Urwatul-Wusqaa - Ash-Sharh : 8
وَ اِلٰى رَبِّكَ فَارْغَبْ۠   ۧ
وَ : اور اِلٰى رَبِّكَ : اپنے رب کی طرف فَارْغَبْ : رغبت کریں
اور اپنے پروردگار کی طرف متوجہ ہو جا
اور اپنے پروردگار کی طرف متوجہ ہو جا 8 ؎ یہ ہے وہ ساری پریشانیوں ، ساری تھکاوٹوں اور ساری محنتوں اور مشقتوں کا الٰہی حل جس سے یہ سب کچھ بھسم ہو کر رہ جاتا ہے کہ آدمی جب تھک ہارے جائے اور نہایت بور (Bore) ہوجائے تو وہ بغیر کسی حیل و حجت کے اللہ تعالیٰ کی طرف راغب ہو یہی حل اس کا اس وقت تھا جب رسول اللہ ﷺ اس دنیا میں موجود تھے اور یہی حال اس کا آج ہے اگر کوئی اس حل کو حل سمجھے لیکن اگر کوئی شخص بھی اس حل کو حل نہ سمجھے تو کیا اس کے نہ سمجھنے سے حقیقت بھی اپنا آپ بدل دے گی ؟ ہرگز نہیں حقیقت تو کہتے ہی اس کو ہیں جو موم کی ناک کی طرح بدلتی نہ رہ بلکہ اپنی جگہ قائم و دائم رہے ۔ جو کام دنای میں اس کے سپرد کیا جائے اس کو پوری دیانت و امانت کے ساتھ کرے اور کرتا ہی رہے تا آنکہ اس کام کی تکمیل ہوجائے یا تکمیل کرنے والے کی زندگی کی تکمیل ہوجائے لیکن آپ ﷺ کے ساتھ تو عدہ الٰہی تھا کہ آپ ﷺ اپنے کام کی تکمیل کریں گے اور بحمد اللہ آپ ﷺ نے اپنے کام کی تکمیل کردی اور کوئی مقام ایسا نہ رہا جہاں پیغام رسالت کو پہنچایا نہ گیا اس کی مزید وضاحت آگے سورة نصر میں آنے والی ہے۔ (ارغب) تو دل لگا ، تو رغبت کر رغبۃ سے جس کے معنی دل لگانے اور متوجہ ہونے کے ہیں ۔ امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر۔ جو پہلے ہی رغبت کر رہا ہو اور خوب رغبت کر رہا ہو اس کو مزید تاکید کرنا کیا مطلب اپنے اندر رکھتا ہے ؟ یہی کہ جو رغبت نہ رکھتے ہوں ان کو باور کرایا جائے یہ کام رغبت رکھنے کے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بار بار تاکید مزید کی جا رہی ہے اور ایک کو کہہ کر دوسرے کو سمجھانے کا یہی مطلب ہوتا ہے اور تفہیم کا یہ طریقہ قرآن کریم میں عام ہے کہ مخاطب سے کچھ کہا ہی نہیں اور جو کچھ کہا جاسکتا تھا وہ سب کچھ کہہ بھی دیا ہے ۔ یہی وہ ہدایت ہے جس ہدایت نے آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف زیادہ راغب کردیا اور جہاں آپ ﷺ قرآن کریم کا ایک دور جبریل سے کرتے تھے اس سال دو دور کرلیے اور جہاں آپ ﷺ ایک عشرہ کا اعتکاف کرتے تھے اس سال دو عشرہ کا کرلیا اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اس طرح منہمک ہوگئے کہ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے ہو کر رہ گئے اور اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کا ہوگیا اور یہ بات قابل بحث نہیں ہے کہ کیا پہلے آپ ﷺ اللہ کے نہیں تھے ؟ کیوں نہیں۔ مطلب بیان فقط یہ ہے کہ ایک آدمی کے ایک اللہ کا ہوجانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ عبادت میں پہلے سے بھی زیادہ سر گرم عمل ہوجائے نہ یہ کہ عبادت کی پابندیوں سے وہ مستثنیٰ قرار دے دیا جائے جیسا کہ جہلاء کا خیال ہے اور بحمد اللہ اسی مضمون پر ہم سورة الانشراح کی تفسیر کو ختم کر رہے ہیں ۔ ربنا افرغ علینا صبر اوثت اقدامنا فانصر نا علی القوم الکافرین۔
Top