Tafseer-e-Usmani - An-Noor : 16
وَ لَوْ لَاۤ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ قُلْتُمْ مَّا یَكُوْنُ لَنَاۤ اَنْ نَّتَكَلَّمَ بِهٰذَا١ۖۗ سُبْحٰنَكَ هٰذَا بُهْتَانٌ عَظِیْمٌ
وَلَوْلَآ : اور کیوں نہ اِذْ : جب سَمِعْتُمُوْهُ : تم نے وہ سنا قُلْتُمْ : تم نے کہا مَّا يَكُوْنُ : نہیں ہے لَنَآ : ہمارے لیے اَنْ نَّتَكَلَّمَ : کہ ہم کہیں بِھٰذَا : ایسی بات سُبْحٰنَكَ : تو پاک ہے ھٰذَا : یہ بُهْتَانٌ : بہتان عَظِيْمٌ : بڑا
اور کیوں نہ جب تم نے اس کو سنا تھا کہا ہوتا ہم کو نہیں لائق کہ منہ پر لائیں یہ بات اللہ تو پاک ہے یہ تو بڑا بہتان ہے3
3 یعنی اول تو حسن ظن کا اقتضاء یہ تھا کہ دل میں بھی یہ خیال نہ گزرنے پائے۔ جیسا کہ اوپر ارشاد ہوا۔ لیکن اگر شیطانی اغواء سے فرض کیجئے کسی کے دل میں کوئی برا وسوسہ گزرے تو پھر یہ جائز نہیں کہ ایسی ناپاک بات زبان پر لائی جائے۔ چاہیے کہ اس وقت مومن اپنی حیثیت اور دیانت کو ملحوظ رکھے اور صاف کہہ دے کہ ایسی بےسروپا بات کا زبان سے نکالنا مجھ کو زیب نہیں دیتا۔ اے اللہ تو پاک ہے۔ کسی طرح لوگ ایسی نامعقول بات منہ سے نکالتے ہیں۔ بھلا جس پاکباز خاتون کو تو نے سید الانبیاء اور راس المتقین کی زوجیت کے لیے چنا، کیا وہ (معاذ اللہ) خود بےآبرو ہو کر پیغمبر کی آبرو کو بٹہ لگائے گی (حاشاہا ثم حاشاہا) ہو نہ ہو دشمنوں نے ایک بےقصور پر بہتان باندھا ہے۔
Top