Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 163
هُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِمَا یَعْمَلُوْنَ
ھُمْ : وہ۔ ان دَرَجٰتٌ : درجے عِنْدَ : پاس اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ بَصِيْرٌ : دیکھنے ولا بِمَا : جو يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں
اللہ کے ہاں ان کے درجے الگ الگ ہوں گے اور یہ جو کچھ کررہے ہیں اللہ اس کو دیکھ رہا ہے
لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلاً مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰـتِـہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْـکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰـلٍ مُّبِیْنٍ ۔ (تحقیق اللہ نے مومنوں پر احسان فرمایا ہے کہ انھیں میں سے ایک رسول مبعوث فرمایا جو ان کو اس کی آیتیں سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور ان کو شریعت اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے، بیشک یہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے) (164) آنحضرت ﷺ کی بعثت اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے، کیوں ؟ یہ آیت تھوڑے سے فرق کے ساتھ سورة البقرۃ میں گزر چکی ہے۔ وہاں اس کے تمام اجزا کی وضاحت ہوچکی ہے۔ یہاں شاید یہ بتانا مقصود ہے کہ یہ بدبخت منافقین جس پر خیانت اور بدخواہی کا الزام لگا رہے ہیں۔ اس ذات والا صفات کی اہمیت اللہ کے احسانِ عظیم کی سی ہے پروردگار نے انسانوں پر بیشمار احسانات کیے ہیں لیکن کسی احسان کو جتلانا گوارا نہیں فرمایا حالانکہ ان میں سے ایک ایک احسان اس قابل ہے کہ آدمی ساری زندگی اس کے شکر میں گزار دے تو اس کا حق ادانھیں ہوسکتا لیکن اللہ تعالیٰ نے کسی احسان کا ذکر کرنا پسند نہیں فرمایا بجز اس احسان کے، اور واقعہ بھی یہ ہے کہ کائنات میں سب سے بڑی مخلوق اور کائنات کا گل سرسبد ” انسان “ ہے۔ اسی کی وجہ سے دنیا میں سرگرمی ہے، رونق ہے، اس کی صلاحیتوں کے سامنے دنیا کی بڑی سے بڑی قوت ہیچ ہے۔ اس کے عزائم کے سامنے پہاڑوں کی بلندی سرنگوں ہے۔ اس نے لوہے میں قوت پرواز پیدا کی ہے۔ اس نے چند دھاتوں کے ڈبے میں انسانی دماغ اور حافظے کی قوت پیدا کردی ہے۔ اس نے ایسے کیمرے ایجاد کیے ہیں جو زمین کے ناقابلِ عبور حصوں کی تصویریں کھینچ رہے ہیں۔ اس کے راکٹ اور سیارے خلا کو عبور کررہے ہیں۔ اس کے دل کی قوتوں کے سامنے سمندروں کی گہرائیاں ہیچ ہیں۔ اس کے دماغ کی وسعتوں کے مقابلے میں کائنات کی وسعتیں محدود ہیں۔ اس کے آنسوئوں کی گرمی سے فضا کی پہناہیاں پگھلنے لگتی ہیں۔ اس کے سوز و گداز سے عالم ملکوت میں حیرانیاں ہیں۔ اس کی عبادت کا شوق اور اس کی قربانیوں کا جوش ملائے اعلیٰ میں بھی اس کے تذکرے کا باعث بنتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے بیشمار احسانات میں سے چند احسانات ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان میں سے کسی کا بھی احسان نہیں جتلایاکیون کہ یہ تمام صلاحیتیں اور نعمتیں اللہ تعالیٰ کی دین ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی اپنی منفرد حیثیت نہیں رکھتی۔ ان صلاحیتوں کا اچھا یا برا ہونا، بالا قیمت یا کم قیمت ہونا اس کا تعلق حضرت انسان سے ہے۔ اگر انسان کے ارادوں میں کمزوری ہے، اس کی نیت میں فساد ہے، اس کے دل میں اخلاص کی کمی ہے، اس کی جہتِ سفر غیر واضح ہے، اس کی منزل نامعلوم ہے، اس کے زاویہ نگاہ میں کجی ہے، تو وہ اپنی ساری خصوصیات کے باوجود انسانیت کے لیے بدنماداغ ہے۔ لیکن اگر اس کے ارادوں میں مضبوطی، اس کے دل میں اخلاص، اس کے اخلاص میں سوز و گداز کی کارفرمائی اور اس کی جہتِ سفر واضح اور منزل معلوم ومعین ہے تو یہ انسان کائنات کا گل سرسبد اور کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ رسول اللہ ﷺ اس لیے اللہ کا سب سے بڑا احسان ہیں کہ انھوں نے انسان کی تمام توانائیوں اور رعنائیوں کو صراط مستقیم پر قائم رکھنے کے لیے کامیابی سے محنت فرمائی۔ آپ نے اس مشت خاک کو ارادوں کی وسعت، استقلال کی عظمت، دلوں کا اخلاص، احساس کا سوز و گداز ‘ جہتِ سفر معلوم اور ہموار اور منزل متعین فرماکر ایک ایسا اعلیٰ و برتر وجود بنایا کہ جس پر فرشتے بھی رشک کرنے لگے اور ایسے نمونے کے انسان تیار کیے جس کی نظیر اس سے پہلے چشم فلک نے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ اس کا اسوہ انسانوں کی زندگی کی ضمانت ہے۔ اس کی تعلیم انسانی فکر کی صحت کی علامت ہے۔ وہ جب تک نہ آیا تھا تو دنیا نمرود اور فرعون، ہامان اور شدّاد جیسے انسانوں سے بھرپور تھی لیکن ان کے خلاف کوئی احتجاج نہ تھا۔ اس کے آجانے کے بعد انسان کو حقیقی شعور نصیب ہوا۔ آج اگرچہ برائی کی علامتیں توانا ہوگئی ہیں لیکن ان کے خلاف احتجاج اور شدت احساس اسی کی دین ہے اور یہ جب تک زندہ ہے انسان کی قسمت دھندلا تو سکتی ہے مردہ نہیں ہوسکتی۔ اَوَلَمَّـآ اَصَابَتْـکُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَدْ اَصَبْتُمْ مِّثْلَیْھَا لا قُلْـتُمْ اَنّٰی ھٰذَا ط قُلْ ھُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِکُمْ ط اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔ (اور کیا جب تمہیں ایک مصیبت پہنچی کہ پہنچاچکے تھے تم اس سے دونی، تو تم نے کہا کہ یہ کہاں سے آگئی ؟ کہہ دو ! یہ تمہارے اپنے ہی پاس سے ہے، بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے) (165) ” اَ “ حرف استفہام ہے اور ” و “ حرف ربط ہے۔ یہ حرف استفہام اظہارِ تعجب کے لیے ہے اور حرف ربط اس بات کی دلیل ہے کہ یہ بات بھی منجملہ ان اعتراضات کے ایک اعتراض ہے جس کے جواب اوپر دیئے گئے ہیں۔ ایک سوال اور اس کا جواب پیچھے یہ بات گزر چکی ہے کہ کچھ لوگوں نے اپنے طور پر حق و باطل کی کشمکش کے حوالے سے تصورات بنارکھے تھے۔ ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ جب کبھی حق و باطل کی کشمکش ہو اور ان میں خود اللہ کے نبی موجود ہوں تو یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ ایسی صورت میں اہل حق کو شکست ہو۔ اللہ کا نبی چونکہ دنیا میں اللہ کانمائندہ ہے اس لیے اللہ اپنے نمائندہ کو کبھی شکست سے دوچار نہیں ہونے دیتا۔ اس کی مدد کے لیے آسمانوں سے فرشتے اتارتا ہے اس تصور کی موجودگی میں جب انھیں احد کی شکست سے دوچار ہونا پڑا تو ان کے لیے یہ بات سمجھنا مشکل ہوگیا کہ آخر یہ شکست کیسے ہوگئی ؟ وہ سوچ میں ڈوب گئے کہ اگر محمد رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کے سچے نبی ہیں تو پھر شکست ہوجانے کا کیا مطلب ؟ منافقین نے ان کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھایا اور آہستہ آہستہ ان کے دلوں میں آنحضرت ﷺ اور خود دین کے بارے میں مختلف قسم کی غلط فہمیاں پیدا کردیں۔ وہ باربار اس شکست کا حوالہ دیتے تھے کہ یہ شکست آخر کہاں سے آگئی ؟ قرآن کریم نے اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ تم اگر آج اس نقصان سے دوچار ہوئے ہو تو اس سے ایک سال پہلے میدانِ بدر میں تم کفار کو دوگنانقصان پہنچا چکے ہو۔ یعنی تمہارے ستر افراد شہید ہوئے تو ان کے بھی ستر افراد مارے گئے اور ستر گرفتار ہوئے اور اس جنگ میں بھی پہلے مرحلے پر تم نے ان کے کئی افراد مارڈالے اور وہ شکست کھاکر بھاگے بعد میں حالات نے تمہاری غلطیوں کی وجہ سے پلٹا کھایا اور تمہاری فتح شکست میں تبدیل ہوگئی۔ جہاں تک اللہ کی طرف سے تائید اور نصرت کا تعلق ہے اس نے جنگ کے پہلے مرحلے میں تمہیں فتح یاب فرمایا تھا۔ لیکن تم نے اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں سے جیتی ہوئی جنگ کو شکست میں تبدیل کردیاتو اب تم پوچھتے ہو کہ یہ شکست کہاں سے آگئی۔ اس شکست کا سبب کوئی اور نہیں بلکہ تم خود ہو۔ یہ شکست تمہارے نفسوں کی طرف سے آئی ہے۔ اللہ تو ہر چیز پر قادر ہے، وہ اپنے بندوں کو فتح سے بھی نواز سکتا ہے اور اگر اس کے بندے کہلاتے ہوئے بھی نافرمانی کریں، تو شکست سے بھی دوچار کرسکتا ہے۔
Top