Urwatul-Wusqaa - At-Tawba : 33
هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ١ۙ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ
هُوَ : وہ الَّذِيْٓ : وہ جس نے اَرْسَلَ : بھیجا رَسُوْلَهٗ : اپنا رسول بِالْهُدٰي : ہدایت کے ساتھ وَدِيْنِ الْحَقِّ : اور دین حق لِيُظْهِرَهٗ : تاکہ اسے غلبہ دے عَلَي : پر الدِّيْنِ : دین كُلِّهٖ : تمام۔ ہر وَلَوْ : خواہ كَرِهَ : پسند نہ کریں الْمُشْرِكُوْنَ : مشرک (جمع)
ہاں ! وہی ہے جس نے اپنے رسول کو حقیقی ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اس دین کو سارے دینوں پر غالب کر دے اگرچہ مشرکوں کو ایسا ہونا پسند نہ آئے
اسلام کی نظر میں ” دین “ کیا ہے ؟ اور دین الٰہی کا غلبہ لازم ہے : 48: زیر نظر آیت اور اس مف ہوں کی دوسری اس آیات میں یہ بات اللہ تعالیٰ نے صاف صاف الفاظ میں ارشاد فرمائی ہے کہ نبی اعظم و آخر ﷺ کی بعثت کا مقصد محض اس دین کی تبلیغ نہ تھا بلکہ اسے دین کی توعیت رکھنے والے تمام نظام زندگی پر غالب کردینا تھا۔ دوسرے لفظوں میں آپ ﷺ یہ دین اس لئے نہیں لائے تھے کہ زندگی کے سارے شعبوں پر غلبہ تو ہو کسی دین باطل کا اور اس کی قہر مانی کے تحت یہ دین اس حدود کے اندر سکڑ کر رہ جائے جن میں دینی غالب اسے جینے کی اجازت دے دے ، نہیں ، ہرگز نہیں بلکہ اسے نبی کریم ﷺ اس لئے لائے تھے کہ زندگی کا غالب دین یہ ہو اور دوسرا کوئی دین اگر جئے بھی تو ان حدودو کے اندر جئے جن میں یہ اسے جینے کی اجازت دے اور اس کو دین کا غلبہ کہا جاتا ہے۔ اس جگہ ایک بات مزید یاد رکھنے کی ہے وہ یہ کہ نبی رحمت ﷺ کا لایا ہوا دین کوئی نیا دین نہیں بلکہ اس دین کی تصویر ہے جو سابق انبیائے کرام لائے تھے چناچہ قرآن کریم نے خود اس بات کی وضاحت دوسرے مقامات پر کردی ہے چناچہ ایک جگہ ارشاد الٰہی اس طرح ہے کہ : ” اللہ نے تمہارے لئے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوح (علیہ السلام) کو دیا تھا اور جسے اے پیغمبر اسلام ! اب تمہاری طرف ہم نے وحی کے ذریعہ سے بھیجا ہے اور جس کی ہدایت پر ہم ابراہیم ، موسیٰ اور عیسیٰ (علیہم السلام) کو دے چکے ہیں اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہوجاؤ اور یہی بات ان مشرکوں کو سخت ناگوار ہائی ہے۔ “ (الشوریٰ 42 : 13) جس چیز کو زیر نظر آیت میں ظاہر کرنے موسوم کیا اس کو الشوریٰ کی آیت میں قائم کرنا کہا گیا اس طرح اب ہمارے سامنے دو سوالات ہوئے ایک یہ کہ دین کو ظاہر کرنے یا قائم کرنے سے کیا مراد ہے ؟ دوسرے یہ کہ خود دین سے کیا مراد ہے ؟ جیسے ظاہر کرنے یا قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے اب دونوں باتوں کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے تاکہ ایک بات سمجھی ہوئی بات سارے ایسے مقامات پر کام دے اور یہ بات تو آپ سمجھ ہی گئے کہ ظاہر کرنے اور قائم کرنے کے ایک ہی معنی ہیں خصوصاً دین کے قائم کرنے میں یا ظاہر کرنے میں۔ قائم کرنے کا لفظ جب کسی مادی یا جسمانی چیز کے لئے استعمال ہوتا ہے تو اس سے مراد بیٹھے کو اٹھانا ہوتا ہے ، مثلاً کسی انسان یا جانور کو اٹھانا یا پڑی ہوئی چیز کو کھڑا کرنا ہوتا ہے جیسے بانس یا ستون کو قائم کرنا یا کسی چیز کے بکھرے ہوئے اجزاء کو جمع کر کے بلند کرنا ہوتا ہے جیسے کسی خالی زمین میں عمارت قائم کرنا لیکن جو چیزیں مادی نہیں بلکہ معنوی ہوتی ہیں ان کے لئے جب قائم کرنے کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے مراد اس چیز کی محض تبلیغ کرنا نہیں بلکہ اس پر کماحقہ عمل در آمد کرنا ، اسے رواج دینا اور اسے عملاً نافذ کرنا ہوتا ہے۔ مثلاً جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص نے اپنی حکومت قائم کی تو اس کے معنی یہ نہیں ہوتے کہ اس نے اپنی حکومت کی طرف دعوت دی بلکہ یہ ہوتے ہیں کہ اس نے ملک کے لوگوں کو اپنا مطیع کر لای اور حکومت کے تمام شعبوں کی ایسی تنظیم کردی کہ ملک کا سارا انتظام اس کا احکرام کے مطابق چلنے لگا۔ اسی طرح جب ہم کہتے ہیں کہ ملک میں عدالتیں قائم ہیں تو اس کے معنی یہ ہوئے ہیں کہ انصاف کرنے کے لئے منصف مقرر ہیں اور وہ مقدمات کی سماعت کر رہے ہیں اور فیصلے دے رہے ہیں نہ یہ کہ عدل و انصاف کی خوبیان خوب بیان کی جارہی ہیں اور لوگ ان کے قائل ہو رہے ہیں۔ اسی طرح جب قرآن مجید میں حکم دیا جاتا ہے کہ نماز قائم کرو تو اس سے مراد نماز کی دعوت و تبلیغ نہیں ہوتی بلکہ یہ ہوتی ہے کہ نماز کو اس کی تمام شرائط کے ساتھ نہ صرف خود ادا کرو بلکہ ایسا انتظام کرو کہ وہ اہل ایمان میں باقاعدگی کے ساتھ رائج ہوجائے۔ مسجدیں ہوں ، جمعہ و جماعت کا اہتمام ہو ، وقت کی پابندی کے ساتھ اذانیں دی جائیں ، امام اور خطیب مقرر ہوں اور لوگوں کو وقت پر مسجدوں میں آنے اور نماز ادا کرنے کی عادت پڑجائے۔ اس تشریح کے بعد یہ بات سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آسکتی کہ انبیاء (علیہم السلام) کو جب اس دین کے قائم کرنے اور قائم رکھنے کا حکم دیا گیا تو اس سے مراد صرف اتنی بات نہ تھی کہ وہ خود اس دین پر عمل کریں اور اتنی بات بھی نہ تھی کہ وہ دوسروں میں اس کی تبلیغ کریں تاکہ لوگ اس کا برحق ہونا تسلیم کرلیں بلکہ یہ بھی تھی کہ جب لوگ اسے تسلیم کرلیں تو اس سے آگے قدم بڑھا کر پورا کا پورا دین ان میں عملاً رائج اور نافذ کیا جائے تاکہ اس کے مطابق عمل درآمد ہونے لگے اور ہوتا رہے۔ اس میں شک نہیں کہ دعوت و تبلیغ اس کام کا لازمی ابتدائی مرحلہ ہے جس کے بغیر دوسرا مرحلہ پیش نہیں آسکتا۔ لیکن ہر صاحب عقل آدمی خود دیکھ سکتا ہے کہ اس حکم میں دعوت و تبلیغ کو مقصود کی حیثیت نہیں دی گئی بلکہ دین قائم کرنے اور قائم رکھنے کو مقصود قرار دیا گیا ہے۔ دعوت و تبلیغ اس مقصد کے حصول کا ذیریعہ ضرور ہے مگر بجائے خود مقصد نہی ہے کجا کہ کوئی شخص اسے انبیاء کے مشن کا مقصد وحید قرار دے بیٹھے۔ اب دوسرے سوال کو لیجئے بعض لوگوں نے دیکھا کہ جس دین کو قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہ تمام انبیاء (علیہم السلام) کے درمیان مشترک ہے اور شریعتیں ان کی مختلف رہی ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے : لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّ مِنْهَاجًا ” ہم نے تم میں سے ہر امت کے لئے ایک شریعت اور ایک راہ مقرر کردی “ اس لئے انہوں نے یہ رائے قائم کرلی کہ لامحالہ اس دین سے مراد شرعی احکام و ضوابط نہیں ہیں بلکہ صرف توحید و آخرت اور کتاب و نبوت کا ماننا اور اللہ تعالیٰ کی عبادت بجا لانا ہے یا حد سے حد اس میں وہ موٹے موٹے اخلاقی اصول شامل ہیں جو سب شریعتوں میں مشترک رہے ہیں۔ یہ ایک بڑی سطحی رائے ہے جو محض سرسری نگاہ سے دین کی وحدت اور شرائع کے اختلاف کو دیکھ کر قائم کرلی گئی ہے اور یہ وہی خطرناک رائے ہے کہ اگر اس کی اصلاح نہ کردی جائے تو آگے بڑھ کر بات دین و شریعت کی اس تفریق تک جا پہنچے گی جس میں مبتلا ہو کر سینٹ پال نے دین بلا شریعت کا نظریہ پیش کیا اور سیدنا مسیح (علیہ السلام) کی امت کو خراب کردیا ۔ اس لئے جب شیعت دین سے الگ ایک چیز ہے اور حکم صرف دین کو قائم کرنا کا ہے نہ کہ شیعت کو تو لامحالہ مسلمان بھی عیسائیوں کی شریعت کو غیر اہم اور اس کی اقامت کو غیر مقصود بالذات سمجھ کر نظر انداز کردیں گے اور صرف ایمانیات اور موٹے موٹے اخلاقی اصولوں کو لے کر بیٹھ جائیں گے۔ اس طرح کے قیاسات سے دین کا مفہوم متعین کرنے کے بجائے آخر کیوں نہ ہم خود اللہ کی کتاب سے پوچھ لیں کہ جس دین کو قائم کرنے کا حکم یہاں دیا گیا ہے آیا اس سے مراد صرف ایمانیات اور چند بڑے بڑے اخلاقی اصول ہی ہیں یا شرعی احکام بھی۔ قرآن مجید کا جب ہم تبع کرتے ہیں تو اس میں جن چیزوں کو دین میں شمار کیا گیا ہے ان میں حسب ذیل چیزیں بھی ہمیں ملتی ہیں : ! : وَ مَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِیَعْبُدُوا ؟ اللّٰهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ 1ۙ۬ حُنَفَآءَ وَ یُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوا الزَّكٰوةَ وَ ذٰلِكَ دِیْنُ الْقَیِّمَةِؕ005 (البینہ : آیت 5) ” اور ان کو حکم نہیں دیا گیا مگر اس بات کا کہ یکسو ہو کر اپنے دین کا للہ کے لئے خالص کرتے ہوئے اس کی عبادت کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دین اور یہی راست رو ملت کا دین ہے۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ نماز اور زکوٰۃ اس دین میں شامل ہیں حالانکہ ان دونوں کے احکام مختلف شریعتوں میں مختلف رہے ہیں۔ کوئی شخص بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ تمام پچھلی شریعتوں میں نماز کی یہی شکل و ہیئت ، یہی اس کے اجزاء ، یہی اس کی رکعتیں ، یہی اس کا قبلہ ، یہی اس کے اوقات اور یہی اس کے دوسرے احکام رہے ہیں۔ اسی طرح زکوٰۃ کے متعلق بھی کوئی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ تمام شریعتوں میں یہی اس کا نصاب ، یہی اس کی شرحیں اور یہی اس کی تحصیل اور تقسیم کے احکام رہے ہیں لیکن اختلاف شرائع کے باوجود اللہ تعالیٰ ان دونوں چیزوں کو دین میں شمار کر رہا ہے۔ " : حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖ وَ الْمُنْخَنِقَةُ وَ الْمَوْقُوْذَةُ وَ الْمُتَرَدِّیَةُ وَ النَّطِیْحَةُ وَ مَاۤ اَكَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّیْتُمْ 1۫ وَ مَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ 1ؕ ذٰلِكُمْ فِسْقٌ 1ؕ اَلْیَوْمَ یَىِٕسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِیْنِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَ اخْشَوْنِ 1ؕ اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا 1ؕ فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَةٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ 1ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ 003 ” اے مسلمانو ! تم پر حرام : کردیئے گئے ہیں مردار جانور ، خون ، سور کا گوشت ، وہ جانور جو غیر اللہ کے نام سے پکارا جائے ، گلا گھونٹ کر مارا ہوا ، چوٹ لگا کر مارا ہوا ، وہ جو بلندی سے گر کر مر جائے ، وہ جانور جو کسی کے سینگ مارنے سے مر جائے ، وہ جسے درندہ پھاڑ جائے مگر ہاں ! وہ جسے تم ذبح کرلو ، وہ جانور جو کسی تھان پر چڑھا کر ذبح کیا جائے اور یہ بات بھی کہ تیروں اور پانسوں سے آپس میں تقسیم کرو تو یہ گناہ کی بات ہے ، جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی تھی وہ آج تمہارے دین کی طرف سے مایوس ہوگئے ہیں پس ان سے نہ ڈرو بلکہ صرف مجھ ہی سے ڈرو ، آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کردیا “ اس سے معلوم ہوا کہ یہ سب احکام شریعت بھی دین ہی ہیں۔ #: قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ لَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ لَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ (التوبہ : 29) ” جنگ کرو ان لوگوں سے جو اللہ اور یوم آخر پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے حرام کیا ہے اسے حرام نہیں کرتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے۔ “ معلوم ہوا کہ اللہ اور آخرت پر ایمان لانے کے ساتھ حلال و حرام کے ان احکام کو ماننا اور ان کی پابندی کرنا بھی دین ہے جو اللہ اور اس کے رسول نے دیئے ہیں۔ $: اَلزَّانِیَةُ وَ الزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ 1۪ وَّ لَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰهِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ 1ۚ (النور : 2) ” بدکار عورت اور بدکار مرد دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ (تاکہ اسلامی معاشرہ بدکاری اور بےحیائی سے مکمل طور پر بچ سکے) اور تم کو اللہ کے دین (قانون) میں ان دونوں پر ترس نہ آئے اگر تم اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہو “ مَا کَانَ لِیَاْخُذَ اَخَاہُ فِیْ دِیْنِ الْمَلِكِ (یوسف : 76) ” یوسف (علیہ السلام) اپنے بھائی کو بادشاہ کے دین میں پکڑ لینے کا مجاز نہ تھا۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ فوجداری قانون بھی دین ہے۔ اگر آدمی خدا کے فوجداری قانون پر چلے تو وہ خدا کے دین کا پیرو ہے اور اگر بادشاہ کے قانون پر چلے تو وہ بادشاہ کے دین کا پیرو ۔ یہ چار تو وہ نمونے ہیں جن میں شریعت کے احکام کو بالفاظ صریح دین سے تعبیر کیا گیا ہے لیکن اس کے علاوہ اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جن گناہوں پر اللہ تعالیٰ نے جہنم کی دھمکی دی ہے (مثلاً زنا ، سود خواری ، قتل مومن ، یتیم کا مال کھانا ، باطل طریقوں سے لوگوں کے مال لینا وغیرہ) اور جن جرائم کو خدا کے عذاب کا موجب قرار دیا ہے (مثلاً عمل قوط لوط اور لین دین میں قوم شعیب (علیہ السلام) کا رویہ) ان کا سد باب لازماً دین ہی میں شمار ہونا چاہئے ، اس لئے کہ دین اگر جہنم اور عذاب الٰہی سے بچانے کے لئے نہیں آیا تو اور کس چیز کے لئے آیا ہے ؟ اسی طرح وہ احکام شریعت بھی دین کا حصہ ہونے چاہئیں جن کی خلاف ورزی کو خود فی النار کا موجب قرارد یا گیا ہے۔ مثلاً میراث کے احکام ، جن کو بیان کرنے کے بعد آخر میں ارشاد ہوا ہے کہ : وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوْدَهٗ یُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِیْهَا 1۪ وَ لَهٗ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ (رح) 0014 (النساء : 14) ” لیکن جس کسی نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی اور اس کی ٹھہرائی ہوئی حد بندیوں سے باہر نکل گیا تو وہ آگ کے عذاب میں ڈالا جائے گا ، وہ ہمیشہ اسی حالت میں رہے گا اور اس کیلئے رسوا کرنے والا عذاب ہوگا۔ “ اسی طرح جن چیزوں کی حرمت اللہ تعالیٰ نے پوری شدت اور قطعیت کے ساتھ بیان کی ہے مثلاً ماں۔ ، بہن اور بیٹی کی حرمت ، شراب کی حرمت ، چوری کی حرمت ، جوئے کی حرمت ، جھوٹی شہادت کی حرمت ، ان کی تحریم کو اور قیامت دین میں شامل نہ کیا جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ غیر ضروری احکام بھی دے دیئے ہیں جن کا اجراء مقصود نہیں ہے۔ علی ھذا القیاس جن کاموں کو اللہ تعالیٰ نے فرض قرار دیا ہے مثلاً روزہ اور حج ، ان کی اقامت کو بھی محض اس بہانے اقامت دین سے خارج نہیں کیا جاسکتا کہ رمضان کے 30 روزے تو پچھلی شریعتوں میں نہ تھے اور کعبے کا حج تو صرف اس شریعت میں تھا جو اولاد ابراہیم (علیہ السلام) کی اسماعیلی شاخ کو ملی تھی۔ دراصل ساری غلط فہمی صرف اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ آیت : لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّ مِنْهَاجًا (ہم نے تم میں سے ہر امت کے لئے ایک شریعت اور ایک راہ مقرر کردی) کا الٹا مطلب لے کر اسے یہ معنی پہنا دیئے گئے ہیں کہ شریعت چونکہ ہر امت کے لئے الگ تھی اور حکم صرف اس دین کے قائم کرنے کا دیا گیا ہے جو تمام انبیاء کے درمیان مشترک تھا اس لئے اقامت دین کے حکم میں اقامت شریعت شامل نہیں ہے حالانکہ درحقیقت اس آیت کا مطلب اس کے بالکل برعکس ہے۔ سورة مائدہ میں جس مقام پر یہ آیت آئی ہے اس کے پورے سیاق وسباق کو آیت 41 سے آیت 50 تک اگر کوئی شخص بغور پڑھے تو معلوم ہوگا کہ اس آیت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ جس نبی کی امت کو جو شریعت بھی اللہ تعالیٰ نے دی تھی وہ اس امت کے لئے دین تھی اور اس کے دور نبوت میں اسی کی اقامت مطلوب تھی اور اب چونکہ سیدنا محمد ﷺ کا دور نبوت ہے اس لئے امت محمدیہ کو جو شریعت دی گئی ہے وہ اس دوت کے لئے دین ہے اور اس کا قائم کرنا ہی دین کا قائم کرنا ہے۔ ان شریعتوں کا اختلاف تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا کی بھیجی ہوئی شریعتیں باہم متضاد تھیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے جزئیات میں حالات کے لحاظ سے کچھ فرق رہا ہے۔ مثال کے طور پر نماز اور روزے کو دیکھئے ، نمام تمام شریعتوں میں فرض رہی ہے مگر قبلہ ساری شریعتوں کا ایک نہ تھا اور اس کے اوقات اور رکعات اور اجزای میں بھی فرق تھا۔ اسی طرح روزہ ہر شریعت میں فرض تھا مگر رمضان کے 30 روزے دوسری شریعتوں میں نہ تھے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہے کہ مطلقاً نماز اور روزہ اقامت دین میں شامل ہے مگر ایک خاص طریقے سے نماز پڑھنا اور خاص زمانے میں روزہ رکھنا اقامت دین سے خارج ہے بلکہ اس سے صحیح طور پر جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ ہر نبی کی امت کے لئے اس وقت کی شریعت میں نماز اور روزے کے لئے جو قاعدے مقرر کئے گئے تھے انہی کے مطابق اس زمانے میں نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا دین قائم کرنا تھا اور اب اقامت دین یہ ہے کہ ان عبادتوں کے لئے شریعت محمدیہ میں جو طریقہ رکھا گیا ہے ان کے مطابق انہیں ادا کیا جائے۔ انہیں دو مثالوں پر دوسرے تمام احکام شریعت کو بھی قیاس کرلیجئے۔ قرآن مجید کو جو شخص بھی آنکھیں کھول کر پڑھے گا اسے یہ بات صاف نظر آئے گی کہ یہ کتاب اپنے ماننے والوں کو کفر اور کفار کی رعیت فرض کر کے مغلوبانہ حیثیت میں مذہبی زندگی بسر کرنے کا پروگرام نہیں دے رہی ہے بلکہ یہ اعلانیہ اپنی حکومت قائم کرنا چاہتی ہے ، اپنے پرو وں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ دین حق کو فکری ، اخلاقی ، تہذیبی اور قانونی و سیاسی حیثیت سے غالب کرنے کے لئے جان لڑا دیں اور ان کو انسانی زندگی کی اصلاح کا وہ پروگرام دیتی ہے جس سے بہت بڑے حصے پر صرف اسی صورت میں عمل کیا جاسکتا ہے جب حکومت کا اقتدار اہل ایمان کے ہاتھ میں ہو۔ یہ کتاب اپنے نازل کئے جانے کا مقصد یہ بیان کرتی ہے کہ : اِنَّاۤ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَاۤ اَرٰىكَ اللّٰهُ 1ؕ (النساء : 105) ” اے نبی ! ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ تم پر نازل کی ہے تاکہ تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو اس روشنی میں جو اللہ نے تمہیں دکھائی ہے۔ “ اس کتاب میں زکوٰۃ کی تحصیل و تقسیم کے جو احکام دیئے گئے ہیں وہ صریحاً اپنے پیچھے ایک ایسی حکومت کا تصور رکھتے ہیں جو ایک مقرر قاعدے کے مطابق زکوٰۃ وصول کر کے مستحقین تک پہنچانے کا ذمہ لے۔ (التوبہ : 60۔ 103) اس کتاب میں سود کو بند کرنے کا جو حکم دیا ہے اور سود خودی جاری رکھنے والے کے خلاف جو اعلان جنگ کیا گیا ہے (البقرہ : 275 : 279) وہ اسی صورت میں رو بعمل آسکتات ہے جب ملک کا سیاسی اور معاشی نظام پوری طرح اہل ایمان کے ہاتھ میں ہو۔ اس کتابت میں قائل سے قصاص لینے کا حکم (البقرہ : 178) چوری پر ہاتھ کاٹنے کا حکم (المائدہ : 38) زنا اور قذف پر حد جاری کرنے کا حکم (النور : 2۔ 3) اس مفروضے پر نہیں دیا گیا ہے کہ ان احکام کے ماننے والے لوگوں کو کفار کی پولیس اور عدالتوں کے ماتحت رہنا ہوگا۔ اس کتاب میں کفار سے قتال کا حکم (البقرہ : 190۔ 216) یہ سمجھتے ہوئے نہیں دیا گیا ہے کہ اس دین کے پیرو کفر کی حکومت میں فوج بھرتی کر کے اس حکم کی تعمیل کریں گے۔ اس کتاب میں اہل کتاب سے جزیہ لینے کا حکم ( التوبہ : 29) اس مفروضے پر نہیں دیا گیا ہے کہ مسلمان کافروں کی رعایا ہوتے ہوئے ان سے جزیہ وصول کریں گے اور ان کی حفاظت کا ذمہ لیں گے اور یہ معاملہ صرف مدنی سورتوں ہی تک محدود نہیں ہے۔ مکی سورتوں میں بھی دیدہ بینا کو اعلانیہ یہ نظر آسکتا ہے کہ ابتدا ہی سے جو نقشہ پیش نظر تھا وہ دین کے غلبہ و اقتدار کا تھا نہ کہ کفر کی حکومت کے تحت دین اور اہل دین کے ذمہ بن کر رہنے کا۔
Top