں چارچاند لگ جائیں۔ زبان اتنی میٹھی اور صاف رکھو کہ اپنے تو اپنے غیر لوگ بھی متاثرہ ہوئے بغیر نہ رہیں۔ اس طرح لاریب اس کا راستہ خود بخود تنگ ہوتا چلا جائے گا اور آپ کا راستہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جائے گا۔ اس طرح آپ ان شاء اللہ العزیز کفر پر بھاری ہوجائیں گے اور کفر خود بخود دُم دبانے لگے گا۔ محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھیوں ؓ کی دوسری نشانی یہ ارشاد فرمائی کہ ” ان کی علامت ان کے چہروں پر نمایاں ہے جو ان کے سجدوں کا اثر ہے۔ وہ اللہ سے اس کے فضل اور رضاھندی کے طلب گار ہیں “ اس طرح ان کی علامت یہ بیان کی گئی کہ جب لوگ راتوں کو بستر استراحت پر آرام کر رہے ہوتے ہیں تو یہ لوگ چپکے سے اٹھتے ہیں کہ کسی سونے والے کا آرام و سکون مختل ہو کر نہ رہ جائے اور ان کی وجہ سے کوئی بےآرام نہ ہو اور یہ اٹھ کر راتوں کو تہجد ادا کرتے ہیں۔ کبھی قیام میں ہوتے ہیں اور کبھی سجدوں میں اور کبھی رکوع میں جھکے ہوتے ہیں اور کبھی تشہد کی حالت میں اور ان کی زندگی کا اصل نصب العین ہی اللہ تعالیٰ کی رضامندی ہے۔ اس طرح گویا ان کی پہلی صفت میں حقوق العباد کی حفاظت و نگرانی بتائی گئی اور دوسری صفت میں حقوق العباد کا تعلق مخلوق سے ہے اور حقوق اللہ کا تعلق خالق سے اور یہ لوگ دونوں میں پختہ کار ہوتے ہیں اور اس طرح ویا ان کا دایاں اور بایاں دونوں بازو صحت مند اور طاقت ور ہیں اور ان میں کسی طرح کی کی کوئی کمزوری نہیں پائی جاتی۔ اس کی مزید وضاحت ان شاء اللہ العزیز سورة التطفیف 83 کی آیت 24 میں ملے گی جو عزوۃ الوثقی کی نو ویں جلد میں آئے گی نیز آنے والے جملہ پر اگر غور کیا جائے تو بھی اس کی وضاحت ہوجائے گی بشرطیکہ اس کو کوئی قبول کرنے کے لیے تیار ہوا۔ فرمایا ” ان کی یہ مثال تورات میں بھی موجود ہے اور انجیل میں بھی “ تورات میں ہو یا انجیل میں یا زبور میں یہ تینوں کتب بلاشبہ آسمانی کتب ہیں لیکن ان میں ان کے ماننے والوں نے جو جو تحریفات کی ہیں وہ صاحب علم حضات سے مخفی نہیں ہیں اور پھر تعجب کی بات یہ ہے کہ نہ تو ان کی زبان محفوظ رہی ہے اور نہ ہی ان کا اصل متن کہیں دنیا میں نظر آتا ہے اور یہ جو ترامیم ہیں ان میں اتنا اختلاف ہے کہ اتنا اختلاف دنیا کی کسی عام کتب میں بھی نہیں پایا جاتا جو لوگوں کی تصنیفات ہیں اور اس تعجب پر مزید تعجب کی بات یہ ہے کہ یہ سلسلہ آج تک جاری وساری چلا آتا ہے کہ جب بھی کوئی نسخہ کوئی کتب خانہ یا ان کا کوئی مذہبی ادارہ چھاپتا ہے تو وہ اپنی من مانیوں سے باز نہیں آتا خصوصاً جن چیزوں کے متعلق ان کو خیال پڑتا ہے کہ اس میں مسلمانوں نے یہ اعتراض کیے ہیں تو ان اعتراضات کے پیش نظر وہ ترمامجت کرتے رہتے ہیں جس کی شہادت کوئی سے مختلف اداروں کے چھپے ہوئے نسخے آج بھی پیش کرر ہے ہیں لیکن ان ساری باتوں کے باوجود آج بھی تورات و انجیل میں ایسی چیزیں یا عبارتیں موجود ہیں جو اس بات کی کھلی شہادت پیش کر رہی ہیں ، چناچہ تحریر ہے کہ : ” خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے اس پر آشکارا ہوا۔ وہ کو ہِ فاران سے جلوہ گر ہوا اور لاکھوں قدسیوں میں سے آیا۔ اس کے داہنے ہاتھ پر ان کے لیے آتش شریعت تھی۔ “ (استثناء 2:33) اس وقت ہمارے پاس تین نسخے طباعت کے موجود ہیں ایک نسخہ میں ” دس ہزار قدسیوں “ اور دوسرے میں ” دس لاکھ قدسیوں “ اور تیسرے میں ” لاکھوں قدسیوں میں “ کے الفاظ ہیں اب آپ ہی غور کریں کہ ہزار ، لاکھ اور لاکھوں ایک ہی چیز ہے یا ان میں کوئی فرق ہے۔ رہی یہ بات کہ یہ فرق کیوں کیا گیا تو اس کی وضاحت ذرا تفصیل طلب ہے بہرحال قدسیوں کے لفظ میں وہ ابھی تک کچھ نہ کرسکے۔ اس طرح { اشداء علی الکفار } کے الفاظ اور ” آتش شریعت “ پر غور کرو تو انشاء اللہ العزیز بات مزید واضح ہوجائے گی اور پھر انجیل میں یہ پیش گوئی بھی دیکھو کہ ” اس کے ہاتھ میں اس کا چھاج ہوگا ، وہ اپنے کھلیان کو خوب صاف کرے گا۔ دانے کو بھس سے الگ کرے گا پھر دانے کو محفوظ کرے گا اور بھس کو جلا دے گا۔ “ پھر اس بات کو اس طرح مزید واضح کردیا کہ : ” جس پتھر کو معماروں نے رد کیا وہی کونے کے سرے کا پتھر ہو گیا… اس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہی تم سے لے لی جائے گی اور اس قوم کو جو اس کے پھل لائے دے دی جائے گی اور جو اس پتھر پر گرے گا وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا لیکن جس پر وہ گرے گا اسے پیس ڈالے گا۔ “ (متی 45 , 33 , 21) ” وہ بیشک قوموں میں محبت رکھتا ہے۔ اس کے سب مقدس لوگ تیرے ہاتھ میں ہیں اور وہ تیرے قدموں میں بھی ایک ایک تیری باتوں سے مستفیض ہوگا “ (استثناء 3:33) { تراہم رکعاً سجدا یتفون فضلاً من اللہ و رضواناً } کے ترجمہ اور استثناء کی اوپر دی گئی عبارت دونوں پر غور کرو تو بات تم پر واضح ہوجائے گی اور اس طرح تم کو یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ اس سے مراد پیشانیوں کے سیاہ نشان ہیں یا نور خداوندی کا وہ اثر جو حسن اخلاق اور سیرت و کردار کی خوبی چہروں پر مرتب کرتی ہے جو بات دل کو قبول ہو اس پر یقین کرلو۔ نہ ہی میری طرف دیکھو اور نہ ہی ان بزرگوں اور دوستوں کی طرف جن کی طرف میں نے اشارہ کردیا ہے پھر وہ تورات کی بات تھی اب انجیل کی بات پر بھی غور کرلو فرمایا ” ان کی مثال انجیل میں اس طرح بیان کی گئی ہے کہ ایک کھیتی ہے کہ اس نے انگوری نکالی پھر وہ مضبوط ہوگئی اور موٹی ہوگئی پھر اپنے بل یعنی تنے پر کھڑی ہوگئی اور اس طرح وہ کاشتکاروں کو بھی کھلی بھلی معلوم ہونے گی “ اس کی وضاحت انجیل میں بھی دیکھ لو کہ وہ کیا کہتی ہے : ” اس نے ایک اور تمثیل پیش کر کے کہا کہ آسمان کی بادشاہی اس رائی کے دانے کی مانند ہے جسے کسی آدمی نے لے کر اپنے کھیت میں بو دیا۔ وہ سب بیجوں میں چھوٹا تو ہے لیکن جب بڑھتا ہے تو سب ترکاریوں سے بڑا اور ایسا درخت ہوجاتا ہے کہ ہوا کے پرندے آ کر اس کی ڈالیوں پر بسیرا کرتے ہیں۔ “ (متی 32 , 31:13) ایسی تمثیلوں کو مزید دیکھنا چاہو تو (متی :13 4 تا 9) (لوقا :4 5 تا 8) (مرقس :4 3 تا 9) کو دیکھو تو مزید وضاحت مل جائے گی۔ قرآنِ کریم کے الفاظ کو ایک بار پھر دیکھ لو کہ کیا ارشاد فرمایا : { کزرعٍ اخرج شطئہ فازرہ فاستغلظ فاستوی علی سوقہ بعجب الزراع لیغیظ بہم الکفار وعداللہ الذین امنوا و عملوا الصلحت منہم مغفرۃٌ و اجراً عظیمً } ” ان کی مثال ایک کھیتی کی مانند ہے کہ اس نے اپنی انگوری نکالی پھر وہ مضبوط ہوگئی اور موٹی ہوگئی پھر اپنے تنے پر کھڑی ہوگئی اس طرح وہ کاشتکاروں کو بھی بھلی معلوم ہونے لگی تاکہ کافروں کا جی جلے۔ اللہ نے ان لوگوں سے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے مغفرت او اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے۔ “ یہ الفاظ کس طرح صادق آ رہے ہیں اس حالت پر جو نبی اعظم و آخر ﷺ کی اس وقت تھی جب آپ ﷺ نے اسلام کا بیج بویا تھا اور آپ ﷺ تن تنہا تھے ، پھر کیا ہوا ؟ یہی کہ بحمد اللہ صحابہ کرام ؓ نے آپ ﷺ کی دعوت اسلام کو قبول کیا اور رفتہ رفتہ ان کی تعداد میں اضافہ پر اضافہ ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ آپ ﷺ کو فتح مبین یعنی صلح حدیبیہ کا واقعہ پیش آیا۔ اس نے اللہ کے فضل و کرم سے اس تنے کو ایک بہت تناور درخت بنا دیا کہ : { اصلھا ثابتٌ وفرعھا فی السماء } کی صورت پیدا ہوگئی اور اب مخالفت کی تیزو تند آندھیاں بھی اسے گزند نہ پہنچا سکیں اور یقینا نہیں پہنچا سکیں گی لیکن افسوس کہ اس کے سایہ میں بیٹھنے والے خود ہی اب اس پر کلہاڑے لے کر چڑھ دوڑے ہیں کہ جاڑے میں سایہ کیوں دے رہا ہے۔ اللہ کریم ہم کو سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔ لاریب اس درخت پر وہ وقت بھی آیا کہ صحابہ کرام ؓ کے خلوص و محبت ، جذبہ جانفروشی ، جادئہ حق پر ان کی استقامت اور عزیمت کو دیکھ کر لالہ تعالیٰ اور اس کا رسول محمد رسول اللہ ﷺ بہت خوش و خرم ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ کی مساعی جمیلہ بار آور ہوئیں اور مسلمان اللہ تعالیٰ کے اس وعدئہ مغفرت سے مسرور نظر آئے اور اجر عظیم کی جو خوشخبریاں ان کو دی گئیں انہوں نے ان کے دلوں کو مزید گرما دیا لیکن کافروں کی حالت کیا ہوئی ؟ یہی کہ وہ جل بھن کر رہ گئے ، جل بھن رہے ہیں اور قیامت تک جلتے بھنتے رہیں گے۔ قارئین کرام ! اچھی طرح سمجھ لیں کہ آج بھی صحابہ کرام ؓ کی محبت ایمان کامل کی علامت ہے اور ان میں سے کسی سے بھی کینہ و عداوت ، ان میں سے کسی کی بھی بدگوئی اور غیبت ، ان کے حیرت انگیز کارنامے سن کر ، سمجھ کر ان سے انکار اور ان میں سے کسی کے ساتھ بھی بغض وعناد وہی شخص ، وہی فکر ، وہی گروہ رکھے گا جن کے دلوں میں کھوٹ ہوگا اور ایمان کی بجائے دلوں میں نفاق بھرا ہوگا اور جن لوگوں کو اسلام کی ترقی ایک آنکھ نہ بھاتی ہوگی۔ لاریب یہ لوگ یہود و نصاریٰ سے بھی بدتر ہیں جو اسلام کے لیے مارآستیں سے کم نہیں ہیں خواہ وہ کون ہیں ، کہاں ہیں اور کیسے ہیں۔ نبی اعظم و آخر ﷺ کے صحابہ ؓ کی فضیلت اور مناقب پر لکھنے کو جی چاہتا ہے لیکن یہ مضمون زیادہ بڑھ گیا ہے ان شاء اللہ اللہ نے توفیق دی تو سورة الحدید میں اس پر کچھ بیان ہوگا اس جگہ اسی بات پر اکتفا کرتا ہوں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : { خیر امتی قرنی ثم الذین یلونہم ثم الذین یلونہم } (بخاری کتاب المناقب باب فضائل اصحاب النبی ﷺ ” میری امت میں بہتر زمانہ میرا ہے (جس میں صحابہ کرام ؓ ہیں) پھر ان کا جو ان کے بعد میں آئیں گے اور پھر ان کا جو انکے بعد میں آئیں گے۔ “ آپ ﷺ نے فرمایا : { لاتسبوا اصحابی فلوان احد کم انفق مثل احدذھبا مابلغ مداحدہم و لانصفۃ } (بخاری و مسلم) ” میرے صحابہ ؓ کو برا مت کہو اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کرے تو ان کے ایک مد کے برابر نہیں ہو سکتا اور نہ ہی نصف مد کے برابر ہو سکتا ہے۔ “ آپ ﷺ نے فرمایا : { اللہ اللہ فی اصحابی۔ اللہ اللہ فی اصحابی کا تتخذوہم غرضاً من بعدی فمن احبہم فبحبی احبہم و من ابغضہم فیغضی ابغضہم و من اذاہم فقد اذانی و من اذانی فقد اذی اللہ فیوشک ان یاخذہٗ } (رواہ الترمذی) ” میرے صحابہ ؓ کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ میرے صحابہ کرام ؓ کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ میرے بعد ان کو طعن وتشنیع کا حدف بنا لینا۔ جو شخص ان سے محبت کرتا ہے وہ میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کرتا ہی اور جو شخص ان سے بغض رکھتا ہے میرے بارے میں اس کے دل میں بغض ہے اس کی وجہ سے ان سے بغض رکھتا ہے۔ جس نے میرے صحابہ ؓ کو اذیت پہنچائی اس نے مجھے اذیت پہنچائی جس نے مجھے اذیت پہنچائی اس نے اللہ تعالیٰ کو اذیت پہنچائی اور جس نے اللہ تعالیٰ کو اذیت پہنچائی تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنی گرفت میں لے لے گا۔ “ قارئین کرام ! ذرا غور کرو کہ آج ہم میں ایسے موجود نہیں ہیں جو مکمل طور پر صحابہ کرام ؓ سے بغض رکھتے ہیں اور برملا کہتے ہیں کہ ہم کو کسی صحابی کی خدمات جاننے اور سمجھنے کی کوئی ضرورت نہیں ؟ کیا ہم میں ایسے نہیں جو بعض صحابہ ؓ سے محبت کے دعویدار اور بعض سے کھلی عداوت رکھنے کے مدعی ہیں۔ کیا ہم میں ایسے نہیں ہیں جو کسی صحابی کو فقیہ اور کسی کو غیر فقیہ کہنے میں ذرا باک نہیں سمجھتے ؟ کیا ہم میں ایسے نہیں جو صحابہ کرام ؓ کے تقابل میں مصروف رہتے ہیں ؟ حالانکہ یہ وہ مقام ہے جہاں بولنے سے خاموش رہنے میں زیادہ بھلائی ہے اور ایسے ہی مقامات کے لیے کہا گیا ہے کہ من سکت نجا جو خاموش رہا اس نے نجات پائی۔ صحابہ کرام ؓ اور خصوصاً نبی اعظم و آخر ﷺ کے اعزہ و اقارب میں جو رشتہ داریاں پائی جاتی تھیں جس طریقہ سے وہ ایک دوسرے کے ناموں کو استعمال کرتے تھے اور اپنی اولادوں کے نام رکھتے تھے وہ ثابت کرتے تھے کہ وہ بحمد اللہ شیروشکر تھے خصوصاً سیدنا علی ؓ ، سیدنا عثمان غنی ؓ ، سیدنا عمر فاروق ؓ اور سیدنا ابوبکر ؓ میں آپس میں بیحد محبت تھی اور ایک دوسرے کے لیے جو اعتماد تھا وہ نہ مٹنے والا ، نہ بھولنے والا اور نہ ہی بھلایا جانے والا تھا۔ ان کو جس ترتیب سے خلافت ملی لاریب یہی ترتیب فطری اور حقیقی ترتیب تھی اور یہ نبی اعظم و آخر ﷺ کی تربیت کا صحیح معنوں میں پَر تو تھا اور آپ ﷺ کی صحبت سے بلاریب نورعلیٰ نور تھے۔ ان میں سے کسی کے درمیان کسی طرح کا کوئی اختلاف موجود نہیں تھا۔ تاریخ میں جو کچھ اس سلسلہ میں بیان کیا گیا وہ خالصتاً اسلام کے خلاف ایک سازش کا نتیجہ تھا۔ وہ سازش بےنقاب ہوگئی۔ سازشیوں کے نام آج بھی زبان زد خاص و عام ہیں۔ یہود کی اس سازش نے اسلام میں جو پریشانیاں کھڑی کیں انہوں نے آج تک مسلمانوں کو ایک دوسرے سے جدا رکھا اور آج بھی وہ سازشی اسی طرح کی سازشوں میں مصروف ہیں۔ ہم نے اس جگہ ” محمد رسول اللہ ﷺ کی مختصر سرگزشت “ کے طور پر ایک مضمون دینے کا وعدہ گزشتہ سورت میں بھی کیا تھا اور اس سورت میں بھی اس سورت کے خاتمہ پر وہ مضمون دیا جا رہا ہے اور اس کے بعد اس ضمن میں صحابہ کرام ؓ کی ان رشتہ داریوں کے بارے میں باقاعدہ شجرہ نسب کے لحاظ سے واضح کردیں گے کہ ان میں ہرگز ہرگز کوئی اختلاف ، کوئی پَرخاش اور کوئی بغض وعناد کا شائبہ تک بھی موجود نہیں تھا۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ حسب و نسب کے رشتوں میں بھی منسلک تھے۔ وہ سارے کے سارے قوم مسلم کے سید اور سردار تھے۔ یہ شجرہائے اصل حقیقت کو کھول کر تمہارے سامنے رکھ دیں گے۔ ان کی رشتہ داریاں تم پر واضح کردیں گے کہ ان کی عداوت کی ساری داستانیں فرضی ، اختراعی اور بناوٹی ہیں جو اسلام کی عداوت کے لیے گھڑی گئی ہیں۔ لاریب ان کا مسموم اثر ہماری کتب اسلامی میں بھی کسی نہ کسی رنگ میں پایا گیا ہے تاہم بجائے اس کے کہ اس رنگ کا کوئی مناسب حل تلاش کیا جاتا بعد میں آنے والوں نے ان پر عمارتیں کھڑی کردی ہیں تاہم ہم نے کوشش کی ہے کہ ان سب کو ایک ہی دھکے کے ساتھ دھڑام سے گرا دیا جائے اور ان شاء اللہ العزیز آپ ایسا ہی پائیں گے۔ اگر آپ کو حق کی تلاش ہوئی تو تھوڑی سی محنت سے بہت کچھ سمجھ لو گے۔ بلاریب اس سے { لیغیظ بہم الکفار } بھی ہوگا اور لفظ { کفار } تمثیل کے اصل مفہوم پر جس طرح روشنی ڈال رہا ہے اور سورت کے آخر میں اس وعدئہ نصرت و مغفرت کی بشارت ہے جس کا بیان اوپر تفصیل کے ساتھ گزر چکا ہے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم اہل ایمان کو اپنے ان کیے گئے وعدوں سے نوازے اور ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں سے درگزرفرماتے ہوئے اجر عظیم عطا فرمائے۔ اسی دعا پر ہم اس سورت کی تفسیر کو ختم کرتے ہیں اور اس کے بعد نہایت عقل و فکر سے کام لیتے ہوئے آنے ولاے مضمون کو دیکھنے اور سمجھنے کی تلقین کرتے ہیں۔ اللہ آپ کا اور ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ عبدالکریم اثری 4 فروری 1998 ء محمد رسول اللہ ﷺ کی مختصر سرگزشت نبی اعظم و آخر ﷺ کے والد ماجد کی شادی ، وفات اور آپ ﷺ کی پیدائش 9 ربیع الاول 1 ھ عام الفیل مطابق 19 اپریل 284 جو لین پیریڈ ، 10/ایار 4331 عبرانی و یہودی 11/ بینش 3675 طوفان ، یکم جیٹھ 3672 ھ کل جگ ، 20/7 2585 ابراہیمی ، 18/توت 1391 بخت نصری 20/نیسان 882 سکندری یکم جیٹھ 628 بکرمی شمس 22/اپریل 572 ء 25/برمددہ 287 قطبی جدید 18/ دے 40 نوشیروانی آج سے 1470 سال چند ماہ قبل مکہ مکرمہ میں دو شنبہ کے روز صبح کو ایک خوشخبری نے قریش کے ایک فرد کا چہرہ روشن کردیا کہ ایک خاتم النبیین ہونے والے نبی محمد رسول اللہ ﷺ اس دنیا کے اندر معرض وجود میں آئے۔ پورے قریش میں خوشخبری کا باعث یہ ہوا کہ عربی دستور کے مطابق ایک نوجوان ابھی ایک ڈیڑھ سال پہلے دیوتا کے حضور ذبح کیے جانے والا تھا۔ اس نوجوان پر خاندان بلکہ پورے مکہ کے لوگوں کو ترس آگیا۔ ایک کاہنہ کے مشورہ سے اونٹوں پر اور اس نوجوان پر قرعہ ڈالا گیا۔ کئی بار کے قرعہ کے بعد طے کیا گیا کہ اس نوجوانکے بدلے سو اونٹ قربان کردیئے جائیں تو دیوتا راضی ہوجائے گا۔ اس نوجوان کا نام عبداللہ عبدالمطلب تھا۔ اس واقعہ کے بعد اس نوجوان کی شادی ایک شریف خاتون آمنہ بنت وہب سے ہوئی۔ بی بی کو حاملہ چھوڑ کر یہ نوجوان شام کو گیا لیکن پھر زندہ لوٹنا نصیب نہ ہوا۔ اس نوجوان کی وفات کے چند ہی دنوں بعد یتیم عبداللہ کے پیدا ہونے کی خوشخبری اہل مکہ نے سنی اور تقریباً ہر شخص کی زبان پر یہ ترا نہ تھا ؎ بارک فیک اللہ من غلام یا ابن الذی من ہر مۃ الحمام نجابعون الملک العلام فدوی غداۃ الضرب بالسھام بمائۃ من ابل سوام ” تُو نہایت ہی مبارک بیٹا ہے اے اس شخص کے بیٹے جو موت کے منہ سے خداوند قدوس کی اعانت سے بچ گیا تھا ، قرعہ کے روز اس کے فدیہ میں سو اونٹ قربان کیے گئے “ نبی اعظم و آخر ﷺ کا حلیہ مبارک اور نام کی ایک پیش گوئی یہ فرزند عبداللہ اپنی شکل و صورت سے بعینہٖ وہ شخص تھا جس کا حلیہ سنا کر سیدنا سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا تھا ؎ خلو محمد یم زہ دودی وزہ روعی نبوت یروشلیم ” دوسرا پاستودہ ہے ، یہ ہے میرا محبوب اور یہ ہے میری جان ، اے یروشلم کی بیٹیو ! “ اس بشارت کو نہ جاننے کے باوجود اتفاق سے دادا نے اس مولود کا نام محمد رکھا اور ماں نے احمد کے نام سے اس کو پکارا اور اس کا عکس بھی بیان کیا گیا ہے۔ دادا نے صورت کو دیکھتے ہی خوش ہو کر پیش گوئی کے طور پر کہہ دیا کہ ” میرا یہ بیٹا شاندار ہستی ہوگا “۔ عرب کے دستور کے مطابق آپ ﷺ کو اپنی ماں کا دودھ یا تو نصیب ہی نہ ہوا یا محض چند یوم۔ سب سے پہلے آپ ﷺ کو آپ ﷺ کے سب سے بڑے چچا ابولہب کی لونڈی ثوبیہ نے دودھ پلایا جسے اس خوش میں ابولہب نے آزاد بھی کردیا۔ پھر آپ ﷺ کو بنی سعد بن بکر کی ایک خاتون حضرت حلیمہ سعدیہ کے حوالہ کیا گیا وہ آپ ﷺ کو لے کر اپنی وادی میں چلی گئیں۔ نبی اعظم و آخر ﷺ کے فطری عدل کا واقعہ اور معد کی گفتگو اس بےباپ بیٹے کی فطرت میں اللہ نے ایسا عدل رکھ دیا تھا اور فطری عدل کی اس حقیقت کو دیکھ کر حلیمہ کو نہایت حیرت تھی کہ یہ بچہ عجیب ہے کہ ایک چھاتی سے جب دودھ پی لیتا ہے تو دوسری کو منہ تک نہیں لگاتا گویا ایک چھاتی ہمیشہ اپنے دودھ بھائی کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ سیدہ حلیمہ کہتی ہیں کہ دودھ چھڑانے کے بعد آپ ﷺ نے جب بامعنی جملے بولنے شروع کیے تو سب سے پہلے بول جو آپ ﷺ کی زبان مبارک سے نکلے وہ یہ تھے : اللہ اکبر کبیرا ، والحمد اللہ کثیرا ، سبحان اللہ بکرۃ واصیلا۔ اور اس میں سب سے بڑی تعجب اور حیرت کی بات یہ تھی کہ ایام جاہلیت میں یہ فقرے کسی کی زبان سے نہیں نکلے تھے۔ سب سے پہلے اس بےباپ بیٹے کی زبان سے یہ کلمے ادا ہوئے۔ ان کلموں کو ادا کرنے کے وقت آپ ﷺ کی عمر صرف دو سے ڈھائی سال کی تھی۔ دودھ چھڑانے کے بعد سیدہ حلہمن آپ ﷺ کو آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ سیدہ آمنہ کے پاس لے گئیں مگر مکہ کی آب و ہوا ان دنوں خراب تھی اس لیے سیدہ آمنہ نے آپ ﷺ کو سیدہ حلیمہ کے ساتھ دوبارہ واپس کردیا۔ حلیمہ سعدیہ کو دودھ پلانے کی اور آپ ﷺ کی پرورش کرنے کی اجرت دی جاتی تھی اس لیے آپ ﷺ سے سیدہ حلیمہ کوئی کام نہ لے سکتی تھیں لیکن تین سال کے اس بچے نے بول کر اپنی دایہ کو کہا اور بہت مجبور کیا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ میرے بھائی اور بہن تو دن بھربکریاں چراتے پھریں اور میں ان کے ساتھ شریک نہ ہوں۔ مجبوراً آپ ﷺ کو بکریاں چرانے کی اجازت دے دی گئی۔ ربِّ ذوالجلال والا کرام کی شان دکھیں کہ جوں ہی آپ ﷺ بکریوں کے ساتھ جانے لگے تو ان بکریوں کا دودھ پہلے سے بہت بڑھ گیا ، ان کی تعداد میں بھی روز افزوں اضافہ ہوناشروع ہوگیا اور ان کے تروتازہ ہونے میں بھی نمایاں فرق پڑا اور اس طرح اس چراگاہ کی ہریالی بھی قدرتاً بڑھنے لگی اور اس قبیلہ کے لوگ خوشحال ہوگئے۔ لقد بلغت بالھاشمی حلیمہ مقاماً فی ذروہ العز والمجد وزادت مواشیھا واخصب ربعھا فقد عم ہذا السعد کل بنی سعد ” اس ہاشمی کے آنے سے حلیمہ سعدیہ نے عزت و شرف کا اونچا مقام پا لیا۔ اس کے مویشی بڑھنے لگے ، اس کا گھر سدھر گیا اور یہ خوش بختی تمام کی تمام بنی سعد کو عطا ہوئی۔ “ نبی اعظم و آخر ﷺ کی والدہ ماجدہ اور دادا کی وفات آپ ﷺ کی عمر مبارک جب چھ برس کی ہوئی تو سیدہ آمنہ نے آپ ﷺ کو اپنے پاس بلایا اور آپ ﷺ کو ساتھ لے کر اپنے مرحوم شوہر کی قبر دیکھنے کے لیے مدینہ گئیں۔ ان کے ساتھ آپ ﷺ کی خادمہ ام ایمن بھی تھیں۔ محلہ بنی نجار میں جہاں سیدعبداللہ کی قبر تھی ایک ماہ قیم کیا۔ واپسی میں مقام ابواء میں پہنچ کر ماں نے بھی داغ مفارقت دے دیا اور سیدہ آمنہ وہیں مدفون ہوئیں۔ امِ ایمن ؓ آپ ﷺ کو مکہ واپس لائیں اور آپ ﷺ کے دادا عبدالمطلب نے اب ماں کی ذمہ داری بھی سنبھال لی۔ لیکن اس بات کو بمشکل دو سال گزرے ہوں گے کہ آپ ﷺ کے دادا عبدالمطلب کا بھی انتقال ہوگیا۔ نبی اعظم و آخر ﷺ کا بچپن اور عریانی کا واقعہ اس زمانہ کی بات ہے کہ قریش بیت اللہ کی تعمیر کر رہے تھے اور آپ ﷺ چونکہ بچہ ہی تھے ، بچوں کی طرح بڑوں کے ساتھ کام میں مصروف ہوگئے۔ آپ ﷺ کے چچا عباس ؓ نے دیکھا تو آپ ﷺ پر ترس آگیا اور اپنے بھتیجے کا تہبند اتار کر کندھے پر رکھ دیا اور بھتیجے سے مخاطب ہو کر کہا کہ بھتیجے اس طرح کندھے پر پتھر رکھو گے تو کندھے کی حفاظت رہے گی ، وہ زخمی نہیں ہوگا لیکن جونہی آپ ﷺ کا تہبند اترا تو آپ ﷺ زمین پر گر گئے اور آپ ﷺ کی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھ گئیں۔ چچا اور دوسرے لوگ جب بھاگ کر قریب پہنچے تو آپ ﷺ کو افاقہ ہوا اور آپ ﷺ نے آواز دی کہ چچا میرا تہبند ، میرا تہبند۔ اس وقت آپ ﷺ کا تہبند آپ ﷺ کے جسم پر باندھ دیا گیا۔ تب آپ ﷺ کی کلی افاقہ ہوا اور اوسان درست ہوئے۔ حالانکہ یہ کہیں تحریر نہیں ہوا کہ اس وقت آپ ﷺ کے جسم پر کرتہ نہیں تھا لیکن یہ بات یقینی ہے اور حتمی ہے کہ آ ﷺ کے جسم مبارک پر کرتہ تھا اور کرتہ کے نیچے آپ ﷺ نے تہبند باندھ رکھا تھا اور آپ ﷺ کی عمر بھی اس وقت بچپن ہی کی تھی۔ خیال رہے کہک عبہ کی یہ تعمیر و تعمیر نہیں تھی جس میں آپ ﷺ کو حکم تسلیم کیا گیا تھا بلکہ یہ تعمیر اس سے برسوں پہلے کی ہے۔ اس تعمیر کے وقت آپ ﷺ بچے نہیں تھے بلکہ جوان تھے اور کعبہ کی تعمیر اکثر و بیشتر ہر دوچار سال کے بعد ہوتی ہی رہتی تھی۔ اس لیے وہ تعمیر اتنی پختہ نہیں ہوتی تھی بلکہ پتھر رکھ کر عارضی تعمیر بنائی جاتی تھی جو بارش کے باعث اکیر منہدم ہوجاتی تھی۔ وہت عمیر نہایت اہتمام سے کی جا رہی تھی جس تعمیر میں آپ ﷺ کو حکم بنایا گیا تھا اس کا کر آگے آئے گا۔ یہ بات اس لیے تحریر کی گئی کہ تاکہ معلوم ہوجائے کہ آپ ﷺ بچپن ہی میں شرم و حیا کے پتلے تھے اور عام بچوں کی طرح آپ ﷺ کی عمر نہیں گزر رہی تھی بلکہ آپ ﷺ کی انفرادیت اپنی جگہ قائم تھی اور یہ بھی کہ آپ ﷺ کی محافظت اور نگرانی براہ راست اللہ رب ذوالجلال والا کرام کے دست قدرت سے کی جا رہی تھی اور بچپن ہی سے آپ ﷺ کی زندگی کے حالات کی مکمل نگرانی کی جا رہی تھی کیونکہ علم الٰہی میں آپ ﷺ کا نبی و رسول بنایا جانا موجود تھا اگرچہ اس کا آپ ﷺ کو بھی علم نہیں تھا۔ نبی اعظم و آخر ﷺ اپنے چچا زبیر کی کفالت میں اب آپ ﷺ کی پرورش کی ذمہ داری آپ ﷺ کے چچا زبیر بین عبدالمطلب کے ذمہ لگا دی گئی اور اس طرح آپ ﷺ کے چچا زبیر نے ایک مدت تک آپ ﷺ کی پرورش کے فرائض انجام دیئے۔ آپ ﷺ طبعی طور پر معروف رہنا پسند کرتے تھے اس لیے آپ ﷺ نے آٹھ دس سال کی عمر میں اہل مکہ کی بکریاں چرانے کا کام اپنے ذمہ لے لیا جس پے آپ ﷺ کے پاس کچھ مال بھی جمع ہو گای۔ زبیر بن عبدالمطلب چونکہ تجارت کا کام کرتے تھے اس لیے 16 , 15 سال کی عمر میں آپ ﷺ بھی چچا کے ساتھ اس کام پر لگ گئے اور کم و بیش 5 سے 8 سال تک تجارت کا کام آپ ﷺ اپنے چچا زبیر کے ساتھ سرانجام دیتے رہے۔ نبی اعظم و آخر ﷺ کی زندگی کے اہم واقعات قبل از بلوغت آپ ﷺ کی عمر پندرہ سولہ برس کی تھی کہ جنگِ فجار پیش آئی۔ اس جنگ میں ایک طرف قریش اور ان کے ساتھ بنو کنانہ تھے اور دوسری طرف قیس بن عیلان تھے۔ قریش اور کنانہ کا کمانڈر حرب بن امیہ تھا۔ شروع شروع میں قیس کا قلہ بھاری رہا لکن بعد میں پیس پر کننہ کا پلہ بھاری ہوگیا۔ اس جنگ کو حرب فجار کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ، کیوں ؟ اس لیے کہ یہ جنگ حدود حرم کے اندر ہوئی اور شہر حرام میں بھی ہوئی۔ اس جنگ میں نبی اعظم و آخر ﷺ بھی تشریف لے گئے اور اپنے چچا زبیر بن عبدالمطلب ہی کے ساتھ رہے اور ان کے ہاتھ میں تیر دیتے رہے۔ علاوہ ازیں آپ ﷺ سے کچھ سرزد نہیں ہوا۔ اس دوران مکہ کی حالت بہت ہی خطرناک ہوگئی اور لوگوں کا امن مکمل طور پر برباد ہوگیا نہ تو آپس ہی میں ان کے حالات درست رہے اور نہ باہر سے آنے والے ایام حج میں محفوظ رہ سکے جس کی تفصیلات بہت لمبی ہیں۔ انہی دنوں میں آپ ﷺ نے اور آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے چچاؤں نے اکثر قبیلوں کے سرداروں اور سمجھ دار لوگوں کو ملک کی بےامنی ، راستوں کا خطرناک ہوجانا ، مسافروں کا لٹنا ، غریبوں پر زبردستوں کا ظلم بیان کر کے ان سب باتوں کی اصلاح پر توجہ دلائی۔ آپ کی ان مساعی کے نتیجہ میں ایک انجمن قائم ہوگئی جس میں بنو ہاشم ، بنو اسد ، نبو زہرہ ، بنو تیم سب شامل تھے۔ اس انجمن کے جو ممبر بنائے گئے ان کے درمیان یہ عہد وقرار طے پایا کہ : 1۔ ہم ملک سے بےامنی دور کریں گے۔ 2۔ ہم مسافروں کی حفاظت کریں گے۔ 3۔ ہم غریبوں کی امداد کریں گے۔ 4۔ ہم ہر زبردست کو زیردست پر ظلم کرنے سے روکیں گے۔ بحمد اللہ اس تدبیر سے بنی آم کے جان و مال کی بہت حد تک حفاظت ہوگئی تھی۔ آپ ﷺ نے اپنی نبوت کے مکی دور میں کئی بار اس بات کا اظہار کیا کہ اگر آج بھی کوئی اس انجمن کے نام سے کسی کو مدد کے لیے بلائے تو میں سب سے پہلے اس کی امداد کے لیے جاؤں گا۔ نبی اعظم و آخر ﷺ کی بلوغت کے بعد کے مختصر حالات اور عقد اس دوران یویا آپ ﷺ 24 , 20 سال کی عمر کو پہنچ گئے اور آپ ﷺ کی امانت و دیانت کی شہرت ہو چلی تھی اور تجارت میں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو بہت برکت دی۔ سیدہ خدیۃ الکبریٰ ؓ جو ایک بہت مال دار خاتون تھیں اور اپنا مال لوگوں کو دے کر تجارت کراتی تھیں۔ آپ ﷺ کی شہرت سن کرسیدہ خدیجہ ؓ نے آپ ﷺ کی خدمات مستعار لیں اور اپنا مال تجارت آپ ﷺ کے حوالے کیا اور اپنے غلام میسرہ کو آپ ﷺ کے ساتھ شام کی طرف روانہ کیا۔ اس سفر سے اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو بہت مال دیا اور واپسی پر آپ ﷺ کے اس سفر کے سارے حالات میسرہ نے سیدہ خدیجہ ؓ کے سامنے بیان کیے اور آپ ﷺ کی امانت و دیانت کی تصدیق کی۔ سیدہ خدیجہ ؓ نے جو اس وقت 40 برس کی تھیں اور بیوہ تھیں آپ ﷺ کو پیغام نکاح بھیجا اور آپ ﷺ نے اپنے چچاؤں کے مشورہ سے خدیجہ ؓ کو اپنی ازدواجی زندگی کے قبول کرلیا اور شادی ہوگئی۔ نکاح میں بنی ہاشم اور روسائے مضر شریک ہوئے۔ نبی اعظم و آخر ﷺ کی اولاد کی اسماء گرامی ابراہیم کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کی بقیہ تمام اولاد انہی کے بطن سے تھی۔ سب سے پہلے قاسم پیدا ہوئے اور انہی کے نام پر آپ ﷺ کی کنیت ابوالقاسم پڑی۔ پھر زینب ، پھر رقیہ اور پھر ام کلثوم ؓ اور اس کے بعد فاطمہ ؓ اور عبداللہ ؓ پیدا ہوئے۔ عبداللہ کا لقب طیب اور طاہر تھا۔ آپ ﷺ کے سب بچے بچپن ہی میں انتقال کر گئے البتہ بچیوں میں سے ہر ایک نے اسلام کا زمانہ پایا ، مسلمان ہوئیں اور ہجرت کے شرف سے بھی مشرف ہوئیں لیکن سیدہ فاطمہ ؓ کے سوا باقی سب کا انتقال آپ ﷺ کی زندگی ہی میں ہوگیا اور سیدہ فاطمہ ؓ کی وفات آپ ﷺ کی وفات کے چھے ماہ بعد ہوئی۔ اس کی تفصیل ان شاء اللہ بعد میں کریں گے اور آپ ﷺ کی بیٹیوں کی اولاد کا ذکر بھی آئے گا۔ ان شاء اللہ۔ نبی اعظم و آخر ﷺ کی شادی کے بعد زندگی کا ایک نیا موڑ شادی کے بعد جس طرح ہر شخص کی زندگی کا رخ بدل جاتا ہے اسی طرح آپ ﷺ کی زندگی نے ایک نیا موڑ بدلا۔ اس وقت تک آپ ﷺ نے جو جو کام کیے ان میں لوگوں کی بکریاں اور اونٹ چرانے کا کام تھا پھر اپنے چچا زبیر کے ساتھ تجارت کے لیے ادھر ادھر تجارت کے سفروں کا ذکر ہے۔ انہی سفروں میں ایک سفر سیدہ خدیجہ ؓ کے مال تجارت کے فروخت کرنے کا ہے اور اللہ کے فضل سے ان کاموں میں اپنی محنت سے آپ ﷺ نے قدرے مال بھی جمع کرلیا تھا اور ظاہر ہے کہ جو شخص اپنی بیوی کو مہر میں بیس اونٹ دیتا ہے اس کے اموال سے انکار کیونکر ممکن ہے لیکن اب جب کہ ایک بہت مالدار خاتون سے شادی ہوگئی اور دونوں جگہ کا مال مل کر ایک دوسرے کے مال کے اضافہ کا باعث ہوا۔ اب آپ ﷺ نے یہ تمام کام ترک کردیئے اور سیدہ خدیجہ ؓ کی تجارت کی نگرانی کرنے لگے اور اس طرح گویا آپ ﷺ مستقل مکہ میں قیام پذیر ہوگئے یعنی ان سفروں پر جانا خود ترک کردیا اور اس طرح بحمداللہ آپ ﷺ کی سنہری زندگی کا دور آگیا کہ ہر لحاظ سے آرام و آسائش میسر آگئی تو آپ ﷺ نے کار خیر میں لوگوں کے ساتھ بہت تعاون کیا اور ایسے ہی نیک کاموں کی وجہ سے لوگوں کے دلوں پر آپ ﷺ کی نیکی اور بزرگی کا اتنا اثر ہوا کہ وہ آپ ﷺ کو نام لے کر نہیں پکارتے تھے بلکہ الصادق و الامین کہہ کر پکارا کرتے تھے اور امانتیں آپ ﷺ کے سپرد کرتے تھے اور یہ سلسلہ برابر کئی سال تک چلتا رہا اور آپ ﷺ لوگوں کے ساتھ دل کھول کر تعاون کرتے رہے اور ہر ایک کے دکھ سکھ میں شریک ہوئے اور اصلاح کے کاموں میں پیش پیش رہے۔ نبی اعظم و آخر ﷺ اور کعبہ کی تعمیر کا ایک معروف واقعہ آپ ﷺ بھرپور جوانی کو پہنچے یعنی آپ ﷺ کی عمر عزیز کے 35 سال گزر رہے تھے کہ قریش مکہ نذے نئے سرے سے بیت اللہ کی تعمیر شروع کی۔ وجہ یہ تھی کہ کعبہ صرف قد سے کچھ اونچی چہار دیواری کی شکل میں تھا حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے زمانے ہی سے اس کی بلندی 9 ہاتھ تھی اور اس پر چھت نہ تھی اس کیفیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ چوروں نے اس کے اندر رکھا ہوا خزانہ چرا لیا۔۔۔۔ اس کے علاوہ اس کی تعمیر پر ایک طویل زمانہ گزر چکا تھا عمرت خستگی کا شکار ہوچکی تھی اور دیواریں پھٹ گئی تھیں ادھر اسی سال ایک زور دار سیلاب آیا جس کے بہائو کا رخ خانہ کعبہ کی طرف تھا اس کے نتیجے میں خانہ کعبہ کسی بھی لمحے گرسکتا تھا اس لیے قریش مجبور ہوگئے کہ اس کا مرتبہ و مقام برقرار رکھنے کے لیے سے ازسرنو تعمیر کریں۔ اس مرحلے پر قریش نے یہ متفقہ فیصلہ کیا کہ خانہ کعبہ کی تعمیر میں صرف حلال رقم ہی استعمال کریں گے اس میں رنڈی کی اجرت ، سود کی دولت اور کسی کا ناحق لیا ہوا مال استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ (نئی تعمیر کے لیے پرانی عمارت کو گرانا ضروری تھا) لیکن کسی کو گرانے کی جرأت نہیں ہوتی تھی۔ بالآخر ولید بن مغیرہ مخزومی نے ابتدا کی جب لوگوں نے دیکھا کہ اس پر کوئی آفت نہیں ٹوٹی تو باقی لوگوں نے بھی گرانا شروع کیا اور جب قواعد ابراہیم تک گرا چکے تو تعمیر کا آغاز کیا۔ تعمیر کے لیے الگ الگ ہر قبیلے کا صہ مقرر تھا اور ہر قبیلے نے علیحدہ علیحدہ پتھر کے ڈھیر لگار کھے تھے تعمیر شروع ہوئی۔ باقوم نامی ایک رومی معمار نگرانی (Supervisor) تھا۔ جب عمارت حجر اسود تک بلند ہوچکی تو یہ جھگڑا اٹھ کھڑا ہوا کہ حجراسود کو اس کی جگہ رکھنے کا شرف و امتیاز کسے حاصل ہو یہ جھگڑا چار پانچ روز تک جاری رہا اور رفتہ رفتہ اس قدر شدت اختیار کرگیا کہ معلوم ہوتا تھا کہ سرزمین حرم میں سخت خون خرابہ ہوجائے گا۔ لیکن ابو امیہ مخزومی نے یہ کہہ کر فیصلے کی ایک صورت پیدا کردی کہ مسجد حرام کے دروازے سے دوسرے دن جو سب سے پہلے داخل ہو اسے اپنے جھگڑے کا حکم مان لیں۔ لوگوں نے یہ تجویز منظور کرلی اللہ تعالیٰ کی مشیت کہ اس کے بعد سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ تشریف لائے۔ لوگوں نے آپ ﷺ کو دیکھا تو چیخ پڑے کہ ھنااللامین رضیاناہ ھذا محمد ﷺ ۔ ” یہ امین ہیں۔ ہم ان سے راضی ہیں یہ محمد ﷺ ہیں۔ “ پھر جب آپ ﷺ ان کے قریب پہنچے اور انہوں نے آپ ﷺ کو معاملے کی تفصیل بتائی تو آپ ﷺ نے ایک چادر طلب کی۔ بیچ میں حجراسود رکھا اور متنازعہ قبائل کے سرداروں سے کہا کہ آپ سب حضرات چادر کا کنارہ پکڑ کر اوپر اٹھائیں انہوں نے ایسا ہی کیا جب چادر حجراسود کے مقام تک پہنچ گئی تو آپ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو اس کی مقرر جگہ پر رکھ دیا یہ بڑا معقول فیصلہ تھا اس پر ساری قوم راضی ہوگئی۔ ادھر قریش کے پاس مال حلال کی کمی پڑگئی اس لیے انہوں نے شمال کی طرف سے کعبہ کی لمبائی تقریباً چھ ہاتھ کم کردی یہی پکڑا ححر اور حطیم کہلاتا ہے۔ اس دفعہ قریش نے کعبہ کا دروازہ زمین سے خاصا بلند کردیا تاکہ اس میں وہی شخص داخل ہوسکے جسے وہ اجازت دیں جب دیواریں پندرہ ہاتھ بلند ہوگئیں تو اندر چھ ستون کھڑے کرکے اوپر سے چھت ڈال دی گئی اور کعبہ اپنی تکمیل کے بعد قریب قریب چوکور شکل کا ہوگیا اب خانہ کعبہ کی بلندی پندرہ میٹر ہے۔ حجراسود والی دیوار اور اس کے سامنے کی دیوار یعنی جنوبی اور شمالی دیواریں دس دس میٹر ہیں حجراسود مطاف کی زمین سے ڈیڑھ میٹر کی بلندی پر ہے۔ دروازے والی دیوار اور اس کے سامنے کی دیوار یعنی پورب اور پچھتم کی دیواریں 12 , 12 میٹر ہیں۔ دروازہ زمین سے دو میٹر بلند ہے۔ دیوار کے گرد نیچے ہر چہار جانب سے ایک بڑھے ہوئے کرسی نما ضلے کا گھیرا ہے جس کی اوسط اونچائی 25 سینٹی میٹر اور اوسط چوڑائی 30 سینٹی میٹر ہے۔ اسے شاذروان کہتے ہیں۔ یہ بھی دراصل بیت اللہ کا جزو ہے لیکن قریش نے اسے بھی چھوڑ دیا تھا۔ تفصیل کے لیے سیرۃ انب ہشام اول ص 192 تا 197 ، فقہ ایسرہ ص 63 , 62 صحیح بخاری باب فضل مکہ و بنیا نھا دیکھیں۔ نبی اعظم و آخر ﷺ کی راتیں غار حرا میں رسول اللہ ﷺ کو بعثت سے تقریباً سات سال قبل ایک روشنی اور چمک سی نظرآنے لگی تھی اور آپ ﷺ اس روشنی کو حاصل کرکے خوش ہوتے تھے جیسا کہ صحیح بخاری اور مسلم میں اس کی تفصیل ہے لیکن اس روشنی میں کوئی آواز یا صورت نہ ہوتی تھی اور پھر بعثت کا زمانہ جس قدر قریب ہوتا گیا آپ ﷺ کے مزاج میں خلوث گزینی کی عادت بڑھتی گئی اور آپ ﷺ اکثر پانی اور ستو لے کر بیت اللہ سے دور ایک سنسان جگہ کوہ حرا کے ایک غار میں جس کا طول دو میٹر اور عرض ڈیڑھ میٹر کے قریب تھا جا بیٹھتے تھے اور کائنات ارضی و سماوی پر غور و فکر اور تدبر کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی تحمید و تقدیس میں مشغول رہتے تھے اور جب تک ساتھ کا توشہ ختم نہ ہوجاتا شہر کو واپس نہ آتے اور بعثت کا زمانہ جوں جوں قریب ہوتا گیا اس تخلیہ کی مدت اور وقت بڑھتا گیا یہاں تک کہ آپ ﷺ کو خوابات آنے لگے جو اتنے سچے ہوتے کہ ان کا نتیجہ فوراً ظاہر ہوجاتا گویا جو رات کو دیکھا صبح کو ویسا ہی ظہور میں آگیا اور اس کا ذکر بھی صحیحین میں سیدہ عائشہ ؓ کے حوالہ سے موجود ہے اور مشکوۃ ص 513 پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ آپ ﷺ کا یہ تخلیہ دوسرے دنوں کی نسبت رمضان میں زیادہ ہوتا تھا اور بعض رمضان المبارک مکمل آپ ﷺ نے وہاں گزارے اور یہ گویا ایک طرح کی فطری ہدایت تھی جو جبلت میں داخل کہی جاسکتی ہے اور بعض اوقات سیدہ خدیجہ ؓ بھی آپ ﷺ کے ساتھ اس غار تک گئیں گویا اس طرح آپ ﷺ نے جگہ اور راستہ کی پوری نشاندہی سیدہ خدیجہ کو کردی تھی کہ اگر کوئی ضرورت پیش آئے تو آپ ﷺ سے رابطہ قائم کیا جاسکے۔ نبی اعظم و آخر ﷺ کی وحی کے شروع ہونے کا ذکربخاری شریف میں حدثنا یحییٰ بن بکیر ، قال حدثنا اللیث عن عقیل عن ابن شھاب عن عروۃ بن الزبیر عن عائشۃ ام المومنین انھا قالت : اول مابدی بہ رسول اللہ ﷺ من الوحی الرویا الصالحۃ فی النوم ، فکان لا یری رویا الاجاءت مثل فلق الصبح ثم حبب الیہ الخلاء ، وکان یخلو بغار حرا فیتحنث فیہ ، وھو التعبد۔۔۔ اللیالی ذوات العدد ، قبل ان ینزع الی اھلہ ویتزودلذللک ، ثم یرجمع الی خدیجۃ فیتزودلمثلھا ، حتی جاء ہ الحق و ھو فی غار حرا ، فحاء ہ الملک فقال : اقرا قال : ما انا بقاری قال : فاخذنی فغطی حی بلغ منی الحمد ، ثم ارسلنی فقال : اقرا قلت : ما انا بقاری ، فاخذنی فغطنی الثانیۃ حتی بلغ منی الحمد ، ثم ارسلنی فقال : اقرا فقلت : ما انا بقاری ، فاخذنی فغطنی الثالثہ ، ثم ارسلنی فقال : (اقرا باسم تلک الذی خلق خلق الانسان من علق اقرا اوتلک الاکرم) فرجمع حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں : ” رسول اللہ ﷺ پر وحی کی ابتدا نیند میں اچھے خواب سے ہوئی۔ آپ ﷺ جو بھی خواب دیکھتے تھے وہ سپیدہ صبح کی طرح نمودار ہوتا تھا پھر آپ ﷺ کو تنہائی محبوب ہوگئی چناچہ آپ ﷺ غار حرا میں خلوت اختیار فرماتے اور کئی کئی رات گھر تشریف لائے بغیر مصروف عبادت رہتے اس کے لیے آپ ﷺ توشہ لے جاتے پھر توشہ ختم ہونے پر حضرت خدیجہ ؓ کے پاس واپس آتے اور تقریباً اتنے ہی دنوں کے لیے پھر توشہ لے جاتے یہاں تک کہ آپ ﷺ کے پاس حق آیا اور آپ ﷺ غار حرا میں تھے یعنی آپ ﷺ کے پاس فرشتہ آیا اور اس نے کہا پڑھو ! آپ ﷺ نے فرمایا : ” میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ، آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ اس پر اس نے مجھے پکڑ کر اس زور سے دبایا کہ میری قوت نچوڑ دی پھر چھوڑ کر کہا ، پڑھو ! میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں اس نے دوبارہ پکڑ کر دبایا۔ پھر چھوڑ کر کہا ، پڑھو ! میں نے پھر کہا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ اس نے تیسری بار پکڑ کر دبوچا پھر چھوڑ کر کہا (اقرا باسم ربک الذی خلق 0 خلق الانسان من علق 0 اقرا وربک الاکرم 0) ” پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے انسان کو لوتھڑے سے پیدا کیا۔ پڑھو اور تمہارا رب نہایت کریم ہے۔ “ ان آیات کے ساتھ رسول اللہ ﷺ پلٹے۔ آپ ﷺ کا دل دھک دھک کررہا تھا۔ آپ ﷺ حضرت خدیجہ بنت خویلد ؓ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا : مجھے چادر اوڑھا دو ، مجھے چادر اوڑھا دو ، انہوں نے آپ ﷺ کو چادر اوڑھا دی یہاں تک کہ خوف جاتا رہا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے حضرت خدیجہ ؓ کو واقعے کی اطلاع دیتے ہوئے فرمایا : مجھے کیا ہوگیا ہے ؟ مجھے تو اپنی جان کا ڈر لگتا ہے حضرت خدیجہ ؓ نے کہا قطعاً نہیں بخدا آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ رسوا نہ کرے گا آپ ﷺ صلہ رحمی کرتے ہیں درماندوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں ، تہی دستوں کا بندوبست کرتے ہیں ، مہمان کی میزبانی کرتے ہیں اور حق کے مصائب پر اعانت کرتے ہیں۔ اس کے بعد حضرت خدیجہ ؓ آپ ﷺ کو اپنے چچیرے بھائی ورقہ بون نوفل بن اسد بن عبدالعزیٰ کے پاس لے گئیں ورقہ دور جاہلیت میں عیسائی ہوئے تھے اور عبرانی میں لکھنا جاتنے تھے ۔ چناچہ عبرانی زبان میں حسب توفیق الٰہی انجیل لکھتے تھے اس وقت بہت بوڑھے اور نابینا ہوچکے تھے ان سے حضرت خدیجہ ؓ نے کہا بھائی جان ! آپ اپنے بھتیجے کی بات سنیں ورقہ نے کہا : بھتیجے ! تم کیا دیکھتے ہو ؟ رسول اللہ ﷺ نے جو کچھ دیکھا تھا بیان فرما دیا۔ اس پر ورقہ نے آپ ﷺ سے کہا : یہ تو وہی ناموس ہے جسے اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کیا تھا کاش میں اس وقت توانا ہوتا ، کاش میں اس وقت زندہ ہوتا جب آپ ﷺ کی قوم آپ ﷺ کو نکال دے گی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اچھا ! تو کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے ؟ ورقہ نے کہا ہاں ! جب بھی کوئی آدمی اس طرح کا پیغام لایا جیسا تم لائے ہو تو اس سے ضرور دشمنی کی گئی اور اگر میں نے تمہارا زمانہ پالیا تو تمہاری زبردست مدد کروں گا اس کے بعد ورقہ جلد ہی فوت ہوگئے اور وحی رک گئی۔ امام بخاری ؓ کی روایات کا وہ ترجمہ جو الرحیق کے مترجم نے کیا ہے وہ اوپر درج کیا گیا ہے۔ روایت نے کس صاف اور واضح الفاظ میں یہ بتایا کہ نبوت کا دیباچہ یہ تھا کہ خواب میں آپ ﷺ پر اسرار منکشف ہونے شروع ہوئے اور جو کچھ آپ ﷺ خواب میں دیکھتے تھے بعینیہ وہی پیش آتا تھا اور ایک دن وہ بھی آیا کہ جس چی نے آپ ﷺ کو تڑپا کر مکہ سے باہر نکالا اور دور جنٰگل میں لے گئی اور ایک ایسی تخلیہ کی جگہ پر لے جاکر بٹھا دیا جس جگہ کو آپ ﷺ چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے وہ چیز اللہ نے جبریل فرشتہ کے نام سے آپ ﷺ کے سامنے پیش کی اور آپ ﷺ کو اس غار کے اندر کچھ سے کچھ بناکر رکھ دیا اور ایسا سبق پڑھایا جو کبھی بھولنے والا نہ تھا اور پھر کیا ہوا ؟ یہی ہوا کہ جس طرح اس نے مکہ سے نکال کر جنگل میں پہنچایا تھا اسی طرح دوبارہ جنگل سے اٹھا کر مکہ میں لاکر ایک ایسے کام پر متعین کردیا جس کام میں آپ ﷺ باقی زندگی ایسے مصروف ہوئے کہ نہ اپنی کچھ خبر رہی اور نہ غیر کی اور جو کچھ باقی رہا وہ وہی کچھ تھا جو اس نے غار حرا کے اندر سپرد کیا گویا آپ ﷺ جب واپس گھر آئے تو جلال الٰہی سے لبریز تھے۔ آپ ﷺ نے جو دیکھا تھا وہ خواب نہ تھا تو آخر کیا تھا ؟ یہ بتایا نہیں جاسکتا تھا کیونکہ جو کچھ دیکھا تھا وہ آپ ﷺ کا مشاہدہ تھا اور ایسا مشاہدہ جو آپ ﷺ کسی کو کرا نہیں سکتے تھے ایسا راز جو حروف میں ، اشاروں میں ، مثالوں میں اور محاوروں میں بھی بتایا نہیں جاسکتا تھا کیونکہ بتانے کے یہ سارے طریقے اس کے لیے کارگر ہوسکتے ہیں جو ان کو سمجھنے کی استعداد رکھتا ہو۔ پھر آپ ﷺ نے خود بھی ابھی صرف اور صرف پہلی بار یہ سب کچھ مشاہدہ کیا تھا اور پہلی بار جس چیز کو پایا جائے اس کو آدمی بیان بھی کرے تو وہ یہی کہہ سکتا ہے کہ ” پالیا ، پالیا “ اور وہ اس وقت اپنی حالت سے بھی بالکل بیخبر ہوتا ہے اگر ” پالیا ، پالیا “ کی حقیقت آپ سمجھتے ہیں تو یقیناً آپ میرے اشارے کو سمجھ رہے ہوں گے پھر یہ ” پالیا ، پالیا “ دنیا کے بارے میں تھا جس کو مشاہدہ کرایا جاسکتا تھا اور یہ پالینے والے نے ایک ایسی چیز پائی تھی جس کا مشاہدہ ممکن ہی نہ تھا اس سے آپ ﷺ اس کی بےخودی کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ آپ ﷺ جب واپس گھر تشریف لائے تو اس وقت آپ ﷺ کی حالت پہلے سے بالکل مختلف تھی اور جو کچھ تھی اس کو من وعن الفاظ میں پیش نہیں کیا جاسکتا تھا کیونکہ وہ ایک کیتا تھی اور کیفیت کو وہی سمجھ سکتا ہ کے جو ایسی کیفیت سے دوچار ہوچکا ہو اور ظاہر ہے کہ اس جگہ کوئی صورت اس طرح کی ممکن ہی نہ تھی لہٰذا اس کیفیت کا بیان ان الفاظ میں کیا گیا کہ یرجف فوادہ ، آپ ﷺ کا دل کانپ رہا تھا ، آپ ﷺ پر لرزہ طارق تھا ، آپ ﷺ پر کپکی طاری تھی اگرچہ یہ موسم گرمی کا تھا اور بخار کے آثار بھی آپ ﷺ پر نظر نہ آتے تھے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا تو صرف یہ فرمایا کہ زملونی زملونی کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو ۔ چناچہ آپ ﷺ کے ارشاد کے مطابق آپ ﷺ کو کپاڑ اوڑھا دیا گیا ازیں بعد کتنا وقت گزرا واللہ اعلم معلوم یہی ہوتا ہے کہ جتنے وقت کے بعد آپ ﷺ کچھ بتانے کے قابل ہوئے اور اس کیفیت سے باہر آئے جو کیفیت آپ ﷺ پر طاری تھی جس کو روایت میں ” یرجف فوادہ “ سے تعبیر کیا گیا ہے اور پھر جس کی تفسیر ” حتی ذھب عنہ الروع “ کے الفاظ میں بیان کی گئی ہے۔ ازیں بعد آپ ﷺ نے وہ واقعہ جو آپ ﷺ پر گزرا تھا سیدہ خدیجہ ؓ کے سامنے بیان کیا اور وہ اس لیے کہ خدیجہ ؓ آپ ﷺ کی حالت کو دیکھ کر یقیناً گھبرائی ہوں گی اور استفسار بھی کیا ہوگا جس پر بتانا ضروری بھی تھا کیونکہ یہ وہ بات تھی جس کے متعلق حکمت کا تقاضا تھا کہ سب سے پہلے اس کو بتائی جائے جو سب سے زیادہ مونس اور غم خار ہو اور ظاہر ہے کہ آپ ﷺ کے لیے اس وقت تک سیدہ خدیجہ ؓ سے بڑھ کر کون مونس اور غم خوار ہوسکتا تھا جس نے تن من دھن سب کچھ آپ ﷺ پر قربان کردیا تھا اور جس کی اجازت سے آپ ﷺ نے دلی تڑپ کے لیے غار حرا میں دنیا ومافیہا سے الگ تھلگ ہو کر تدبرو تفکر کی راہ اختیار کرکے اپنے رب کریم کی تلاش پای تھی اور یہ وہی حقیقت تھی جس کے متعلق کہا گیا ہے کہ ع تو میرے پاس ہوتا ہے گویا جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا جو واقعہ آپ ﷺ پر گزرا تھا کیا وہ حیران کن نہیں تھا ؟ یقیناً تھا تو پھر اس کو سن کر سیدہ خدیجہ ؓ کو حیرانی نہ ہوئی ؟ یقیناً ہوئی ہوگی۔ پھر اس صورت حال میں سیدہ خدیجہ ؓ نے جو کیا وہ ایک فطری امر تھا اور وہ بالکل وہی تھا جو اس وقت کے ماحول کے موافق تھا کہ پہلے آپ ﷺ کو تسلی دی اور آپ ﷺ کے محاسن آپ ﷺ کے سامنے بیان کیے اسی طرح جو راز اس میں مخفی تھا کہ آپ ﷺ نے سب سے پہلے یہ بات سیدہ خدیجہ ؓ کے سامنے بیان کی اس راز کا مثبت نتیجہ آپ ﷺ کے سامنے آگیا۔ پھر سیدہ خدیجہ ؓ آپ ﷺ کو اپنے ہی خاندان کے ایک نہایت زیرک اور راہب آدمی کے پاس لے گئیں جو اس وقت کا نہایت ہی پاکباز اور بہت ہی خدا رسیدہ اور نیک سیرت آدی تھا جس کا نام ورقہ بن نوفل تھا اور عبرانی زبان جانتا تھا اور تورات و انجیل کا ماہر تھا اس نے جب آپ ﷺ کی بات سنی تو اپنے علم کے مطابق وہی باتیں آپ ﷺ کو بتائیں جو تورات و انجیل میں اس نے دیکھی تھیں یعنی آپ ﷺ کے متعلق جو پیش گوئیاں بیان کی گئی تھیں ان کے پیش نظر حقیقت کو آپ ﷺ کے سامنے رکھ دیا اور خصوصاً اس کی باتوں سے سیدہ خدیجہ ؓ کو وہ تقویت ملی جو تقویت کسی خاتون کو کسی دوسری جگہ یا کسی اور طرقیہ سے نہیں مل سکتی تھی اور اس طرح مشیت خدا وندی نے آپ ﷺ کی نبوت و سالت پر دل و جان سے ایمان لانے والا ساتھی عنایت کردیا جس سے زیادہ معاون و مددگار اور کوئی نہیں ہوسکتا تھا جو جان کا ساتھی ہونے کے ساتھ ساتھ دل کا ساتھی بھی بن گیا اور اس طرح وہ بات میسر آگئی ع تاکس نہ گوید من دیگرم تودیگری زیر نظر روایت میں جو الفاظ آئے ہیں کہ ” لقد خشیت علی نفسی “ یہ صرف اس کیفیت کا بیان ہے جو فرشتہ کے غطہ سے آپ ﷺ پر طاری ہوئی نہ کہ اس واقعہ سے آپ ﷺ کو کوئی ایسا ڈر یا خوف لاحق ہوا جو اس واقعہ کے گزر جانے کے بعد بھی آپ ﷺ کو ایک مدت تک لاحق رہا ہو ۔ حاش اللہ کہ ایسی کوئی بات کہی یا سمجھی جائے جیسی کہ سیرت نگاروں اور رطب ویابس اکٹھا کرنے والوں نے بیان کی ہے بلکہ اس فرشتہ کی آمد کے بعد آپ ﷺ کو اس کی ملاقات کا ایسا شوق پیدا ہوا کہ آپ ﷺ کا دل چاہتا تھا کہ یہ صورت حال جس سے میں غار حرا میں دوچار ہوا ہوں بار بار اس سے واسطہ پڑے اور ملاقات ہو اور پھر جب کھچ عرصہ کے لیے قدرت الٰہی نے اس کو روک دیا تاکہ شوق و ذوق مزید بڑھ جائے تو آپ ﷺ کو اس شدت کا انتظار رہا کہ اس انتظار نے آپ ﷺ کو کیء بار پریشان کیا گویا رات کی نیند کو بھی حرام کردیا ادھر آنکھ لگی اور ادھر یہ کیفیت طاری ہوئی اور جب آنکھ کھلی تو کچھ نہ دیکھ کر پریشانی مزید بڑھ گئی اور پھر جونہی آنکھ لگی کہ وہی صورت شروع ہوگئی۔ نبی اعظم و آخر ﷺ کو غار حرا والے فرشتہ کی ملاقات کا شوق جن بزرگوں اور بھائیوں نے رسول اللہ ﷺ کی ملاقات اول کے بعد ڈر ، خوف اور جان کے خطرہ کا ذکر کیا ہے لاریب انہوں نے حقیقت کے سمجھنے میں غلطی کی ہے اور پھر وہی غلطی دہرائی چلی آئی ہے جس چیز کو انہوں نے ڈر ، خوف اور خطرہ جان سے تعبیر کیا ہے وہ حقیقت میں ایک بار ملاقات کے بعد باربار ملاقات کے شوق کا بیان تھا اور جو کچھ آپ ﷺ بیان کرتے وہ آپ ﷺ کے خوابات تھے لیکن جس چیز کے آپ ﷺ مشتاق تھے وہ خواب سے آگے بڑھ کر غار حرا والے مشاہدہ کا شوق تھا جو روز بروز بڑھ رہا تھا یکن مشاہدہ میں وہ چیز آ نہیں رہی تھی مثلاً بخاری شریف میں ہے کہ پہلی وحی کے بعد جب کچھ دیر کے لیے یہ سلسلہ رک گیا تو میں ایک رات میں چل رہا تھا کہ راستے میں میں نے اس طرح کی آواز سنی جس طرح غارحرا میں سنی تھی میں نے آسمان کی طرف دیکھا تو وہی فرشتہ آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر تشریف رکھتا ہے یہ مشاہدہ پہلے مشاہدہ کے بالکل مختلف تھا کیونکہ غار حرا کا قرب اور راستے کا یہ بعد اور پھر زمین و آسمان کے درمیان میں اس کا معلق ہونا یہ ساری باتیں پہلے سے بالکل مختلف تھیں گویا جو شوق وصل تھا وہ پورا نہ ہوا لیکن میرا جسم اسی طرح کانپنے لگا تو میں واپس گھر آیا اور سیدہ خدیجہ ؓ سے وہ بات زملونی زملونی والی دہرائی ، مجھے کپڑا اوڑھا دیا گیا تو اسی وقت بغیر وصال کے وحی الٰہی کا نزول ہوا تو اللہ تعالیٰ نے سورة المدثر کی ابتدائی آیات (یایھا المدثر) سے (والرجز فاھجر) تک نازل کیں۔ (بخاری کتاب التفسیر باب اقرا باسم ربک) اس جگہ پہلی حدیث جو سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے وہ دوسری روایت جابر بن عبداللہ الانصاری والی روایت سے ملادی گئی ہے اس طرح گویا گزشتہ واقعہ کو پہلے واقعہ سے ملاکر بیان کردیا گیا ہے اور مختلف واقعات کو جب اکٹھا بیان کیا جاتا ہی تو اس وقت جو صورت حال پیدا ہوتی ہے ظاہر ہے کہ وہ اس میں بھی ہوئی ہے۔ اس جگہ اگر کوئی صاحب سورة المدثر کی شروع آیات کا واقعہ سورة المدثر کے ضمن میں دیکھیں گے تو ہماری بات کی خودبخود تصدیق ہوجائے گی پھر اس کے ساتھ اس سلسلہ کی احادیث دوسری کتب سے دیکھی جائیں تو مزید وضاحت مل جائے گی۔ ہم صرف اشارہ دے رہے ہیں بحث کا یہ موقع نہیں۔ نبی اعظم و آخر ﷺ پر آغاز وحی کا مہینہ ، دن اور تاریخ مورخین اور سیرت نگاروں میں بہت اختلاف ہے کہ نبی کریم ﷺ کس مہینے میں شرف نبوت اور اعزاز وحی سے سرفراز ہوئے۔ اکثر کا خیال ہ کے کہ یہ ربیع الاول کا مہینہ تھا لیکن بعض کا خیال ہے کہ یہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا اور بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ رجب کا مہینہ تھا۔ وضاحت دیکھنا ہو توم ختصر السیرۃ شیخ عبداللہ ص 75 دیکھیں۔ ہمارے نزدیک دوسرا قول زیادہ صحیح ہے کہ یہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا کیونکہ ارشاد الٰہی ہے کہ : ( شہر رمضان الذی انزل فیہ القران) (158:3) ” رمضان کے مہینہ میں قرآن کریم نازل کیا گیا “ اور یہ بھی ارشاد ہے کہ : ( انا انزلنہ فی لیلۃ القدر) (1:97) ” ہم نے قرآن کریم کو لیلۃ القدر میں نازل کیا۔ “ اور معلوم ہے کہ لیلۃ القدر رمضان میں ہے اور یہی لیلۃ القدر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں بھی مراد ہے کہ (انا انزلنہ فی لیلۃ مبرکۃ انا کنا منذرین) ( 3:44) ” ہم نے قرآن کریم کو ایک بابرکت رات میں اتارا ہم لوگوں کو عذاب کے خطرے سے آگاہ کرنے والے ہیں۔ “ ذرا غور کرو گے تو معلوم ہوجائے گا کہ دوسرے قول کی ترجیح کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ غار حرا میں رسول اللہ ﷺ کا قیام ماہ رمضان میں ہو کرتا تھا اور معلوم ہے کہ حضرت جبریل (علیہ السلام) غار حرا ہی میں تشریف لائے تھے۔ جو لوگ رمضان میں نزول وحی کے آغاز کے قائل ہیں ان میں پھر اختلاف ہے کہ اس دن رمضان کی کونسی تاریخ تھی بعض سات کہتے ہیں ، بعض سترہ اور بعض اٹھارہ (دیکھئے مختصر السیرۃ ص 75 رحمتہ للعالمین 49 1) علامہ خضری کا اصرار ہے کہ یہ سترھویں تاریخ تھی۔ دیکھے (خضری 29/1 اور تاریخ التشریع الاسلامی ص 5 تا 7) لیکن ہمارے نزدیک یہ 21 تاریخ تھی اور ہم نے 21 تاریخ کو اس بنا پر ترجیح دی ہے … حالانکہ ہمیں اس کا کوئی قائل نظر نہیں آیا… کہ بیشتر سیرت نگاروں کا اتفاق ہے کہ آپ ﷺ کی بعثت دو شنبہ کے روز ہوئی تھی اور اس کی تائید ابو قتادہ ؓ کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے دو شنبہ کے دن روزے کی بابت دریافت کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ وہ دن ہ کے جس میں میں پیدا ہوا اور جس میں مجھے پیغمبر بنایا گیا جس میں مجھ پر وحی نازل کی گئی۔ ( صحیح مسلم 368/1 مسند احمد 297/5 ، 299 ، بیہقی 288/4 ، 300 ، حاکم 6 , 2/2… اور اس سال رمضان میں دو شنبہ کا دن 21 , 14 , 7 اور 28 تاریخوں کو پڑا تھا۔ ادھر صحیح روایات سے یہ بات ثابت اور معین ہے کہ لیلتہ القدر رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں پڑتی ہے اور ان ہی طاق راتوں میں منتقل بھی ہوتی رہتی ہے اب ہما یک طرف اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد دیکھتے ہیں کہ ہم نے قرآن مجید کو لیلۃ القدر میں نازل کیا ، دوسری طرف ابوقتادہ ؓ کی یہ روایت دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو دو شنبہ کے روز مبعوث فرمایا گیا ، تیسری طرف تقویم کا حساب دیکھتے ہیں کہ اس سال رمضان میں دو شنبہ کا دن کن کن تاریخوں میں پڑا تھا تو متعین ہوجاتا ہے کہ نبی ﷺ کی بعثت اکیسویں رمضان کی رات میں ہوئی اس لیے یہی نزول وحی کی پہلی تاریخ ہے۔ نبی اعظم و آخر ﷺ کی پہلی وحی کے بعد فترہ کے زمانہ کی حالت جیسا کہ پیچھے ذکر کیا گیا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کی فرشتہ سے غار حرا میں پہلی ملاقات ہوئی تو اس کے بعد آپ ﷺ کی آنکھوں میں وہ منظر اسی طرح بدستور قائمرہا شوق وصال شدت اختیار کرتا گیا اور فصل ملاقات روز بروز بڑھتی چلی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب بھی آپ ﷺ سوتے تو سونے کی حالت میں وہ منظر نظر آتا اور آنکھ کھلتی تو کوئی چیز موجود نہ پاتے جس سے شدت وصال میں مزید اضافہ ہوتا۔ پھر آپ ﷺ سوتے تو نظر آتا کہ میں کسی راستے ، کسی پہاڑ پر چڑھ رہا ہوں اور جی چاہتا ہے کہ اگر وصل نہ ہو تو اس پہاڑ کی چوٹی سے اپنے آپ کو نیچے گرا دوں اور اس طرح خواب ہی میں آپ ﷺ پہاڑ پر چڑھتے اور جب پہاڑ سے چھلانگ لگانے لگتے تو وہ فرشتہ نظر آتا اور کہتا کہ میں جبریل ہوں اور آپ محمد ﷺ اللہ کے نبی و رسول ہیں۔ اسی وقت آپ رک جاتے اور قلب تسکین پا جاتا لیکن جب نیند کھلتی تو وہی بےقراری شروع ہوجاتی ظاہر ہے کہ جب تک وصال نہ ہوا آپ ﷺ کی اس حالت میں روز افزوں اضافہ ہونا ایک فطری چیز تھی اور وہ ہوتا گیا۔ ان خوابات کو امام بخاری (رح) نے کتاب الرویا میں بیان کیا لیکن ہمارے بزرگوں ، دوستوں اور بھائیوں نے ان خوابات کو حقیت پر محمول کرکے اس طرح بیان کیا گویا اس طرح کی حالت آپ ﷺ نے جاگتے میں خوف و ہراس کے باعث اختیار کی اور آپ ﷺ کو جان کا خطر محسوس ہوتا تھا لیکن ہم اس پر انا للہ وانا الیہ راجعون ہی کہہ سکتے ہیں کہ حقیقت کیا تھی اور اس کو کیا بنا دیا گیا۔ شوق وصل نے جو بےقراری آپ ﷺ کو دی تھی جو فطری بات تھی اس کو بیان کرتے کرتے سیرت نگار کہاں سے کہاں نکل گئے اور آپ ﷺ کی اس بےقراری کو کس بات پر محمول کردیا کہ آپ ﷺ کو اپنے نبی و رسول ہونے پر یقین نہیں آتا تھا۔ طبیعت میں ڈر اور خوف رہتا تھا۔ آپ ﷺ زندہ نہیں رہنا چاہتے تھے ورقہ کی یقین دہانی سے آپ ﷺ کو یقین آیا لیکن ورقہ کی جلد ہی وفات ہوگئی تو آپ ﷺ پر وہی خطرات چھا گئے تف ہے مجھ پر اگر میں کوئی ایسی بات سمجھوں یا کہوں اور ایک شوق وصل کو کسی ایسی بات پر محمول کروں لاریب میں اپنے ان بزرگوں کا احترام کرتا ہوں اور اللہ گواہ ہے کہ میں اپنے آپ کے ان کے پا کے برابر بھی نہیں سمجھتا ، میری کوئی پوزیشن اور ہستی ان کے سامنے نہیں ہے لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ میں ان سے کسی ایک کی اندھی تقلید کروں اور خصوصاً نبی اعظم و آخر ﷺ کے مقابلہ میں کسی کو لے آئوں اور آپ ﷺ کا مقام ان میں سے کسی کو دے دوں یہ نہیں ہو سکتا اور یہ بھی کہ اس کو احترام نہیں کہتے بلکہ افراط سے تعبیر کرتے ہیں اور افراط کا جو نتیجہ نکلتا ہے ذی علم حضرات سے وہ مخفی نہیں ہے نبی اور رسول اور پھر اس کو اپنی نبوت و رسالت میں شک ہو صرف ناممکن ہی نہیں بلکہ محال ہے۔ پھر خصوصاً نبی اعظم و آخر محمد رسول اللہ ﷺ کو ، مجھے تو اس سے بھی شرم آتی ہے کہ میں ان بزرگوں کے ذمہ کوئی ایسی بات لگائوں کہ انہوں نے ایسا کہا بلکہ میرا شعور تو یہ کہتا ہے کہ شاید ان کے ذمہ ایسی بات لگائی گئی یعنی ان کی طرف غلط منسوب کیگئی۔ نبی اعظم وآخر ﷺ کے مقام اور امام طبری اور امام ابن ہشام (رح) کی وضاحت امام طبری اور امام ابن ہشام (رح) نبی اعظم و آخر ﷺ کے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے جو کچھ تحریر کرتے ہیں اس کا ملخص اس طرح ہے کہ ” رسول اللہ ﷺ نے وحی کی آمد کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں شاعر اور پاگل سے بڑھ کر میرے نزدیک کوئی قابل نفرت نہ تھا۔ (میں شدت نفرت سے) ان کی طرف دیکھنے کی تاب نہ رکھتا تھا۔ (اب جو وحی آئی تو) میں نے (اپنے جی میں ) کہا کہ یہ ناکارہ … یعنی خود آپ ﷺ … شاعر یا پاگل ہے ! میرے بارے میں قریش ایسی بات کبھی نہ کہہ سکیں گے۔ میں پہاڑ کی چوٹی پر جارہا ہوں وہاں سے اپنے آپ کو نیچے لڑھکا دوں گا اور اپنا خاتمہ کرلوں گا اور ہمیشہ کیلئے راحت پا جائوں گا۔ آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ میں یہی سوچ کر نکلا جب بیچ پہاڑ پر پہنچا تو آسمان سے ایک آواز سنائی دی ! اے محمد ! ﷺ تم اللہ کے رسول ہو اور میں جبریل ہوں ۔ آپ ﷺ کہتے ہیں کہ میں نے آسمان کی طرف اپنا سرا ٹھایا دیکھا تو جبریل ایک آدمی کی شکل میں افق کے اندر پائوں جمائے کھڑے ہیں اور کہہ رہے ہیں : اے محمد ! ﷺ تم اللہ کے رسول ہو اور میں جبریل ہوں ، آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ میں وہیں ٹھہر کر جبریل کو دیکھنے لگا اور اس شغل نے مجھے میرے ارادے سے غافل کردیا۔ اب میں نہ آگے جارہا تھا نہ پیچھے۔ البتہ اپنا چہرہ آسمان کے افق میں گھما رہا تھا اور اس کے جس گوشے پر بھی میری نظر پڑتی تھی جبریل اسی طرف دکھائی دیتے تھے میں مسلسل کھڑا رہا نہ آگے بڑھ رہا تھا نہ پیچھے یہاں تک کہ خدیجہ ؓ نے میری تلاش میں اپنے قاصد بھیجے اور وہ مکہ تک جاکر پلٹ آئے لیکن میں اپنی جگہ کھڑا رہا پھر جبریل چلے گئے اور میں بھی اپنے اہل خانہ کی طرف پلٹ آیا اور خدیجہ ؓ کے پاس پہنچ کر ان کی ران کے پاس انہیں پر ٹیک لگاکر بیٹھ گیا۔ انہوں نے کہا ، ابو القاسم ! آپ ﷺ کہاں تھے ؟ بخدا ! میں نے آپ ﷺ کی تلاش میں آدمی بھیجے اور وہ مکہ تک جاکر واپس آگئے (اس کے جواب میں ) میں نے جو کچھ دیکھا تھا انہیں بتا دیا۔ انہوں نے کہا : چچا کے بیٹے ! آپ ﷺ خوش ہوجائیے اور آپ ﷺ ثابت قدم رہیے۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے ، میں امید کرتی ہوں کہ آپ ﷺ اس امت کے نبی ہوں گے۔ اس کے بعد وہ ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں۔ انہیں ماجرا سنایا۔ انہوں نے کہا قدوس ، قدوس اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں ورقہ کی جان ہے ، ان کے پاس وہی ناموس اکبر آیا ہ کے جو موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا کرتا تھا ، یہ امت کے نبی ہیں ان سے کہو ثابت قدم رہیں۔ اس کے بعد حضرت خدیجہ ؓ نے واپس آکر آپ ﷺ کو ورقہ کی بات بتائی پھر جب رسول اللہ ﷺ نے حرا میں اپنا قیام پورا کیا اور (مکہ) تشریف لائے تو آپ ﷺ سے ورقہ نے ملاقات کی اور آپ ﷺ کی زبانی تفصیلات سن کر کہا ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے آپ ﷺ اس امت کے نبی ہیں۔ آپ ﷺ کے پاس وہی ناموس اکبر آیا ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا تھا۔ “ میں ایک ناکارہ اور گناہ گار آدمی ہوں لیکن اس کے باوجود اس تحریر کو تحریر کرتے وقت میرے ہاتھوں میں رعشہ اور میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا ، میں نے دو دن تک کام بند رکھا جب میں قلم پکڑتا تو میرا دل دھک دھک کرنے لگتا اور پھر قلم رکھ دیتا۔ طبری ج 2 ص 207 اور ابن ہشام جلد اول ص 238 , 237 کی عبارت کو ایک دو بار نہیں بلکہ زیادہ بار میں نے پڑھا۔ میرے دل نے انشراح پایا کہ میں اس کی تصدیق نہیں کرسکتا دو روز کے بعد جب میں نے قلم پکڑا تو میرا دل مطمئن تھا کہ جس معاملہ میں میرے دل کو انشراح ہوا اس کو تحریر کردوں اور نتیجہ قارئین پرچ ھوڑ دوں تو میں نے یہی کیا۔ ان دونوں بزرگوں کا میں احترام کرتا ہوں اگرچہ ان دونوں ہی بزرگوں کے متعلق لوگوں نے بہت کچھ برا بھلا کہا بھی ہے لیکن میں نے کم از کم برا کہنے والوں کا کبھی ساتھ نہیں دیا بلکہ ہر مقام پر میں نے ان کا احترام کیا ہے لکن کی جگہ بھی بحمداللہ میں نے ان کے احترام میں افراط یا تفریط سے کا من ہیں لیا اور یہی موقف اس جگہ بھی اختیار کیا ہے تاہم جس بات پر مجھے تعجب ہے میں اس کی طرف اشارہ کیے بغیر نہیں گزر سکتا۔ میری سمجھ میں یہ بالکل نہیں آیا کہ جو بزرگ ان باتوں کو اس سے قبل مان چکے اور تحریر کرچکے ہیں کہ ” نبی اعظم وآخر ﷺ نبوت سے قبل سفر شام میں بصرہ کے ایک مقام پر جس درخت کے نیچے تشریف فرما تھے اس کی تمام شاخیں آپ ﷺ پر جھک آئیں جس سے بحیرا نے آپ ﷺ کے نبی ہونے کا یقین کیا۔ “ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ” نبوت سے پہلے جب میں کسی طرف سے گزرتا تو درخت میرے لیے سجدہ ریز ہوجاتے تھے “ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ” نبوت سے قبل جو پتھر مجھے سلام کرتا تھا میں اس کو پہچانتا ہوں “ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ” نبوت سے قبل فرشتوں نے یکے بعد دیگرے دو بار میرا سینہ چاک کیا اور میرے دل کو باہر نکال کر صاف کیا اور ایمان سے بھر کر میرے سینہ میں رکھا اور اس کو سی دیا اور اس کے نشانات آج تک موجود ہیں “ ان بزرگوں نے یہ کیسے لکھ دیا کہ آپ ﷺ نے جب فرشتہ کو دیکھا تو اتنے ڈرے اور اتنے خوفزدہ ہوئے کہ اپنی زندگی پر موت کو ترجیح دیتے ہوئے پہاڑ کی چوٹی پرچ ڑھ کر وہاں سے چھلانگ لگانے کا آپ ﷺ نے کئی بار قصد کیا اور عین اس وقت جب آپ ﷺ ایسا کرنے لگے تو فرشتہ جبریل نے ظاہر ہو کر آپ ﷺ کو تسلی دی تب آپ ﷺ اس حرکت سے رکے۔ کیا یہ باتیں آپس میں متضاد نہیں ہیں ؟ کیا کسی اور نبی و رسول کو بھی ایسا شک ہوا جس کی نسبت آپ ﷺ جیسے خاتم النبین رسول کی طرف کی گئی ؟ انہیں باتوں کے پیش نظر میں جس نتیجہ پر پہنچا اس کو آپ لوگوں کے سامنے پیش کردیا ” آپ نے فرمایا “ کے تحت جن واقعات کی طرف اوپر میں نے اشارہ کیا ہے وہ اکثر کتاب الرویا ہی کے متعلق ہیں تاہم ان بزرگوں نے ان کو مشاہدہ پر محمول کیا ہے اور میں نے انہی کے مطابق ان کو مخاطب کرکے بات کی ہے۔ نبی اعظم وآخر ﷺ کی نبوت و رسالت کے پہلے تین سال جس زمانہ کو فترۃ کے زمانہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہی اس کی مدت کتنی تھی ؟ 15 دن سے لے کر تین سال تک کی روایات بیان کی گئی ہیں لیکن ان ساری روایات کو جمع کرنے اور غور و فکر کرنے کے بعد ہم جس نتیجہ پر پہنچے ہیں وہ یہ ہے کہ نبوت و رسالت کے پہلے تین سالوں میں جبریل (علیہ السلام) کے وحی لانے کا وقفہ زیادہ ہوتا تھا لیکن زیادہ مدت یہ انقطاع نہیں رہتا تھا اور نہ ہی آپ ﷺ کو روز اول سے آخر تک کبھی اپنی نبوت و رسالت پر شک رہا اور نہ ہی کسی طرح کا ڈر ، خوف اور غم آپ ﷺ کو لاحق ہوا۔ محض وقفہ زیادہ ہونے کے باعث جو شوق وصال کی حالت میں بےچینی ہوتی ہے وہ یقیناً ہوئی خواہ اس کی مدت کتنی ہوئی۔ اس سلسلہ میں آپ ﷺ نے ایک بار جبریل (علیہ السلام) سے پوچھا بھی کہ آپ جلدی جلدی تشریف کیوں نہیں لاتے ؟ تو انہوں نے عرض کی میں اپنی مرضی سے تو نہیں آتا اور نہ ہی آسکتا ہوں جب اللہ کی طرف سے حکم ملتا ہے تو حاضر ہوجاتا ہوں اور یہ آمدورفت میرے اختیار میں نہیں ہے اور نہ ہی ہم فرشتے اختیار رکھتے ہیں اور ظارہ ہے کہ قوت و طاقت فی نفسہ خواہ کتین ہی بڑی کیوں نہ ہو خودبخود استعمال نہیں ہوتی جب تک کوئی اس کو استعمال کرنے والا نہ ہو اور پھر یہ بھی کہ جس کے پاس اختیار و ارادہ ہو اور وہ اس کے ساتھ عزم و جزم بھی رکھتا ہو وہ مکلف ہوتا ہے اور فرشتے مکلف نہیں ہیں۔ مختصر یہ کہ آپ ﷺ کی نبوت و رسالت کے پہلے تین سال میں وحی الٰہی کی آمد کا وقفہ زیادہ رہا اور جب جبریل آتے آپ ﷺ کی تسلی اور شوق وصل ہی کے طور پر آتے اور جو احکام لاتے وہ بھی آپ ﷺ کے لیے اکثر مخصوص ہوتے اور جذبہ شوق کو بڑھاتے اور عزم و جزم میں اضافہ کا باعث بنتے اور اس کے علاوہ جو کچھ ہوتا وہ مکہ والوں کے رسم و راج اور غیر اللہ کیلئے اللہ تعالیٰ والی محبت کی حرمت پر مبنی ہوتے اور بار باریہ سبق یاد کرایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الٰہ اور معبود نہیں ہے اور پوری کائنات کا خالق ومالک اور پورے انتظام کا چلانے والا بھی صرف اور صرف وہی ہے گویا توحید الٰہی اور اس کے نشانات کی طرف توجہ دلائی جاتی اور آپ ﷺ کی ذات اقدس کے لیے مجاہدہ و ریاضت کا صحیح رخ آپ ﷺ کے سامنے بیان کیا جاتا۔ آپ نبی اعظم وآخر ﷺ کی نبوت و رسالت کے ان پہلے تین سالوں کی سورتوں کو جمع کرلیں اور ان کا مطالعہ کریں تو آپ پر ساری بات واضح ہوجائے گی ہم اس جگہ اس اشارہ کے سوا زیادہ کے سوا زیادہ وضاحت نہیں کرسکتے اور جو کچھ ان سورتوں میں آپ کو ملے گا اس کا ملخص اس طرح پیش کیا جاسکتا ہے کہ آپ ﷺ کو نبوت و رسالت کے مقاصد سمجھائے گئے اور اصول بتائے گئے جو مندرجہ ذیل تھے : (1) نافرمانوں کو ان کی خطرناک حالت سے آگاہ کرنا اور ان کو انجام سے ڈرانا۔ (2) اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور کبریائی اور عظمت و جلال کا آشکارا کرنا۔ (3) لوگوں کو اعتقاد اور اعمال اور اخلاق کی ظاہری اور باطنی نجاستوں سے پاک کرنا۔ (4) پاکیزگی ، صفائی اور پاک دامنی سکھانا۔ (5) رب ذوالجلال والا کرام کی دی ہوئی تعلیم لوگوں کو بالکل مفت دینا ، نہ ان پر احسان جتانا اور نہ ہی ان سے اپنے کسی ذاتی فائدے کی توقع رکھنا اور نہ ہی اپنے احترام کی خود خواہش کرنا۔ (6) اس کام میں جس قدر بھی مصائب اور شدائد کا سامنا کرنا پڑے ان سب کو بخوشی برداشت کرنا۔ جو شخص بھی نبی اعظم و آخر ﷺ کی پاک سیرت کا مطالعہ کرے گا اور آپ ﷺ کی زندگی کے حالات پڑھے گا اسے معلوم ہوجائے گا کہ آپ ﷺ نے کس خوبی سے ان مقاصد کو پورا کیا اور پھر جو شخص بھی دعوت الٰہی کا کا ما پنے ذمہ لے اگر وہ ان چیزوں کا اور ان مقاصد کا خیال نہ رکھے تو اس کی تعلیم کو دعوت الٰہی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ جب وہ مقصد ہی فوت ہوگیا جو اس تعلیم کا تھا تو باقی کیا رہ گیا ؟ اپنے سارے ماحول میں دعوت الٰہی کے ان مقاصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے سارے مکاتب فکر کا تجزیہ کرکے خوددیکھ لیں اور اگر آپ کا دل زخمی ہوجائے تو اس کو مبارک سمجھیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو۔ آپ کس کو صحیح اور کس کو غلط کہیں گے ؟ اپنے دل سے پوچھ لیں ، اگر دل کی دھڑکن تیز ہوجائے تو اس کو ایمان کا تقاضا سمجھیں اور اگر دل گواہی دے رہا ہو کہ یہ سب کاروبار ہے تو یقین جانیں کہ آپ کے دل میں ایمان کا پودا لگ چکا ہے اس کی آبیاری کریں اور اللہ تعالیٰ سے اس کے بار آور ہونے کی دعا کرتے رہیں اور اس دعا میں اپنے خادم محمد عبدالکریم اثری کو بھی یاد رکھیں اس کو یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری دعائوں کو قبول کرتے ہوئے اس کے گناہوں سے درگزر فرمائے گا اور ویسے بھی جو دعا کی درخواست کرے اس کے لیے اس کی عدم موجودگی میں دعا کرنا دعا کرنے والے کے حق میں بھی مفید ہوتا ہے۔ نبی اعظم و آخر ﷺ کی نبوت و رسالت سے قبل دنیا کی حالت کا جائزہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے قبل پوری دنیا کی جو حالت تھی اور جس طرح جہالت کی تاریکی چھائی ہوئی تھی اور جس طرح وحشت و درندگی کا تسلط تھا ، انسانیت اور تہذیب و اخلاق کا جس طرح جنازہ نکل چکا تھا اس کا نقشہ قاضی پیر سید سلیمان منصور پوری (رح) کی زبان میں سن لیں اور اوپر جو تبلیغ دین کے مقاصد بیان کیے گئے ان کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ ﷺ کی تبلیغ دین کے اثرات کا جائزہ خود لگالیں کہ آپ ﷺ کے لائے ہوئے دین اسلام کا اثر دنیا پر کیا پڑا ؟ اور اس بات کا خیال رکھیں کہ آپ ﷺ کافۃ للناس کے لیے رسول بناکر بھیجے گئے ہیں کسی ایک قوم ، بستی اور علاقہ کے لیے نہیں اور یہی وہ چیز ہے جو آپ ﷺ کو دوسرے نبیوں اور رسولوں پر ایک نہیں بلکہ بہت سی فضیلتیں بخشتی ہے۔ (1) قوم بنی اسرائیل دنیا کی بہت بڑی قوموں میں تھی اور ان کی حالت مسیح (علیہ السلام) سے بھی بہت پہلے سے سانپ اور سانپ کے بچے کہلانے کی مستحق ہوچکی تھی اور اب مسیح (علیہ السلام) کی مخالفت سے جس لعنت کے وہ مستحق ٹھہرے اس کے باعث ظاہری شکل و صورت کے سوا ان میں آدمیت کا ذرا بھی نشان باقی نہ رہا تھا اور ہمسایہ قوموں کے اثر سے ان میں بت پرستی ، گائو پرستی ، ستارہ پرستی اور مناظر پرستی کا دور دورہ تھا۔ (2) انگلستان میں برٹن اور سیکسن وحشتی قومیں آباد تھیں۔ (3) نار تھمبر لینڈ ، مڈ لینڈ ، کون ٹیز ، نارفوک ، موفوک ، سیکس جو انگلینڈ کے اضلاع ہیں ان میں وارڈن بت کی پرستش ہوتی تھی۔ (4) فرانس ، برن ہلڈ ، سگ برٹ ، فرے دی ، گوئن دی ، مل ہیرک وغیرہ میں پادریوں کے ایما پر بہت سی بیہودگیاں روا رکھی جاتی تھیں۔ (5) فرانس ہمیشہ سیکسن قوم سے دریائے الب پر معرکہ آرا رہتا تھا اور یہ لڑائی 782 ء تک جاری رہی اور ساڑھے چار ہزار سیکسن قیدی نہایت بےرحمی سے شہر ورڈن میں ہلاک کیے گئے ہنگی ان دنوں انتہا درجہ کی وحشی و ناشائستہ اور آوارہ قوم کے ہاتھوں میں تھا جس کو وحشیانہ اور ظالمانہ وسائل سے اپنے مذہب میں لایا گیا تھا۔ (سول اینڈ ملٹری گزٹ 12 اکتوبر 1907 ء ایڈیٹوریل نوٹ) (6) ایران پر مشروکیہ کا زرو تھا جنہوں نے زن ، زر اور زمین کے وقف عام کردینے سے اخلاق اور انسانی ترقیات کو ملیا میٹ کردیا تھا۔ (7) ہندوستان میں پرانوں کا زمانہ شروع ہوگیا تھا اور بام سارگی فرقہ قابو یافتہ تھا وہ اپنے گندے اصولوں کی طرف بندگان خدا کی راہبری کرتے تھے ، مندروں میں زن و مرد کی برہنگی کی تمثالیں بنا کر رکھی جاتی تھیں اور انہی کی پرستش کی جاتی تھی عبادت خانوں کے در و دیوار پر ایسی سراپا فحش تصویریں کندہ کی جاتی تھیں جن کے صور سے ایک مہذب شخص کو نفرت آنی چاہیے۔ (8) چین کے باشندوں نے اپنے ملک کو آسمانی فرزند کی بادشاہت سمجھ کر خدا سے منہ موڑ لیا تھا ہر کام کے بت جدا جدا مقرر تھے کوئی بارش کا ، کوئی اولاد کا ، کوئی جنگ کا ، کوئی امن کا۔ کنفیوشس کو چین کا مصلح سمجھا جاتا ہے لیکن اس وقت تک اس کا بھی ظہور نہیں ہوا تھا۔ (9) مصر میں عیسائیت زوروں پر تھی مسیح (علیہ السلام) کی شخصیت اور انبیت کی تعریف و تحدید ، تو حد و تفریق کے متعلق روز روز نئے نئے اعتقادات پیدا ہوتے۔ نئے نئے فرقے بنتے تھے ایک فرقہ دوسرے کی تکفیر کرتا تھا یہاں تک کہ اپنے مخالفت کو قتل کرنے اور آگ میں جلانے سے بھی دریغ نہ کرتا تھا۔ یہ مختصر حالت تو ان ممالک کی تھی جو زبردست حکومتوں اور شریعتوں کے زیر اثر تھے اور جن میں سے ہر ایک کو بجائے خود علم اور تہذیب کے بڑے بڑے دعوے تھے۔ (10) عرب کا قیاس انہی ممالک پر کرلیجئے اور قیاس کرتے ہوئے یہ بھی ملحوظ رکھیے کہ یہ ایسا ملک تھا جہاں صدیوں سے نہ کسی بادشاہ کا تسلط ہوا تھا نہ کوئی قانون تھا ، نہ کوئی ہادی ان کی ہدایت کے لیے پہنچا تھا۔ اس حیوانی آزادی پر بےعلمی ، جہالت اور اقوام متمدنہ سے علیحدگی اور اجنبیت نے ان کی حالت کو اور بھی زیادہ تباہ کردیا تھا۔ نبی اعظم وآخر ﷺ کے اپنے خاندان قریش کی حالت اوپر جو کچھ سید صاحب (رح) کے الفاظ میں عرض کیا گیا وہ تو پوری دنیا کی حالت کا ایک سرسری جائزہ تھا جس میں مکہ والوں کا جائزہ بھی آگیا لیکن آپ ﷺ کے خاندان قریش کی حالت اس وقت کیا تھی اس کو سمجھ لینا بھی فائدہ سے خالی نہ ہوگا۔ اس سلسلہ میں جان لینا چاہیے کہ مکہ کے سارے خاندانوں میں سب سے زیادہ کوئی معزز خاندان تھا تو وہ قریش تھے جو پورے عرب میں اپنے آپ کو سب سے بڑا سمجھتے تھے اور سب سے بڑی یہی تھی کہ ان لوگوں کو نبی اعظم و آخر ﷺ کی باتیں پسند نہ آئیں۔ اس کی وجوہات کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے : (1) وہ نبوت و رسالت کا مفہوم سمجھنے سے قاصر تھے اور اس بات کو بہت بعید سمجھتے تھے کہ اللہ کریم کے حکم سے کوئی انسان ، انسانوں کو سمجھانے کے لیے آئے چونکہ وہ دیکھ رہے تھے کہ محمد ﷺ ہم ہی میں سے ایک انسان ہیں اس طرح انہوں نے آپ ﷺ کی نبوت و رسالت کا انکار کردیا۔ (2) و اعمال کی جزا و سزا کے قائل نہ تھے اس لیے آپ ﷺ کی یہ تعلیم کہ موت کے بعد اعمال کی پرسش ہوگی ان کے لیے حیران کن تھی آپ ﷺ کی ہر بات ان کے نزدیک ایک ہزیان تھا اس لیے وہ آپ ﷺ کا تمسخر اڑاتے تھے اور آپ ﷺ پر طرح طرح کے الزامات لگاتے تھے کہ مجنون ہے ، شاعر ہے ، ساحر ہے ، سحر زدہ ہے ، ہمارے بزرگوں کی اس کو مار لگ گئی ہے ، اس پر سیاہ ہے اور اسی طرح یہ کہ کسی جن نے اس پر قابو پالیا ہے۔ (3) وہ اپنے خاندان اور اپنے بزرگوں کے شرف وعزت پر بہت مغرور تھے ، انہیں اسلامی مساوات اور اسلامی اخوت کا قبول کرنا ایک قسم کی حقارت اور ذلت محسوس ہوتی تھی اور وہ غریبوں ، مسکینوں اور ناداروں کے ساتھ مل بیٹھنے کے لیے کبھی تیار نہ تھے کیونکہ اپنے وقت کے وہ پیر تھے۔ (4) قریش مکہ کے اکثر قبائل بنو ہاشم سے مخالفت رکھتے تھے اور اس دشمن قبیلہ کے ایک فرد کی تعلیم پر چلنے میں انہیں عار معلوم ہوتی تھی کہ بنو ہاشم کا ایک آدمی کھڑا ہو کر ہم کو دعوت دے تو ہمارے کا ناس کو سن ہی نہیں سکتے اور ہماری آنکھیں اس کو دیکھ نہیں سکتیں۔ (5) وہ اپنے آبائو اجداد کی بنائی اور بتائی ہوئی بت پرستی پر مکمل طور پر مطمئن تھے اور اس سے باہر نکل کر کسی مذہب میں کسی خوبی کا امکان بھی ان کے تصور میں نہ آتا تھا اور آپ ﷺ کی دعوت کا سب سے بڑا یہی نشانہ تھا جس کو وہ برداشت نہ کرسکتے تھے۔ (6) وہ زنا ، چوری ، جوا ، رہزنی ، قتل ، عہد شکنی اور آوارگی کو پسند کرتے تھے اور کسی طرح کے قانون و قاعدہ اور بندش و قید سے آزاد رہن چاتے تھے اور ان باتوں پر پابندی کو وہ برداشت نہیں کرسکتے تھے وہ اپنے اپنے گھروں میں بیشمار عورتوں کو ڈالنے میں فخر محسوس کرتے تھے اس لیے ان کے خلاف وہ کچھ بھی سننے کے لیے تیار نہ تھے اس لیے انہوں نے آپ ﷺ کی مخالفت پر کمر باندھی اور آپ ﷺ کو اس تعلیم سے باز رکھنے کی پوری کوشش کی اور آپ ﷺ کے خلاف ہرا سکیم میں انہوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور آپ ﷺ کے صحابہ ؓ کو وہ تکلیفیں دیں کہ ان کا نام سنتے ہی آج بھی انسان کا جسم کانپ جاتا ہے اور اگر کوئی شخص ذرا احساس کرے تو اس پر سکتہ طاری ہوجاتا ہے اور درد کی داستان ذرا طویل ہو تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتا ہے۔ نبی اعظم و آخر ﷺ کی نبوت و رسالت کا نام آتے ہی قبول کرلینے والے لوگ مردوں میں زید بن حارثہ ؓ اور عورتوں میں سیدہ خدیجۃ الکبریٰ (ام المومنین) ؓ ۔ بچوں میں سیدنا علی ؓ اور آزاد کردہ غلاموں میں ام ایمن اور دوستوں میں سب سے پہلے ابوبکر صدیق ؓ ایمان کی دولت سے مالا مال ہوئے گویا سب سے پہلے آپ ﷺ کی دعوت پر آپ ﷺ کے قریبی لوگوں میں ایمان لانے والے آپ ﷺ کے گھر اور قریب کے لوگ ہی تھے اور اس طرح یہ اعزاز بھی دوسرے انبیاء و رسل (علیہ السلام) کے مقابلہ میں آپ ﷺ کو حاصل ہے کہ جہاں آپ ﷺ کی مخالفت ہوئی اور بہت ہوئی وہاں ایمان لانے والوں میں بھی اپنے ہی گھر اور خاندان کے لوگوں نے اولیت حاصل کی اور یہ سب کو معلوم ہے کہ جب خاندان کا نام آتا ہے تو سب سے پہلے اس میں بیوی ، بچوں ہی کا ذکر آتا ہے اور پھر عزیرو اقارب کا اور اس کے بعد دوستوں یاروں کا اور آپ ﷺ کی دعوت کو آتے ہی قبول کرلینے والوں میں لاریب یہی لوگ تھے۔ آپ ﷺ کی مکی زندگی کو تین ادوار میں تقسیم کیا جائے تو مختصر سے حالات کا جائزہ پیش کرنا آسان ہوسکتا ہے۔
Top