Urwatul-Wusqaa - Al-Qalam : 17
اِنَّا بَلَوْنٰهُمْ كَمَا بَلَوْنَاۤ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ١ۚ اِذْ اَقْسَمُوْا لَیَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِیْنَۙ
اِنَّا : بیشک ہم نے بَلَوْنٰهُمْ : آزمائش میں ڈالا ہم نے ان کو كَمَا بَلَوْنَآ : جیسا کہ آزمایا ہم نے اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ : باغ والوں کو اِذْ اَقْسَمُوْا : جب انہوں نے قسم کھائی لَيَصْرِمُنَّهَا : البتہ ضرور کاٹ لیں گے اس کو مُصْبِحِيْنَ : صبح سویرے
ہم نے ان کی اس طرح آزمائش کی ہے جیسے ان باغ والوں کی آزمائش کی تھی جنہوں نے قسم کھائی کہ وہ صبح ہوتے ہی اس کے پھل توڑ لیں گے
ان لوگوں کو آزمائیں گے جیسا کہ ہم نے باغ والوں کو آزمایا تھا جو صبح گئے تھے 17 ؎ یہ مکہ کے لوگوں کے سامنے اور ان جیسے کردار کے سارے لوگوں کے لئے ایک مثال بیان کی جا رہی ہے جس کا ذکر زیر نظر آیت سے شروع ہو کر آیت 33 تک چلا گیا ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ یہ کفار مکہ کے حالات کے مناسب قرآن کریم نے ایک مثال بیان کی ہے۔ حقیقت میں کوئی واقعہ نہیں تھا اور سعد بن جبیر ؓ فرماتے ہیں کہ یہ واقع ہے جو یمن کی ایک بستی ضروان میں پیش آیا جو کہ صنعا سے چھ میل پر واقع تھی۔ چناچہ مفسرین نے اس واقعہ کی تفصیل اس طرح بیان کی ہے کہ اہل کتاب میں سے ایک شخص بہت مالدار ، صاحب زمین و املاک تھا اور ویسے بھی نیک انسان تھا۔ اپنی پیداوار میں سے فقراء و مساکین پر کافی خرچ کرتا رہتا تھا۔ اس کا جب انتقال ہوگیا تو اس نے چند لڑکے اپنے وارث چھوڑے۔ جب پھلوں اور کھیتیوں کے کاٹنے کا وقت آیا تو ان لڑکوں نے آپس میں مشورہ کیا اور کہا کہ ہمارا باپ تو بہت ہی بیوقوف تھا کہ اپنی یہ کثیر دولت فقراء اور مساکین میں لٹا دیتا تھا ہم ایسے پاگل نہیں ہیں کہ اپنی محنت اور کمائی کو اس طرح ضائع کردیں اور آپس میں صلاح یہ کی کہ پھل اتارنے اور کھیتی کاٹنے کے لئے منہ اندھیرے چلو اور اتنی عجلت کرو کہ فقراء و مساکین کو معلوم ہی نہ ہو سکے کہ کھیتوں میں آ کر ہم کو تنگ کریں۔ ایک طرف تو یہ بخیل لوگ مشورہ کر رہے تھے کہ ساری دولت کو ذخیرہ کر کے ایک خزانہ بنا لیں اور والد کی طرح اتنا کچھ ہونے کے باوجود کورے کے کورے نہ رہیں۔ اس میں نہ تو اللہ کا کوئی حق ہے اور نہ اللہ کے سارے بندوں کی یہ جائیداد ہے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کا حکم نازل ہونے والا تھا کہ اس نے رات ہی رات میں اس باغ کو سخت لو بیجے کر تباہ و برباد کردیا اور اس باغ اور کھیتی کے چورے کے سوا وہاں کچھ بھی موجود نہ تھا کیونکہ سب کچھ جل کر خاکستر ہوگیا تھا۔ اب جو مشورہ کے مطابق یہ لوگ رات کے اندھیرے ہی اندھیرے میں اٹھ کر باغ کی طرف روانہ ہوئے تو وہاں پہنچ کر حالات کو بالکل مختلف پایا اور ان کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ وہ وہاں سے آگے کی طرف نکل گئے کہ شاید ہم کسی غلط راستے کی طرف نکل آئے ہیں اور یہ وہ جگہ نہیں ہے مگر دوسرے نشانات دیکھ کر وہ چونک گئے اور واپس آ کر جو دیکھا تو وہ جگہ تو وہی تھی لیکن باغ اور کھیتی کے چورے کے سوا وہاں کچھ نہ پایا۔ وہ سمجھ گئے کہ ہم نے جو مشورہ کیا تھا وہ رب ذوالجلال والا کرام کو پسند نہ آیا۔ جو ہم نے غریبوں ، مسکینوں اور یتیموں کے خلاف کہا تھا اور یہ گویا ہمارے ظلم ہی کا نتیجہ ہے۔ اب وہ حسرت و افسوس سے ہاتھ ملنے لگے لیکن اب وہ باغ تو درست ہونے سے رہا وہ تو جو ہونا تھا ہوگیا اور اس طرح ان کی پکار بھی ان کے کچھ کام نہ آئی۔ یہ مثال ہو یا حقیقی واقعہ قرآن کریم نے اس کے بیان میں تذکیر و تنذیر کا جو پہلو رکھا ہے وہ بہرحال اپنی جگہ بدستور موجود ہے اس لئے کہ ان آیات سے قبل قریش مکہ کی نافرمانیوں اور رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے انکار و کفران کا ذکر کرتے ہوئے خصوصیت کے ساتھ ان کو بعض شخصیتوں یا کسی ایک شخص کی بداعتدالیوں کا تذکرہ کیا ہے اور ان کو مثال دے کر یا واقعہ سنا کر یہ بتایا جا رہا ہے کہ ہمارے رسول ﷺ اور ہماری کتاب قرآن کریم کے خلاف باہم سرگوشیاں کرنے کا انجام دہی نکلے گا جو اصحاب الجنہ کا نکلا تھا اس لئے اس کو اپنے ذہن اور خیال میں رکھو۔
Top