Urwatul-Wusqaa - At-Taghaabun : 5
اَلَمْ یَاْتِكُمْ نَبَؤُا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ١٘ فَذَاقُوْا وَبَالَ اَمْرِهِمْ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
اَلَمْ يَاْتِكُمْ : کیا نہیں آئی تمہارے پاس نَبَؤُا الَّذِيْنَ : خبر ان لوگوں کی كَفَرُوْا : جنہوں نے کفر کیا مِنْ قَبْلُ : اس سے پہلے فَذَاقُوْا : تو انہوں نے چکھا وَبَالَ اَمْرِهِمْ : وبال اپنے کام کا وَلَهُمْ عَذَابٌ : اور ان کے لیے عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
کیا تم کو ان لوگوں کی خبر نہیں پہنچی جو پہلے کافر تھے پس انہوں نے (دُنیا میں بھی) اپنے اعمال کا مزہ چکھا اور (آخرت میں بھی) ان کے لیے دردناک عذاب ہے
کیا آپ ان کافروں کو جانتے نہیں ہیں جو اپنے اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں ؟ 5 ؎ مطلب یہ ہے کہ اب سے پہلے کتنے ہی اکھڑ اس دھرتی پر پیدا ہوچکے ہیں جو ہم چوما دیگرے نیست کے نعرے بلند کرتے رہے اور جنہوں نے ( انا ربکم الاعلیٰ ) کی صدائیں بلند کیں ۔ یہ عاد ، ثمود ، اہل مدین ، قوم تبع ، فرعون ، قارون ، ہامان اور رشد اد وغیرہ اور ایسے ہی دوسرے لوگوں کی طرف اشارہ ہے کہ سارے لوگ وہ ہیں جو اپنے اپنے وقت میں بڑے بڑے دعوے کرچکے اور ان کی خبریں ہم تم کو ایک بار نہیں کئی بار قرآن کریم میں سنا چکے کیا یہ سب کے سب اپنے اپنے کیے کے انجام کو پہنچ کر نہیں رہے ؟ بلا شبہ وہ اپنے انجام کو پہنچ گئے۔ اس وقت کے وہ ہیکڑ تھے اور آج کے جو ہیکڑ ہیں ان کو انہیں گزشتہ ہیکڑوں سے سبق حاصل کرلینا چاہئے اگر ان میں کچھ انسانیت کا مادہ موجود ہے تو وہ ہمیشہ آگے ہی نہ دیکھتے رہیں کبھی پیچھے نظر دوڑا کر بھی دیکھیں ۔ یہ بات شاید ان کے حق میں مفید رہے۔ دعویدار بہت آئے اور وہ اپنے اپنے عہد میں دعوے کرتے رہے اور آج بھی ایسے دعوے کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ آج وہ لوگ فقط داستانیں ہی داستانیں رہ گئے ہیں تو کل ان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوگا کہ ہر جانے والا آنے والے کے لیے ایک داستان ہوتا ہے اگر آنے والا بھی اس بات کو سمجھ جائے کہ میں آیا ہوں تو کل میں نے جانا بھی ہے لہٰذا کوئی بات ، کوئی دعویٰ ایسا نہ کروں کہ کل گزشتہ لوگوں کی طرح میری داستان ہی داستان باقی رہ جائے اور میرا کیا ہوا کام کسی کے لیے رہنمائی کا کام نہ دے ۔ کامیاب ہیں وہ لوگ جن کی مثالیں دے کر ، جن کی مثالیں دیکھ کر انسان کو سبق حاصل ہوتا ہے اور ان سے سبق سیکھتا ہے اور ان کے کارہائے نمایاں سے آنے والے لوگ مستفید ہوتے ہیں اور کتنے ہی ہیں وہ لوگ جو خود اپنے کیے کے انجام کو پہنچ گئے اور آج ان کا نام لینے کے لیے بھی کوئی شخص خوشی کے ساتھ تیار نہیں ہے بلکہ ان پر حسرت و افسوس ہی سے نظر ڈالتا ہے جب بھی ڈالتا ہے۔ جن لوگوں کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے ان میں سے کوئی ہے جس کو حسرت و افسوس ہی سے یاد نہ کیا جاتا ہو خواہ اپنے وقت کے خدا ہی بنے ہوئے تھے۔ اس سے ان لوگوں کو سبق حاصل کرنا چاہئے جو اس وقت اپنے زمانہ کے خدا بنے بیٹھے ہیں اور اس طرح کی ڈینگیں مارتے ہیں جس طرح کی ان کے گزشتہ آبائو اجداد مارتے رہے تھے۔ فرمایا وہ بھی اپنے وبال کو پہنچ گئے اور یہ بھی پہنچ جائیں گے۔
Top