Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 226
لِلَّذِیْنَ یُؤْلُوْنَ مِنْ نِّسَآئِهِمْ تَرَبُّصُ اَرْبَعَةِ اَشْهُرٍ١ۚ فَاِنْ فَآءُوْ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے جو يُؤْلُوْنَ : قسم کھاتے ہیں مِنْ : سے نِّسَآئِهِمْ : عورتیں اپنی تَرَبُّصُ : انتظار اَرْبَعَةِ : چار اَشْهُرٍ : مہینے فَاِنْ : پھر اگر فَآءُوْ : رجوع کرلیں فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
جو لوگ اپنی بیویوں سے (ہمبستری کرنے کی) قسم کھا بیٹھے ہیں، ان کے لیے مہلت چار ماہ تک ہے،839 ۔ پھر اگر یہ لوگ رجوع کرلیں، تو اللہ بخشنے والا ہے بڑا مہربان ہے،840 ۔
839 ۔ ایلاء۔ عرب جاہلی کا ایک شعار یہ بھی تھا، کہ شوہر غصہ میں آکر قسم کھا بیٹھتے تھے کہ اپنی بیویوں سے ہمبستری نہ کریں گے، اصطلاح میں اس کو ایلاء کہتے، لاخلاف انہ قداضمرت فیہ الیمین علی ترک الجماع (جصاص) شریعت اسلامی نے اس میں جو اصلاحیں کیں، اور اس باب میں جو احکام دیئے یہاں ان کا ذکر ہے (آیت) ” تربص اربعۃ اشھر “ عرب جاہلی ایلاء کرلینے کے بعد، جو ایک طرح کی طلاق ہی تھی، بیوی کے نان ونفقہ اور ہر قسم کے ادائے حقوق سے معادستبردار ہوجاتے تھے۔ اسلام نے اس کی ایک اصلاح یہ کی کہ اس کو خلع نکاح یا فسخ نکاح کا مرادف نہیں، بلکہ اس کی صرف تمہید قرار دے کر غور وفکر کے لیے ایک مدت مقرر کردی، اور پھر اس مدت کی میعاد چار مہینے کی رکھی، جو اس کے لیے بالکل کافی ہے کہ سارے پہلوؤں پر ٹھنڈے دل سے غور کرلیا جائے ، 840 ۔ (آیت) ” فان فآء و “۔ یعنی اگر رجوع کرلیں اپنے قصد ترک تعلق سے، اور رشتہ نکاح کو برقرار رکھیں۔ الفئی الرجوع الی الشیء (جصاص) (آیت) ” غفور “ بڑا مغفرت والا ہے، چناچہ ایسی قسم توڑنے کا گناہ ایک خفیف سے کفارہ کے بعد معاف کردے گا۔ (آیت) ” رحیم “ بڑا مہربان ہے، چناچہ شوہر جواب از سر نوادائے حقوق پر متوجہ ہوگیا ہے، اس پر وہ رحمت سے نظر کرے گا۔
Top