Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 226
لِلَّذِیْنَ یُؤْلُوْنَ مِنْ نِّسَآئِهِمْ تَرَبُّصُ اَرْبَعَةِ اَشْهُرٍ١ۚ فَاِنْ فَآءُوْ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
لِلَّذِيْنَ
: ان لوگوں کے لیے جو
يُؤْلُوْنَ
: قسم کھاتے ہیں
مِنْ
: سے
نِّسَآئِهِمْ
: عورتیں اپنی
تَرَبُّصُ
: انتظار
اَرْبَعَةِ
: چار
اَشْهُرٍ
: مہینے
فَاِنْ
: پھر اگر
فَآءُوْ
: رجوع کرلیں
فَاِنَّ
: تو بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
غَفُوْرٌ
: بخشنے والا
رَّحِيْمٌ
: رحم کرنے والا
جو لوگ اپنی عورتوں کے پاس جانے سے قسم کھا لیں ان کو چار مہینے تک انتظار کرنا چاہئے اگر (اس عرصے میں قسم سے) رجوع کرلیں تو خدا بخشنے والا مہربان ہے
ایلاء کا بیان قول باری والذین یویون من نساء ھم تربص اربعۃ اشھر جو لو اپنی بیویوں سے ہمبستری نہ کرنے کی قسم کھا بیٹھتے ہیں ان کے لئے مہلت چار ماہ تک ہے) ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ لغت میں ایلاء حلف کو کہتے ہیں۔ چناچہ عرب کہتے ہیں الی یولی ایلاء والیۃ) کثیر کا شعر ہے۔ قلیل الا لا یا حافظ لیمینہ و ان مدرت منہ الایہ برت۔۔ میرا ممدوح بہت کم قسمتیں کھاتا ہے لیکن اپنی کھائی ہوئی قسم کی حفاظت پوری طرح کرتا ہے اور اگر اس کے منہ سے کوئی قسم نکل جائے تو وہ پوری ہوسکتی ہے۔ لغت میں ایلاء کے اصل معنی یہی ہیں۔ شریعت میں ایلاء بیوی کے ساتھ ہمبستری ترک کرنے کی قسم کو کہتے ہیں جس کے نتیجے میں مدت گزرنے کے ساتھ ہی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ حتی کہ اگر کوئی شخص یہ فقرہ کہے ” آلی فلان من امراتہ (فلاں نے اپنی بیوی سے ایلا کرلیا) تو اس سے درج بالا مفہوم ہی سمجھ میں آتا ہے۔ ایک شخص کس قسم کی قسم کھا کر ایلاء کرنے والا (مولی) بنتا ہے۔ اس کے متعلق اہل علم کے درمیان اختلاف کی کئی صورتیں ہیں۔ ایک تو وہ صورت ہے جس کی روایت حضرت علی ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ سے حسن بصری اور عطاء بن ابی رباح نے کی ہے کہ اگر کوئی شخص یہ قسم کھائے کہ وہ رضاعت کی بنا پر عورت سے قربت نہیں کرے گا تو ایسا شخص مولی نہیں ہوگا۔ مولی صرف اس وقت بنے گا جب غصے کی بنا پر اہ ربیوی کو نقصان پہنچانے کی غرض سے قسم کھائے کہ وہ اس کے ساتھ ہمبستری نہیں کرے گا۔ دوسری روایت حضرت ابن عباس ؓ سے ہے کہ ہر وہ قسم جو جماع کے لئے رکاوٹ بن جائے ایلاء ہے۔ اس کے اندر رضا اور غضب کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے یہی ابراہیم نخعی، ابن سیرین اور شعبی کا قول ہے۔ تیسری وہ صورت ہے جس کی روایت سعید بن المسیب سے کی گئی ہے کہ اس کا تعلق جماع اور غیر جماع جیسی باتوں سے ہے مثلا یہ قسم کھالے کہ وہ بیوی سے بات نہیں کرے گا اس سے وہ شخص مولی بن جائے گا۔ جعفر بن برقان نے یزیدبن الاصم سے یہ نقل کیا ہے کہ میں نے ایک عورت سے نکاح کرلیا پھر میری ملاقات حضرت ابن عباس ؓ سے ہوئی۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے یہ اطلاع ملی ہے اس کے اخلاق و عادات اچھے نہیں ہیں۔ یہ سن کر میں نے کہا ” بخدا وہ جا چکی ہے اور اب میں اس سے بات تک بھی نہیں کروں گا “۔ یہ سن کر حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا ” چار ماہ گزرنے سے پہلے پہلے تم اس کے پاس چلے جائو “۔ حضرت ابن عباس ؓ کا یہ قول سعید بن المسیب کے قول اور حضرت ابن عمر ؓ کے اس قول کی موافقت پر دلالت کرتا ہے کہ قسم کھائے بغیر کنارہ کشی بھی ایلاء کی ایک صورت ہے۔ چوتھی صورت وہ ہے جو حضرت ابن عمر ؓ کے اس قول پر مشتمل ہے کہ اگر اس نے اپنی بیوی کو چھوڑ دیا اور اس سے کنارہ کشی کرلی تو یہ ایلاء ہے حضرت ابن عمر ؓ نے اس میں قسم اٹھانے کا ذکر نہیں کیا۔ جن لوگوں نے بیوی کو نقصان پہنچانے کی خاطر ترک جماع اور نقصان نہ پہنچانے کے ارادے سے اس کے ترک میں فرق کیا ہے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ جماع عورت کا حق ہے جس کا وہ مطالبہ بھی کرسکتی ہے اور شوہر کو اسے اس حق سے محروم کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ اس لئے اگر وہ قسم کھا کر بیوی کے حق جماع کا تارک بن جائے گا تو وہ مولی ہوگا یہاں تک کہ بیوی اپنی علیحدگی کے حق تک پہنچا جائے اس لئے کہ مرد کے لئے اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہے کہ اسے معروف طریقے سے اپنی بیوی بنائے رکھے یا حسن سلوک کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے چھوڑ دے۔ اگر ترک جماع سے اس کا ارادہ کسی بھلائی کا ہو مثلا بیوی بچے کو دودھ پلاتی ہو اور شوہر اس سے ہمبستری نہ کرنے کی قسم کھالے تاکہ ہمبستری سے دودھ خراب ہوجانے کی بنا پر بچے کو نقصان نہ پہنچے۔ تو اس صورت میں بیوی کو اس کے حق سے محروم کرنے کا کوئی ارادہ شامل نہیں ہوگا اور نہ ہی معروف طریقے سے اسے بیوی بنائے رکھنے کی کوئی خلاف ورزی ہوگی۔ اس لئے تیسری بات یعنی بھلے طریقے سے اسے چھوڑ دینا اس پر لازم نہیں آئے گی اور نہ ہی اس کی اس قسم کی بنا پر جدائی کا حکم متعلق ہوگا۔ قول باری فان فادا قا ن اللہ غفوررحیم۔ اگر وہ پلٹ آئیں تو اللہ غفور ورحیم ہے) سے ان لوگوں کا استدلال ہے جو ایلاء کی قسم میں نقصان پہنچانے کے قصد کو بھی شامل کرتے ہیں اس لئے کہ یہ قول باری اس کا مقتضی ہے کہ وہ ایسی قسم کھا کر گنہگار بن جائے کہ اب اس کا رجوع کرلینا اس کے گناہ کی بخشش کا متقاضی ہو۔ ہمارے نزدیک یہ آیت مذکورہ بالا شخص کی تخصیص پر دلالت نہیں کرتی اس لئے کہ آیت ان تمام لوگوں کو شامل ہے جو ایلاء کرتے ہیں اور یہ شخص (یعنی نقصان پہنچانے کے ارادے سے ایلاء کرنے والا) بھی ان میں سے ایک ہے اس لئے بخشش کا حکم صرف اس کی طرف لوٹا ہے دوسروں کی طرف اس کا رجوع نہیں ہوا۔ ایلاء کے معاملے میں مطیع اور عاصی یعنی فرمانبردار اور نافرمان دنوں کی حالت کی یکسانیت پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ قسم توڑنے کی صورت میں دونوں پر ہی کفارہ لازم آتا ہے۔ اسی طرح مدت گزر جانے پر طلاق کے ایجاب کے سلسلے میں ان دونوں کا یکساں ہونا واجب ہے۔ نیز ایسی تمام قسمیں جو سچے ارادے سے کھائی جاتی ہیں ان میں فرمانبردار اور نافرمان کے حکم میں کوئی فرق نہیں ہوتا اس لئے کہ جہاں تک کفارہ کے وجوب کا تعلق ہے وہ دونوں صورتوں میں واجب ہو کر رہتا ہے۔ اس لئے طلاق کا حکم بھی دونوں صورتوں میں ایک ہی ہونا چاہیے کیونکہ کفارہ اور طلاق دونوں ہی کا تعلق قسم کے ساتھ ہوتا ہے ایک اور پہلو بھی ہے خواہ کسی نے نقصان پہنچانے کے ارادے سے اپنی بیوی کو طلاق دی ہو یا نقصان پہنچانے کا ارادہ نہ ہو جہاں تک رجوع کا تعلق ہے۔ اس کے لحاظ سے دونوں صورتوں میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہاں ایلاء کی صورت میں بھی ایسا ہی ہونا چاہیے اس لئے کہ آیت نے مطیع اور عاصی کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا ہے اس لئے آیت سب کو عام ہے تاہم فقہائے امصار اس سلسلے میں اختلاف رائے رکھتے ہیں۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی قسم میں بیوی کو اس طرح تنگ کرنے کا ارادہ کرے کہ اس کے ساتھ بول چال وغیرہ بند کر دے تو وہ مولی ہوجائے گا۔ ان کا یہ قول بےمعنی ہے اس لئے کہ قول باری للذین یولون من نساء ھم۔ کے متعلق کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ اس میں ترک جماع کی قسم پوشیدہ ہے۔ کیونکہ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ ترک جماع کی قسم کھانے والا مولی ہوتا ہے اس لئے ترک جماع کو سب کے نزدیک آیت میں پوشیدہ مانا جائے گا جسے ہم نے ثابت کردیا۔ اب اس کے سوا دوسری باتیں مثلا ترک کلام وغیرہ تو آیت میں اسے پوشیدہ ماننے کے لئے کوئی دلالت قائم نہیں ہوئی اس لئے اسے پوشیدہ نہیں مانا جائے گا۔ ہماری اس بات پر یہ قول باری فان فاوافان اللہ غفور رحیم) بھی دلالت کرتا ہے کیونکہ یہ بات واضح ہے سب کے نزدیک پلٹنے اور واپس ہونے سے مراد ہمبستری ہے سلف میں اس کے متعلق کوئی اختلاف نہیں ہے۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ قول باری للذین یولون من نسائھم) میں جو بات پوشیدہ ہے وہ جماع ہے اس کے سوا اور کوئی چیز مثلاً کلام وغیرہ پوشیدہ نہیں ہے۔ رہ گئی وہ روایت جو حضرت ابن عمر ؓ سے ہے کہ ہجران یعنی کنارہ کشی طلاق کو واجب کردیتی ہے۔ تو یہ قول شاذ ہے تاہم اس میں اس کی گنجائش ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ نے اس سے یہ مراد لی ہو کہ جب کوئی شخص قسم کھالے اور پھر ایلاء کی مدت میں اس سے کنارہ کش رہے تو طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ لیکن اس تاویل کے باوجود حضرت ابن عمر ؓ کا یہ قول کتاب اللہ کے خلاف ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا للذین یولون من نساء ھم اور لفظ الیہ کا معنی حلف یا قسم ہے جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں اب بیوی کو چھوڑ دینا یا اس سے علیحدہ رہنا قسم نہیں ہے۔ اس لئے اس کے ساتھ کفارہ کے وجوب کا تعلق نہیں ہوگا۔ اشعث نے روایت کی ہے کہ حضرت انس بن مالک ؓ کے پاس ایک عورت تھی جو بڑی بدخلق تھی۔ حضرت انس پانچ یا چھ مہینے اس سے الگ رہتے پھر اس کے پاس آجاتے لیکن آپ اسے ایلاء نہیں سمجھتے تھے۔ سلف اور ان کے بعد آنے والے فقہائے امصار میں اس مدت کے متعلق اختلاف ہے۔ جس کی قسم کھا کر ایک شوہر مولی بن سکتا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ اور سعید بن جبیر ؓ کا قول ہے کہ اس نے چار ماہ سے کم مدت کی قسم کھائی اور چار ماہ ہمبستری سے باز رہا تو وہ مولی نہیں ہوگا۔ یہی ہمارے اصحاب، امام مالک، امام شافعی اور اوزاعی کا قول ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ، ابراہیم نخعی، الحکم، قتادہ اور حماد بن ابی سلمہ کا قول ہے کہ وہ مولی ہوجائے گا اگر وہ اس سے چار ماہ تک علیحدہ رہے گا۔ اس کے بعد وہ عورت طلاق بائن کی وجہ سے اس سے علیحدہ ہوجائے گی۔ ابن شیرمہ اور حسن بن صالح کا بھی یہی قول ہے حسن بن صالح نے مزید کہا ہے کہ اسی طرح اگر کسی نے یہ قسم کھائی کہ وہ اپنی بیوی سے اس گھر میں قربت نہیں کرے گا تو وہ مولی بن جائے گا۔ اگر اس نے اسے چار ماہ چھوڑے رکھا تو وہ ایلاء کی بنا پر بائن ہوجائے گی۔ اگر اس نے کسی اور گھر میں مدت گزرنے سے پہلے اس سے قربت کرلی تو ایلاء ساقط ہوجائے گا۔ اسی طرح اگر کسی نے یہ قسم اٹھالی کہ وہ اس گھر میں داخل نہیں ہوگا جبکہ اس گھر میں اس کی بیوی رہتی ہو اور اس نے بیوی کی خاطر یہ قسم اٹھائی ہو تو وہ مولی بن جائے گا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قول باری ہے للذین یولون من نسائھم تربص اربعۃ اشھر) ایلاء قسم کو کہتے ہیں۔ ہم پہلے ثابت کر آئے ہیں کہ قسم کے بغیر ترک جماع سے ایلاء کا حکم نہیں لگتا۔ اگر کوئی شخص ترک جماع کی قسم کھالے اور مدت چار ماہ سے کم ہو، پھر قسم کی مدت گزر جائے تو وہ باقی ماندہ مدت میں بھی تارک جماع ہوگا لیکن یہ باقی ماندہ مدت قسم کے بغیر گزرے گی اور قسم کے بغیر ترک جماع کا عورت کے بائن ہونے کے وجوب پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ نیز چار ماہ سے کم کی مدت سے بھی بائن ہونے کا حکم عائد نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے شوہر کے لئے مہلت کی مدت چار ماہ رکھی ہے اس کے بعد اب علیحدگی کو واجب کرنے کے لئے کوئی وجہ باقی نہیں رہ جاتی اور شوہر کی حیثیت اس شخص جیسی ہوجاتی ہے جو قسم کے بغیر جماع سے کنارہ کشی اختیار کرلے۔ اس لئے اسے ایلاء کا حکم لاحق نہیں ہوگا۔ حسن بن صالح کا یہ قول بےمعنی ہے کہ اگر وہ یہ قسم کھالے کہ اس گھر میں بیوی سے قربت نہیں کرے گا تو اس صورت میں وہ مولی بن جائے گا۔ اس لئے کہ ایلاء ہر اس قسم کو کہتے ہیں جو بیوی کے متعلق کھائی جائے اور جو چار ماہ تک اس کے ساتھ ہمبستری سے مانع ہوجائے اور وہ یہ قسم بھی نہ توڑے جیسا کہ ہم اس کی وضاحت کر آئے ہیں۔ اب اس شخص کی کھائی ہوئی یہ قسم ایسی ہے جو اس مدت میں بیوی سے ہمبستری کے راستے میں اس کے لئے رکاوٹ نہیں بن سکتی ہے اس لئے کہ قسم توڑے بغیر اس کے لئے بیوی سے قربت ممکن ہے مثلا یہ کہ کسی اور گھر میں اس سے قربت کرلے۔ جو شخص پورے چار ماہ ترک جماع کی قسم کھالے اس کے متعلق فقہاء کے درمیان اختلاف ہے امام ابوحنیفہ، ابویوسف، محمد، زفر اور سفیان ثوری کا قول ہے کہ ایسا شخص مولی ہوگا اور اگر اس مدت کے اندر اس سے قربت نہیں کرے گا یہاں تک کہ مدت گزر جائے تو ایلاء کی بنا پر عورت بائن ہوجائے گی۔ عطاء نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ اہل جاہلیت کا ایلاء کا ایک یا دو سال کا ہوتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے اس کی مدت چار ماہ مقرر کردی۔ اب جس شخص کا ایلاء اس سے کم مدت کا ہوگا وہ مولی نہیں کہلائے گا۔ امام مالک اور امام شافعی کا قول یہ ہے کہ اگر اس نے چار ماہ کی قسم کھائی تو مولی نہیں بنے گا۔ چار ماہ سے زائد کی قسم پر وہ مولی قرار پائے گا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ظاہر کتاب اس قول کی تردید کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا للذین یولون من نسائھم تربص اربعۃ اشھر) اللہ تعالیٰ نے اس مدت کی مہلت کو پلٹنے اور رجوع کرلینے کی مدت قرار دی۔ اس سے زائد مدت کو نہیں اب جو شخص اس مدت میں قسم کی وجہ سے ہمبستری سے باز رہا اس نے ایلاء کا حکم یعنی طلاق کی راہ ہموار کردی۔ اس لحاظ سے حکم میں کوئی فرق نہیں ہوگا خواہ اس نے ترک جماع کے لئے چار ماہ کی قسم کھائی ہو یا اس سے زائد مدت کی۔ اس لئے کہ زائد مدت اس کے لئے مہلت کی مدت نہیں ہے۔ معہذاظاہر کتاب ایسے شخص کے مولی بننے کا متقاضی ہے خواہ اس نے چار ماہ یا اس سے کم یا اس سے زائد مدت کی قسم کھائی ہو۔ اس لئے کہ حلف کی مدت کا آیت میں ذکر نہیں ہے پھر ہم نے چار ماہ سے کم مدت کی تخصیص دلالت کی بنا پر کی ہے۔ اس لئے لفظ کا حکم چار ماہ یا اس سے زائد مدت کے لئے بحالہ باقی رہے گا۔ اگر یہ کہا جائے کہ اگر کسی نے پورے چار ماہ کی قسم کھائی تو اس کے ساتھ طلاق کا تعلق درست نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ آپ اس مدت کے گزرنے پر طلاق واقع کرتے ہیں لیکن مدت گزرنے کے بعد ایلاء کا وجود نہیں ہے۔ اس لئے طلاق واقع کرنا درست نہیں ہوگا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ طلاق واقع کرنا ممتنع نہیں ہے اس لئے مدت کا گزر جانا جب ایقاع طلاق کا سبب ہے تو وقوع طلاق کے وقت قسم کے باقی رہنے کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ سال کا گزر جانا جب وجوب زکواۃ کے لئے سبب قرار پایا تو اب ضروری نہ رہا کہ وجوب کے وقت سال بھی موجود ہو کیونکہ اس وقت گزر کر معدوم ہوچکا ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ تونے اگر فلاں شخص کے ساتھ گفتگو کی تو تجھے طلاق تو اس قول کی حیثیت سچے دل سے کھائی ہوئی قسم کی ہوگی۔ اگر عورت نے اس شخص سے گفتگو کرلی تو فوری طور پر طلاق واقع ہوجائے گی۔ حالانکہ عورت کے حق میں کھائی ہوئی قسم گزر گئی اور ختم ہوگئی۔ اسی طرح جب ایلاء میں مدت کا گزر جانا وقوع طلاق کا سبب ہے تو قسم کی غیر موجودگی میں طلاق واقع ہونے میں کوئی امتناع نہیں ہوگا۔ قول باری ہے فان فاوا فان اللہ غفور رحیم) ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ لغت میں الفی کسی چیز کی طرف رجوع کو کہتے ہیں۔ قول باری حتی لفی الی امر اللہ فان فائوت فاصلحوا بینھما بالعدل۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے۔ اگر وہ یعنی زیادتی کرنے والا گروہ رجوع کرلے تو ان دونوں گروہوں کے درمیان انصاف کی روشنی میں صلح کرا دو ) یعنی وہ گروہ زیادتی سے انصاف کی طرف رجوع کرے جو کہ حکم خداوندی ہے۔ اب جبکہ الفی کا معنی کسی چیز کی طرف رجوع کرنا ہے تو آیت میں موجود لفظ کے ظاہر کا مقتضیٰ یہ ہے کہ اگر کسی نے اپنی بیوی کو نقصا ن پہنچانے کی خاطر اس سے جماع نہ کرنے کی قسم کھالی ہو پھر اس سے یہ کہدے کہ میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور تیرے ساتھ ہمبستری نہ کرنے کا میں نے ارادہ کیا تھا اس سے باز آتا ہوں تو اس کا یہ کہنا رجوع کرنا قرار پائے گا خواہ وہ ہمبستری پر قدرت کھتا ہو یا اس سے عاجز ہو۔ یہ تو لفظ کا مقتضی ہے تاہم اہل علم اس پر متفق ہیں کہ اگر شوہر کو بیوی تک رسائی ممکن ہو تو ہمبستری کے سوا اور کسی ذریعے سے رجوع نہیں ہوسکتا۔ اگر کسی شخص نے اپنی بیماری کی حالت میں بیوی سے ایلاء کرلیا یا اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان اتنا فاصلہ ہو جسے طے کرنے میں چار ماہ لگتے ہوں یا بیوی کے اندام نہانی کا راستہ بند ہو یا بیوی نابالغ اور کم سن ہو یا خود شوہر کا آلہ تناسل کٹا ہوا ہو تو ان تمام صورتوں میں ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ زبانی طور پر اگر وہ رجوع کرلیتا ہے اور مدت گزر جاتی ہے لیکن عذر موجود رہتا ہے تو اس کا یہ رجوع درست ہوگا اور مدت گزرنے پر طلاق واقع نہیں ہوگی۔ اگر شوہر نے حج کا احرام باندھ رکھا ہو اور ابھی حج میں چار ماہ باقی ہوں تو ایسی صورت میں جماع کے سوا اور کسی ذریعے سے رجوع نہیں ہوسکتا امام زفر کا قول ہے کہ اس صورت میں بھی قول کے ذریعے رجوع ہوسکتا ہے۔ ابن القاسم کا قول ہے کہ جب شوہر ایلاء کرے اور بیوی اتنی چھوٹی ہو کہ اس جیسی کے ساتھ جماع نہیں کیا جاسکتا ہو تو شوہر مولی قرار نہیں پائے گا یہاں تک کہ بیوی جماع کے قابل ہوجائے اور اس کے بعد چار ماہ کی مدت گزر جانے پر اسے بذریعہ عدالت مطلع کیا جائے گا۔ یہ ابن القاسم بن عمرو کی اپنی رائے ہے۔ انہوں نے امام مالک سے اس کی روایت نہیں کی ہے۔ ابن وہب نے امام مالک سے نقل کیا ہے کہ اگر مولی کو چار ماہ کی مدت گزرنے پر بذریعہ عدالت مطلع کیا جائے کہ یا تو رجوع کرلو یا طلاق دے دو پھر وہ اپنی بیوی سے رجوع کرلے تو اگر اس نے اس سے ہمبستری نہیں کی یہاں تک کہ اس کی عدت کی مدت گزر گئی تو اب اس کے لئے اپنی بیوی کو حاصل کرنے کا کوئی راستہ نہیں رہ جائے گا اور نہ ہی اب رجوع ہو سکے گا۔ البتہ اگر اسے کوئی عذر ہو مثلا وہ بیمار ہو یا قید میں ہو یا اسی قسم کی کوئی اور مجبوری ہو تو اس کا رجوع ثابت ہوجائے گا۔ اگر اس کی عدت گزرنے کے بعد وہ اس سے نکاح کرلیتا ہے اگر اس کے بعد بھی وہ اس سے ہمبستری نہیں کرتا ہے یہاں تک کہ چار ماہ کا عرصہ گزر جاتا ہے تو پھر بھی اسے بذریعہ عدالت مطلع کیا جائے کہ یا تو رجوع کرلو یا طلاق دے دو ۔ اسماعیل بن اسحاق نے کہا ہے کہ امام مالک کا قول ہے کہ اگر چار ماہ گزر جائیں اور وہ بیمار یا قید میں ہو تو جب تک صحت یاب نہ ہوجائے اسے بذریعہ عدالت مطلع نہیں کیا جائے گا اس لئے کہ اسے اس چیز کا مکلف نہیں بنایا جائے گا جس کی وہ طاقت نہ رکھتا ہو۔ امام مالک کا یہ بھی قول ہے کہ اگر چار ماہ کی مدت گزر جائے اور وہ موجود نہ ہو تو اگر چاہے تو کفارہ ادا کر دے اس صورت میں اس کا ایلاء ساقط ہوجائے گا۔ اسماعیل کہتے ہیں کہ امام مالک نے اس خاص مسئلے میں یہ بات اس لئے کہی ہے کہ ان کے نزدیک قسم توڑنے سے پہلے کفارہ ادا کرنا جائز ہے اگرچہ قسم توڑنے کے بعد کفارہ ادا کرنا ان کے نزدیک مستحب ہے۔ اشجعی نے سفیان ثوری سے مولی کے متعلق یہ نقل کیا ہے کہ اگر اسے بیماری بڑھاپے یا قید کی مجبوری ہو یا بیوی حیض یا نفاس کی حالت میں ہو تو اسے چاہیے کہ زبانی طور پر رجوع کرے۔ مثلا یوں کہے کہ میں تیری طرف لوٹ آیا “۔ اس کا یہ کہنا کافی ہوجائے گا۔ یہی حسن بن صالح کا بھی قول ہے اوزاعی کا قول ہے کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی سے ایلاء کرلے پھر بیمار پڑجائے یا سفر پر چلا جائے اور پھر جماع کے بغیر اپنے رجوع پر گواہی قائم کرلے جبکہ وہ بیمار یا سفر پر ہو اور اس میں جماع کرنے کی قدرت نہ ہو تو اس کا رجوع ہوجائے گا۔ وہ اپنی قسم کا کفارہ ادا کر دے گا اور وہ عورت اس کی بیوی رہے گی۔ اسی طرح اگر عورت کے ہاں چار ماہ کے دوران بچہ پیدا ہوگیا یا حیض آگیا یا شوہر کو حاکم نے علاقہ بدرکر دیا تو وہ رجوع پر گواہی قائم کر دے گا اور اس کا ایلاء ختم ہوجائے گا۔ لیث بن سعد کا قول ہے کہ اگر ایلاء کرنے کے بعد بیمار پڑگیا اور پھر چار ماہ کی مدت گزر گئی تو جس طرح تندرست آدمی کو مطلع کیا جاتا ہے اسے بھی بذریعہ عدالت مطلع کر کے کہا جائے گا کہ یا تو رجوع کرلے یا طلاق دے دے اور اس کام کو اس کے تندرست ہونے تک موخر نہیں کیا جائے گا مزنی نے امام شافعی سے نقل کیا ہے کہ اگر ایسا شخص جس کا آلہ تناسل مقطوع ہو اپنی بیوی سے ایلاء کرلے تو اس کا رجوع زبانی الفاظ کے ذریعے ہوگا۔ امام شافعی نے اپنے امالی (ایسی کتاب جو کسی کے ایلاء کرائے ہوئے اقوال پر مشتمل ہو) میں کہا ہے کہ اس شخص کا کوئی ایلاء نہیں ہوتا جس کا آلہ تناسل کاٹ دیا گیا ہو۔ ان کا یہ قول بھی ہے کہ اگر بیوی بچی ہو اور وہ اس سے ایلاء کرلے تو جب وہ جماع کے قابل ہوجائے گی اس کے بعد چار ماہ کی مدت کا اعتبار کیا جائے گا۔ اگر کوئی قیدی ہو تو زبانی الفاظ کے ذریعے اس کا رجوع ثابت ہوجائے گا۔ اگر ایلاء کرنے کے بعد احرام باندھ لے تو اب جماع کے سوا اور کسی ذریعے سے رجوع ثابت نہیں ہو سکے گا۔ اگر بیوی باکرہ ہو اور مولی یہ کہے کہ مجھے اس کی بکارت زائل کرنے کی قدرت نہیں ہے تو اسی صورت میں اسے اتنی مہلت دی جائے گی جتنی ایک نامرد کو دی جاتی ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اگر کوئی مولی چار ماہ کی مدت کے اندر جماع کرنے کی قدرت حاصل نہ کرسکے تو اس کا رجوع زبانی الفاظ کے ذریعے ثابت ہوجائے گا۔ اس کی دلیل قول باری فان فائو قان اللہ غفور رحیم ہے۔ یہ شخص زبانی طور پر رجوع کرچکا اس لئے کہ لفظ الفی کا معنی کسی چیز کی طرف رجوع کرنا ہے۔ یہ شخص بیوی سے جماع کرنے سے قول یعنی قسم کے ذریعے رکا تھا۔ اب جب قول کے ذریعے رجوع کرے مثلا یوں کہے میں تمہاری طرف لوٹ آیا “ تو گویا اس نے اپنی ذات کو قول یعنی قسم کے ذریعے جس چیز سے روکا تھا اس سے واپس ہو کر اس کی ضد کو اختیار کرلیا، اس لئے آیت کا عموم اس کو شامل ہوجائے گا۔ نیز جب بیوی سے جماع کرنا متعذر ہو تو اس صورت میں شوہر کا قول وطی کے قائم مقام ہو کر بیوی کو بائن ہونے سے روک دیتا ہے۔ یہ بات بھی ہمارے دعوے کی تائید میں ہے۔ البتہ حیض یا احرام کی وجہ سے وطی کی تحریم تو یہ کوئی عذر نہیں ہے۔ احرام تو اس لئے نہیں کہ وہ وطی کا عمل کیا کرتا تھا اور احرام کی وجہ سے یہ عمل ساقط نہیں ہوسکتا جو کہ دراصل بیوی کا حق ہے۔ حیض اور نفاس بھی کوئی عذر اس لئے نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مولی کو چار ماہ مہلت دی تھی اور اسے اس بات کی خبر تھی کہ اس مدت میں اسے حیض بھی آئے گا۔ اور سلف کا بھی اس پر اتفاق ہے کہ آیت میں ” فی “ سے مراد جماع ہے بشرطیکہ جماع کا امکان ہو، اس لئے یہ جائز نہیں ہوگا کہ جماع کا امکان ہوتے ہوئے وہ فی کو کسی اور چیز کی طرف منتقل کر دے، وطی کی تحریم سے وطی کا امکان ختم نہیں ہوتا اس لئے حیض اور نفاس کی صورت احرام اور ظہار وغیرہ کی صورت جیسی ہوجائے گی اس لئے کہ اسے وطی سے تحریم وطی کی بنا پر روک دیا گیا تھا عجز اور تعذر کی بنا پر روکا نہیں گیا تھا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ تحریم کی صورت میں بھی جماع کے سلسلے میں عورت کا حق باقی