Tafseer-e-Usmani - Aal-i-Imraan : 164
یُنَادُوْنَهُمْ اَلَمْ نَكُنْ مَّعَكُمْ١ؕ قَالُوْا بَلٰى وَ لٰكِنَّكُمْ فَتَنْتُمْ اَنْفُسَكُمْ وَ تَرَبَّصْتُمْ وَ ارْتَبْتُمْ وَ غَرَّتْكُمُ الْاَمَانِیُّ حَتّٰى جَآءَ اَمْرُ اللّٰهِ وَ غَرَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ
يُنَادُوْنَهُمْ : وہ پکاریں گے ان کو اَلَمْ : کیا نہ نَكُنْ : تھے ہم مَّعَكُمْ ۭ : تمہارے ساتھ قَالُوْا : وہ کہیں گے بَلٰى : کیوں نہیں وَلٰكِنَّكُمْ : لیکن تم نے فَتَنْتُمْ : فتنے میں ڈالا تم نے اَنْفُسَكُمْ : اپنے نفسوں کو وَتَرَبَّصْتُمْ : اور موقعہ پرستی کی تم نے وَارْتَبْتُمْ : اور شک میں پڑے رہے تم وَغَرَّتْكُمُ : اور دھوکے میں ڈالا تم کو الْاَمَانِيُّ : خواہشات نے حَتّٰى جَآءَ : یہاں تک کہ آگیا اَمْرُ اللّٰهِ : اللہ کا فیصلہ وَغَرَّكُمْ : اور دھوکے میں ڈالا تم کو بِاللّٰهِ : اللہ کے بارے میں الْغَرُوْرُ : بڑے دھوکے باز نے
یہ ان کو پکاریں گے کیا ہم نہ تھے تمہارے ساتھ8 کہیں گے کیوں نہیں لیکن تم نے بچلا دیا اپنے آپ کو اور راہ دیکھتے رہے اور دھوکے میں پڑے اور بہک گئے اپنے خیالوں پر یہاں تک کہ آپہنچا حکم اللہ کا اور تم کو بہکا دیا اللہ کے نام سے اس دغا باز نے1
8  قصہ یہ ہے کہ کھلے ہوئے کافر پل صراط پر نہیں چلیں گے پہلے ہی دوزخ میں اس کے دروازوں سے دھکیل دیے جائیں گے ہاں جو کسی نبی کی امت میں ہیں سچے یا کچے انہیں پل صراط سے گزرنے کا حکم ہوگا۔ اس پر چڑھنے سے پہلے ایک سخت اندھیری لوگوں کو گھیر لے گی۔ اس وقت ایمان والوں کے ساتھ روشنی ہوگی۔ منافق بھی ان کی روشنی میں پیچھے پیچھے چلنا چاہیں گے لیکن مومن جلد آگے بڑھ جائیں گے اس لیے ان کی روشنی منافقین سے دور ہوتی جائے گی تب وہ پکاریں گے کہ میاں ذرا ٹھہرو، ہم کو اندھیرے میں پیچھے چھوڑ کر مت جاؤ۔ تھوڑا انتظار کرو کہ ہم بھی تم سے مل جائیں اور تمہاری روشنی سے استفادہ کریں۔ آخر ہم دنیا میں تمہارے ساتھ ہی رہتے تھے اور ہمارا شمار بھی بظاہر مسلمانوں میں ہوتا تھا اب اس مصیبت کے وقت ہم کو اندھیرے میں پڑا چھوڑ کر کہاں جاتے ہو کیا رفاقت کا حق یہ ہی ہے۔ جواب ملے گا کہ پیچھے لوٹ کر روشنی تلاش کرو اگر مل سکے تو وہاں سے لے آؤ۔ یہ سن کر پیچھے ہٹیں گے اتنے میں دیوار دونوں فریق کے درمیان حائل ہوجائے گی۔ یعنی روشنی دنیا میں کمائی جاتی ہے وہ جگہ پیچھے چھوڑ آئے، یا پیچھے سے وہ جگہ مراد ہو جہاں پل صراط پر چڑھنے سے پہلے نور تقسیم کیا گیا تھا۔ 1 یعنی بیشک دنیا میں بظاہر تم ہمارے ساتھ تھے اور زبان سے دعویٰ اسلام کا کرتے تھے۔ لیکن اندرونی حال یہ تھا کہ لذات و شہوات میں پڑ کر تم نے نفاق کا راستہ اختیار کیا اور اپنے نفس کو دھوکا دے کر ہلاکت میں ڈالا۔ پھر توبہ نہ کی بلکہ راہ دیکھتے رہے کہ کب اسلام اور مسلمانوں پر کوئی افتاد پڑتی ہے اور دین کے متعلق شکوک و شبہات کی دلدل میں پھنسے رہے۔ یہ ہی دھوکا رہا کہ آگے ان منافقانہ چالوں کا کچھ خمیازہ بھگتنا نہیں۔ بلکہ یہ خیالات اور امیدیں پکا لیں کہ چند روز میں اسلام اور مسلمانوں کا یہ سب قصہ ٹھنڈا ہوجائے گا۔ آخر ہم ہی غالب ہوں گے۔ رہا آخرت کا قصہ سو وہاں بھی کسی نہ کسی طرح چھوٹ ہی جائیں گے۔ ان ہی خیالات میں مست تھے کہ اللہ کا حکم آپہنچا اور موت نے آدبایا اور اس بڑے دغا باز (شیطان) نے تم کو بہکا کر ایسا کھو دیا کہ اب سبیل رستگاری کی نہیں رہی۔
Top