رہتا ہے ساقط نہیں ہوتا۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ اگر شوہر نے خلع کی وجہ سے بیوی کو بائن کردیا جبکہ اس نے اس سے ایلاء بھی کیا ہو تو اس طرح واقع ہونے والی تحریم اس کے زبانی رجوع کے جواز کی موجب نہیں ہوگی لیکن اگر اس نے اس حالت میں اس سے جماع کرلیا تو ایلا باطل ہوجائے گا۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب زبانی طور پر رجوع کرنا قسم کو ساقط نہیں کرتا تو اس کا باقی رہنا واجب ہے کیونکہ اس کے اسقاط میں زبانی طور پر رجع کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ یہ اس وجہ سے واجب نہیں ہے کہ طلاق کے تعلق کی جہت سے یہ جائز ہے کہ قسم باقی رہ جائے اور ایلاء باطل ہوجائے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر وہ اسے تین طلاق دے دے اور پھر وہ کسی اور شخص سے نکاح کرنے کے بعد دوبارہ اس کے عقد میں آجائے تو اس صورت میں بھی اس کی قسم باقی رہے گی کہ اگر وہ اس کے ساتھ ہمبستری کرے گا تو حانث ہوجائے گا اور اس قسم کی وجہ سے اسے کوئی طلاق لاحق نہیں ہوگی اگرچہ اس نے اس سے وطی کرنا چھوڑ ہی کیوں نہ رکھا ہو۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کسی اجنبی عورت سے یہ کہے ” بخدا میں تجھ سے قربت نہیں کروں گا “ تو یہ ایلاء نہیں ہوگا لیکن اگر اس کے بعد وہ اس سے نکاح کرلے گا تو قسم باقی رہے گی اور وطی کرنے کی صورت میں اس پر کفارہ لازم آئے گا اور وہ طلاق کے اعتبار سے مولی نہیں قرار پائے گا۔ اس لئے قسم کا باقی رہنا طلاق کے حکم کے اندر علت نہیں بنے گا۔ اسی وجہ سے یہ جائز ہے کہ وہ زبانی طور پر رجوع کرلے اس سے اس قسم میں طلاق ساقط ہوجائے گی اور وطی کی وجہ سے قسم ٹوٹ جانے کا حکم باقی رہے گا۔ ہمارے اصحاب نے زبانی طور پر رجوع کی صحت کے لئے پوری مدت میں عذر باقی رہنے کی شرط عائد کی ہے۔ اس مدت کے دوران کسی وقت بھی اگر اسے جماع کرنے پر قدرت حاصل ہوجائے گی تو اس صورت میں جماع کے سوا اور کسی طریقے سے اس کا رجوع درست نہیں ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زبانی طور پر رجوع جماع کے قائم مقام ہوتا ہے۔ بشرطیکہ جماع کی صورت معدوم ہوتا کہ مدت گزرنے کے ساتھ طلاق واقع نہ ہوجائے۔ اس لئے مدت کے اندر جس وقت بھی اسے جماع پر قدرت حاصل ہوجائے گی تو زبانی طور پر رجوع کی سہولت باطل ہوجائے گی۔ جس طرح کہ تیمم کرنے والے کے تیمم کو نماز کی اباحت کے لئے پانی کے ذریعہ طہارت کے قائم مقام بنادیا جاتا ہے۔ اور نماز سے فراغت سے پہلے جس وقت بھی اسے پانی میسر آجاتا ہے اس کا تیمم باطل ہوجاتا ہے اور حکم اصل فرض کی طرف لوٹ آتا ہے خواہ پانی کا وجود نماز کی ابتداء میں ہوجائے یا نماز کے آخر میں۔ ٹھیک اسی طرح مدت ایلاء کے اندر وطی پر قدرت زبانی طور پر رجوع کی سہولت کو باطل کردیتی ہے۔ امام محمد کا قول ہے کہ مدت کے اندر عذر کی موجودگی کی وجہ سے جب وہ زبانی طور پر رجوع کرلے پھر مدت ختم ہوجائے اور عذر باقی رہے تو ایلاء کا حکم باطل ہوجائے گا اور اس کی حیثیت اس شخص کی طرح ہوجائے گی جو کسی اجنبی عورت سے قربت نہ کرنے کی قسم کھالے پھر اس کے ساتھ نکاح کرلے تو قسم باقی رہے گی اور وطی کی صورت میں اس کی قسم ٹوٹ جائے گی اور اگر وہ چار ماہ تک اس سے جماع نہ کرے تو عورت کو طلاق نہیں ہوگی۔
Top