Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 230
فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗ١ؕ فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَاۤ اَنْ یَّتَرَاجَعَاۤ اِنْ ظَنَّاۤ اَنْ یُّقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ١ؕ وَ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ یُبَیِّنُهَا لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ
فَاِنْ
: پھر اگر
طَلَّقَھَا
: طلاق دی اس کو
فَلَا تَحِلُّ
: تو جائز نہیں
لَهٗ
: اس کے لیے
مِنْ بَعْدُ
: اس کے بعد
حَتّٰي
: یہانتک کہ
تَنْكِحَ
: وہ نکاح کرلے
زَوْجًا
: خاوند
غَيْرَهٗ
: اس کے علاوہ
فَاِنْ
: پھر اگر
طَلَّقَھَا
: طلاق دیدے اس کو
فَلَاجُنَاحَ
: تو گناہ نہیں
عَلَيْھِمَآ
: ان دونوں پر
اَنْ
: اگر
يَّتَرَاجَعَآ
: وہ رجوع کرلیں
اِنْ
: بشرطیکہ
ظَنَّآ
: وہ خیال کریں
اَنْ
: کہ
يُّقِيْمَا
: وہ قائم رکھیں گے
حُدُوْدَ اللّٰهِ
: اللہ کی حدود
وَتِلْكَ
: اور یہ
حُدُوْدُ اللّٰهِ
: اللہ کی حدود
يُبَيِّنُھَا
: انہیں واضح کرتا ہے
لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ
: جاننے والوں کے لیے
پھر اگر شوہر (دو طلاقوں کے بعد تیسری) طلاق عورت کو دے دے تو اس کے بعد جب تک عورت کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرلے اس (پہلے شوہر) پر حلال نہ ہوگی ہاں اگر دوسرا شوہر بھی طلاق دے دے اور عورت اور پہلا خاوند پھر ایک دوسرے کی طرف رجوع کرلیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ دونوں یقین کریں کہ خدا کی حدوں کو قائم رکھ سکیں گے اور یہ خدا کی حدیں ہیں ان کو وہ ان لوگوں کے لئے بیان فرماتا ہے جو دانش رکھتے ہیں
(سابقہ آیت کی بقیہ تفسیر :) اگر اس شخص کے ارادے کے تحت تین طلاقوں کے واقع ہوجانے کی گنجائش نہ ہوتی تو حضور ﷺ اس سے حلفاً یہ نہ کہلواتے کہ اس نے صرف ایک کا ارادہ کیا۔ اس سلسلے میں ہم نے سلف کے اقوال نقل کر دئیے ہیں اور یہ واضح کردیا ہے کہ اگرچہ یہ طریقہ معصیت کا طریقہ ہے لیکن اس سے طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ اس لیی کتاب و سنت اور اجماع امت ایک ساتھ دی گئی تین طلاقوں کے واقع وہ جانے کو واجب کر رہے ہیں اگرچہ اس طرح طلاق دینا معصیت ہے۔ بشرین الولید نے امام ابویوسف سے نقل کیا ہ کہ ان کے قول کے مطابق حجاج بنارطاۃ اس مسئلے میں بڑے سخت تھے اور کہا کرتے تھے کہ تین طلاق کوئی چیز نہیں ہے ۔ محمد بن اسحاق کا قول ہے کہ تین طلاق کو ایک طلاق کی طرف لوٹا دیا جائے گا۔ انہوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے ہے جو انہوں نے دائون بن حصین سے، انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ حضرت رکانہ بن عبد یزید ؓ نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دے دیں لیکن انہیں اس کا بڑا صدمہ ہوا۔ انہوں نے حضور ﷺ سے ذکر کیا آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ تم ن طلاق کس کیفیت سے دی ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ” تین طلاقیں دی ہیں “۔ آپ ﷺ نے پوچھا کہ ” کیا ایک مجلس میں دی ہیں ؟ “ اس نے اثبات میں جو اب دیا، اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک مجلس میں دی گئی یہ تین طلاقیں حقیت میں ایک طلاق ہے، اگر رجوع کرنا چاہو تو جائو جا کر رجوع کرلو، چناچہ حضرت رکانہ نے رجوع کرلیا۔ اسی طرح اس حدیث سے بھی استدلال کیا ہے جو بو عاصم نے ابن جریج سے، انہوں نے طائوس کے ایک بیٹے سے اور انہوں نے اپنے والد طائوس سے روایت کی ہے ابوالصہباء نے حضرت ابن عباس ؓ سے عرض کیا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ حضور ﷺ ، حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ کی خلافت کے ابتدائی دور میں تین طلاقوں کو صرف ایک طلاق کی طرف لوٹا دیا جاتا تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے اثبات میں اس کا جوا دیا۔ ان دونوں روایتوں کے متعلق کہا گیا کہ یہ منکر ہیں۔ سعید بن جبیر، مالک بن الحارث، محمد بن ایاز اور نعمان بن ابی عیاش سب نے حضرت ابن عباس ؓ سے اپنی بیوی کو تین طلاق دینے والے کے متعلق روایت کی ہے کہ اس نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور اس کی بیوی اس سے علیحدہ ہوگئی۔ ابوالصہباء کی یہ حدیث اور ایک سند سے بھی روایت کی گئی ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ حضور ﷺ ، حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ کی خلاف کے ابتدائی دور میں تین طلاقیں ایک شمار ہوتی تھی۔ پھر حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ ن تین طلاقوں کو تین ہی رکھیں ( تو بہتر ہوگا) ہمارے نزدیک اس قول کا مطلب یہ ہے کہ لوگ تین طلاقیں دیا کرتے تھے۔ حضرت عمر ؓ نے ان تینوں کو اسی طرح تین رہنے دیا۔ ابن وہب نے کہا ہے کہ انہیں عیاش بن عبداللہ فہری نے ابن شہاب سے، انہوں نے حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے جب عویمر ؓ عجلانی اور اس کی بیوی کے درمیان لعان کرا دیا تو عویمر نے کہا کہ اگر میں اسے اپنی زوجیت میں رکھوں گا تو میں جھوٹا قرار پائوں گا اس لیے میں اسے تین طلاق دیتا ہوں۔ اس طرح عویمر ؓ نے حضور ﷺ کے ارشاد سے پہلے ہی اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی حضور ﷺ نے ان طقالوں کو نافذ کردیا۔ کیا حالت حیض میں طلاق واقع ہوجاتی ہے ؟ آیت سنت اور اجماع امت کے جو دلائل ہم پچھلے صفحات میں بیان کر آئے ہیں وہ حیض کی حالت میڈ دی گئی طلاق کے واقع ہوجانے کو واجب کردیتے ہیں اگرچہ حیض کی حالت میں طلاق دینا خود معصیت ہے۔ بعض جاہلوں کا یہ خیال ہے کہ حیض میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ انہوں نے اس روایت سے استدلال کیا ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے، نہیں ابودائود نے انہیں امد بن صالح نے، انہیں عبدالرزاق نے ، انہیں ابن جریج نے، انہیں ابو الزبیر نے بیان کیا کہ انہوں نے عروہ بن الزبیر کے آزادہ کردہ غلام عبدالرحمن بن ایمن کو حضرت ابن عمر ؓ سے پوچھتے ہوئے سنا جبکہ ابوالزبیر بھی یہ گفتگو سن رہے تھے کہ اس شخص کے متعلق کیا حکم ہے جس نے حالت حیض میں اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہو۔ حضرت ابن عمر ؓ نے جواب دیا کہ ابن عمر ؓ یعنی مییں نے اپنی بیوی کو حضور ﷺ کے زمانے میں حالت حیض میں طلاق دے دی تھی۔ حضرت عمر ؓ نے جا کر حضور ﷺ سے مسئلہ دریافت کیا تو آپ نے میری بیوی مجھے لوٹا دی اور اس دی ہوئی طلاق کو آپ نے طلاق ہی شمار نہیں کیا اور فرمایا کہ جب حیض سے پاک ہوجائے تو پھر اس کی مرضی ہے اسے اپنے عقد زوجیت میں رکھے یا طلاق دے دے۔ اس استدلال کے جواب میں کہاجائے گا کہ روایت میں ذکر کردہ یہ بات غلط ہے کہ حضور ﷺ نے اس طلاق کو طلاق ہی شمار نہیں کیا تھا بلکہ حضرت ابن عمر ؓ سے ایک گروہ نے یہ روایت کی ہے کہ انہوں نے اس طلاق کو شمار کیا تھا۔ ہمیں روایت محمد بن بکر سے سنائی، انہیں ابودائود نے، انہیں القعنبی نے، انہیں یزید بن ابراہیم نے محمد بن سیرین سے، انہوں نے کہا کہ ہمیں یونس بن جبیر نے یہ سنایا کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے پوچھا تھا کہ ایک شخص نے اپنی بیویو کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی ہو تو اس کا کیا حکم ہے۔ اس پر انہوں نے فرمایا ” تم ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جانتے ہو “ اس نے اثبات میں جواب دیا۔ انہوں نے فرمایا کہ ابن عمر ؓ نے بھی اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دی تھی، پھر حضرت عمر ؓ نے حضور ﷺ سے مسئلہ پوچھا تھا، آپ نے فرمایا تھا کہ اس سے کہو رجوع کرلے اور پھر عدت سے پہلے طہر میں اسے طلاق دے دے۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے ابن سیرین سے پوچھا کہ پھر اس طلاق کو شمار بھی کرے گا۔ ابن سیرین نے جوا دیا ” ذرا سوچ سمجھ کر بات کرو “ کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ اتنے عاجز اور اتنے احمق بن گئے تھے ؟ “ اس حدیث میں حضرت ابن عمر ؓ کے متعلق یہ خبر دی گئی ہے کہ انہوں نے اس طلاق کو شمار کیا تھا تاہم اس کے باوجود حضرت ابن عمر ؓ سے مروی تمام روایتوں میں یہ بیان ہے کہ حضور ﷺ نے انہیں رجوع کرنے کا حکم دیا تھا۔ اب ظاہر بات ہے کہ اگر طلاق واقع نہ ہوئی ہوتی تو حضور ﷺ انہیں رجوع کرنے کا حکم دیتے اور نہ ہی ان کے رجوع کا عمل درست ہوتا۔ کیونکہ یہ بات تو درست نہیں ہے کہ ان سے کہا جاتا کہ اپنی بیوی سے رجوع کرلو جبکہ انہوں نے سرے سے پانی بیوی کو طلاق ہی نہ دی ہو۔ کیونکہ رجوع کا عمل تو طلاق کے بعد ہوتا ہے۔ اگر اس روایت میں مذکورہ یہ بات درست ہوتی کہ حضور ﷺ نے ان کی دی ہوئی طلاق ہی شمار نہ کیا تو اس کا معنی یہ ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے اس طلاق کی وجہ سے ان کی بیوی کو الگ نہ کیا اور نہ ہی زوجیت واقع ہوئی۔ قول باری ہے ( فامساک بمعروف او تسیح باحسان) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ چونکہ حرف فاء تعقیب کے لیے آتاے اور قول باری ہے ( الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان) تو اس کا مقتضیٰ یہ ہے کہ آیت میں مذکور امساک طلاق کے بعد ہو۔ اب یہ امساک رجوع کرنے کی صورت میں ہوگا اس لیے کہ یہ طلاق کی ضد ہے اور طلاق واقع ہونے کا موجب عدت کے خاتمہ پر علیحدگی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے رجوع کرلینے کا نام امساک رکھا کیونکہ اسی کے ذریعے تین حیض گزرنے کے بعد نکاح باقی رہ جاتا ہے اور عدت گزرنے کے بعد علیحدگی کا لگنے والا حکم مرتفع ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک شرط پر امساک کو شوہر کے لیے مباح کردیا اور وہ معروف کی شرط ہے یعنی امساک بھلے اور معروف طریقے سے ہو اور اس کے ذریعے عورت کو نقصان پہنچانے کا ارادہ نہ وہ جیسا کہ اس قول ( ولام تمسکوھن صرارا لتعتدوا) میں ذکر فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے شرط کے ساتھ رجوع کے عمل کو اس لیے مباح قرار دیا۔ اب اگر وہ غیر معروف طریقے سے رجوع کرے گا تو گنہگار ہوگا لیکن اس کے رجوع کا یہ عمل درست ہوگا۔ اس کی دلیل قول باری ( ومن یفعل ذلک فقد ظلم نفسہ) ہے۔ اگر رجوع کا عمل درست نہ ہوتا تو وہ اپنے نفس پر ظلم کرنے والا قرار نہ دیا جانا۔ قول باری ( فامساک بمعروف) میں جماع ک ذریعے رجوع کے عمل کی صحت پر دلالت ہو رہی ۔ اس لیے کہ نکاح کے ذریعے امساک کا معنی جماع اور اس کے متعلقات مثال لمس اور بوسہ وغیرہ ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جس عورت سے کسی مرد کی ہمبستری ہمیشہ کے لیے حرام ہو اس کے ساتھ عقد نکاح بھی درست نہیں ہوتا ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ نکاح کی بنا پر امساک جماعے ساتھ خاص ہے اور اس کے ذریعے ہی نکاح کرنے والا اس عورت کو مملک یعنی روک رکھنے والا بنے گا۔ اسی طرح لمس، بوس و کنار، اور شہوت کے تحت اس کے اندام نہائی پر نظر وغیرہ کا بھی یہی حکم ہے کیونکہ عقد نکاح کی صحت ان باتوں کے مباح ہونے پر مبنی ہوتی ہے۔ اس لیے جب بھی وہ ان میں سے کسی بات پر عمل کرے گا ممسک قرار قائے گا کیونکہ قول باری ( فمساک بمعروف ) میں عموم ہے اور قول باری ( او تسریح باحسان) میں دو قول ہیں ایک تو یہ کہ اس سے مراد تیسری طلاق ہے۔ حضور ﷺ سے ایک حدیث مرو ہے جو روایات کے اصول کی روشنی میں حضور ﷺ سے ثابت تسلیم نہیں ہوسکتی اور ظاہراً بھی وہ قابل رو ہے۔ اس کی روایت ہمیں عبداللہ بن اسحاق مروزی نے کی، انہیں حسن بن ابی الربیع جرجانی نے، انہیں عبدالرزاق نے، انہیں ثوری نے اسماعیل بن سمیع سے، انہوں نے ابورزین سے کہ ایک شخص نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! اللہ تعالیٰ ن ( الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان) کے ذریعے دو طلاقوں کی بات سنا دی۔ اب تیسری طلاق کا ذکر کہاں ہے ؟ آپ نے فرمایا اس کا ذکر ( او تسریح باحسان) میں ہے۔ سلف کی ایک جماعت سے جس میں سدی اور ضحاک شامل ہیں، یہ مروی ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ دو طلاقیں دینے کے بعد اسے چھوڑے رکھے یہاں تک کہ عدت گزر جائے۔ آیت کی یہ تاویل زیادہ صحیح ہے کیونکہ اوپر بیان کی ہوئی روایت جو اس آیت کی تفسیر میں منقول ہے حضور ﷺ سے ثابت نہیں ہے۔ اس کے کئی وجوہ ہیں ایک یہ ہے کہ وہ تمام مواقعجن میں اللہ تعالیٰ نے طلاق کے بعد امساک اور علیحدگی کا ذکر کیا ہے تو وہاں اس سے مراد یہ ہے کہ رجوع نہ کیا جائے جائے یہاں تک کہ اس کی عدت گزر جائے ۔ قول باری ہے ( واذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف او سرحولھن بمعروف) یہاں تسریح سے مراد رجوع نہ کرنا ہے کیونکہ یہ بات تو واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مراد یہ نہیں ہے کہ فامسکوھن بمعروف اور طلقوھن واحدۃ اخری “ ( انہیں معروف طریقے سے روک لو یا انہیں ایک اور طلاق دے دو ) اس معنی میں یہ قول باری ہے ( فامسکوھن بمعروف او فارقوھن بمعروف) اس سے اللہ نے مزید طلاق واقع کرنا مراد نہیں لیا ہے بلکہ یہ مراد ہے کہ اسے چھوڑے رکھو حتیٰ کہ اس کی عدت گزر جائے ۔ ایک اور وجہ بھی ہے کہ تیسری طلاق کا ذکر سیاق خطاب میں موجود ہے۔ وہ یہ قول باری ہے ( فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتیٰ تنکح زوجا غیرہ) اگر تیسری طلاق کا ذکر اس خطاب کی ابتداء میں ہوتا جس سے اس علیحدگی کی خبر ملتی جو موجب تحرم ہے الا یہ کسی اور شخص سے نکاح ہوجائے تو پھر قول باری ( او تسریح باحسان) کو نئے معنی پر محمول کرنا واجب ہوتا اور وہ نیا معنی دو طلاقوں کے بعد عدت گزرنے پر بینونت یعنی علیحدگی کا واقع ہونا ہے۔ نیز جب یہ بات واضح ہے کہ آیت کا مقصد حرمت کو واجب کرنے والی طلاق کی تعداد کا بیان اور سابق میں لا تعداد طلاق دینے کے رواج کی منسوخی ہے تو اگر ( او تسریح باحسان) سے مراد تیسری طلاق ہو تو یہ الفاظ تین طلاقوں کے ذریع تحریم واقع ہوجانے کی صورت کو بیان نہیں کرسکتے۔ کیونکہ اگر ( او تسریح باحسان) پر اقتصار کرلیا جاتا تو یہ اس بینونت یا علیحدگی کو ہرگز بیان نہ کرتا جو اس عورت کو اس مرد کے لیے حرام کر دین والی ہے الا یہ کہ عورت کسی اور مرد سے نکاح کرلے۔ جبکہ تحریم کا علم ہمیں در حقیقت اس قول باری ( فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ) کے ذریعے ہوا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ ( او تسریح باحسان) سے تیسری طلاق مراد نہ لینا ضروری ہے نیز اگر آیت کا یہ ٹکڑا تیسری طلاق کو ظاہر کرتا تو پر قول باری ( فان طلقھا) جو اس کے بعد آ رہا ہے چوتھی طلاق کے لیے ہوتا۔ اس لیے کہ فاء تعقیب کے لیے ہے جو گزری ہوئی طلاقوں کے بعد ایک اور طلاق کا مقتضی ہے جو ان کے بعد آئے۔ اس بحث سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ( او تسریح باحسان) سے مراد مطلقہ عورت کو چھوڑے رکھنا ہے حتیٰ کہ اس عدت گزر جائے۔ قول باری ( فان طلقھا فلا تحل لہ من بعدحتیٰ تنکح زوجا غییرہ اگر وہ اسے پھر طلاق دے دے تو اس کے بعد وہ اس وقت تک حلال نہیں ہوگی جب تک کسی اور مرد سے نکا ح نہ کرلے) کئی معانی پر مشتمل ہے۔ ایک تو یہ کہ تیسری طلاق کے بعد عورت اس پر حرام ہوجائے گی الا یہ کہ کسی اور مرد سے نکاح کرلے۔ یہ لفظ اس معنی کو ظاہر کر رہا ہے تین طلاقوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی حرمت اس وقت ختم ہوسکتی ہے جب دوسرے مرد سے عقد نکاح بھی ہو اور ہمبستری بھی ہو ۔ کیونکہ نکاح کا حقیقی معنی وطی ہے اور زوج کا ذکر عقد کے معنی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ قرآن کی ایجاز بیان ہے اور سمجھ میں آ جانے والے کنایہ پر اقتصار ہے جو بہرحال تصریح سے زیادہ بلیغ اور اس کی ضرورت سے مستغنی کردینے والا ہے۔ حضور ﷺ سے کثت سے روایات ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ طلاق ثلاثہ کی صورت میں مطلقہ عورت اس وقت تک پہلے خاوند کے لیے حلال نہیں ہوگی جب تک دوسرا خاوند عقد نکاح کے بعد اس کے ساتھ ہمبستری نہ کرے۔ زہری نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے بیان کیا کہ رفاعہ القرظی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں۔ اس عورت نے عبدالرحمن بن الزبیر سے نکاح کرلیا اور پھر حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ میں رفاعہ کے عقد میں تھی اس نے مجھے آخری طلاقیں یعنی تین طلاقیں دے دیں۔ پھر میں نے اس کے بعد عبدالرحمن بن الزبیر سے نکاح کرلیا اس کی قوت مردی اس قدر کم ہے جس طرح کپڑے کا چھوڑ یعنی جھالر ہو۔ یہ سن کر حضور ﷺ مسکر دیے اور فرمایا کہ شاید تم واپس رفاعہ کے پاس جانا چاہتی ہو نہیں ایسا نہیں ہوسکتا جب تک کہ تم اپنے نئے شوہر کا اور نیا شوہر تمہارا خط نہ اٹھا لے یعنی ہمبستری نہ ہوجائے۔ حضرت ابن عمر ؓ اور حضرت انس ؓ بن مالک نے بھی حضور ﷺ سے اسی قسم کی روایت کی ہے ۔ البتہ انہوں نے رفاعہ کی بیوی کا واقعہ بیان نہیں کیا۔ یہ وہ روایات ہیں جنہیں مقبولیت عامہ حاصل ہوئی اور فقہاء بھی ان پر عمل پیرا ہونے پر متفق ہیں اس بنا پر ہمارے نزدیک ان روایات کی حیثیت یہ ہے کہ یہ تواتر کے درجے پر پہنچی ہوئی ہیں۔ اس مسئلے میںقہاء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ البتہ ایک بات سعید بن المسیب سے مروی ہے کہ مطلقہ عورت طلاق دینے والے خاوند کے لیے دوسرے مرد سے عقد نکاح کے ساتھ ہی حلال ہوجائے گی، دوسرے خاوند سے ہمبستری کی ضرورت نہیں ہوگی۔ لیکن اس قول کی کسی نے متابعت نہیں کی اس بنا پر اسے شاز قرار دیا جائے گا۔ قول باری ( حتی تنکح زوجا غیرہ) میں تین طلاقوں کی وجہ سے واقع ہونے والی حرمت کی انتہا بیان کردی گئی ہے ۔ اگر دوسرا شوہر اس سے ہمبستری کرلیتا ہے تو حرمت مرتفع ہوجاتی ہے لیکن اس وجہ سے حرمت باقی رہتی ہے کہ وہ ابھی ایک شخص کے عقد میں ہے جس طرح تمام دوسری بیاہی عورتوں کا حال ہے۔ اب جب دوسرا شوہر سے طلاق دے کر علیحدگی اختیار کرلے گا اور عدت گزر جائے گی تو پھر جا کر یہ پہلے شوہر کے لیے حلال ہوگی۔ قول باری ہے ( فلا جناح علیھما ان یتروجما ( تو رجوع کرلینے میں ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں ہے) یہ قول باری مدخول بہا ایسی عورت جس سے ہمبستری ہوچکی ہو) پر عدت واجب کرنے والے حکم پر مرتب ہے یہ حکم اس قول باری ( والمطلقات یتربصن بانفسھن ثلاثۃ قروء) اور قول باری ( ولا تعزموا عقدۃ النکاح حتیٰ یبلغ الکتاب اجلہ اور تم اس وقت تک عقد نکاح باندھنے کا عزم نہ کرو جب تک کہ عدت پوری نہ ہوجائے) ۔ نیز ایسی اور آیات کے ذریعے بتادیا گیا ہے جو عدت میں نکاح کی ممانعت پر دلالت کرتی ہیں اور قول باری ( فان طلقھا فلا جناح علیھما ان یتراجعا) طلاق کے ذکر کے لیے منصوص ہے ۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ پہلے شوہر کے لیے اس عورت کی اباحت کا حکم صرف طلاق تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ ایسی تمام باتیں جن کی وجہ سے دوسرے شوہر سے علیحدگی عمل میں آسکتی ہے مثلاً موت ارتداد یا تحریم وغیرہ یہ بھی بمنزلہ طلاق کے ہیں۔ اگرچہ آیت میں صرف طلاق کا ذکر ہے۔ اس میں ولی کے بغیر نکاح کے جواز پر بھی دلالت ہو رہی ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے رجوع کرنے کے فعل کی نسبت مزد اور عورت کی طرف کی ہے، ولی کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس آیت میں اور بھی احکام ہیں جن کا ہم خلع کے بیان کے سلسلے میں ذکر کریں گے۔ لیکن ہم نے تیسری طلاق کا ذکر اس لیے مقدم کردیا کہ یہ معنوی طور پر دو طلاقوں کے ذکر کے ساتھ متصل ہے اگرچہ خلع کا ذکر ان دونوں کے درمیان آگیا ہے۔ خُلع کا بیان قول باری ہے اولا یحل لکھ ان تاخذوا مما اتیتموھن شیئا الا ان یخافا الا یقیما حدود اللہ اور تمہارے لیے حلال نہیں ہے کہ جو تم نے اپنی بیویوں کو دیا ہے اس میں سے کوئی چیز واپس لے لو، الا یہ کہ میاں بیوی کو یہ خوف پیدا ہوجائے کہ وہ کہیں اللہ کے حدود کو قائم نہ رکھ سکیں۔ اس آیت کے ذریعے مرد پر پابندی لگا دی گئی کہ وہ بیوی کو دی ہوئی چیز میں سے کوئی شے واپس لے لے البتہ مذکورہ شرت کے ساتھ واپس لے سکتا ہے۔ ضمنی طور پر یہ بات بھی سمجھ میں آ گئی کہ شوہر نے جو چیز بیوی کو نہ دی ہو اس کی واپسی کا مطالبہ اس کے لیے جائز نہیں ہے۔ اگرچہ آیت میں ذکر اس چیز کا ہے جو اس نے بیوی کو دی ہو۔ جس طرح کہ قول باری ( ولا تقل تھما اف ، ماں بات کو اُف تک بھی نہ کہو) اس پر دلالت کرتا ہے کہ اُف کہنے سے بڑھ کر جو چیز ہے مثلاً مار پیٹ اور گالی گلوچ وہ بھی ممنوع ہے۔ قول باری ( الا ان یخافا ان لا یقیما حدود اللہ) کی تفسیر میں طائوس کا قول ہے کہ حدود اللہ سے مراد وہ معاشرت اور رفاقت ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان دونوں پر فرض کردیا تھا۔ قاسم بن محمد نے بھی یہی بات کہی ہے۔ حسن بصری کا قول ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ مثلاً عورت کہے کہ ” بخدا میں تیری خاطر جنابت سے کبھی غسل نہیں کروں گی “۔ اہل لغت نے ( الا ان یخافا) کا معنی ” الا ان یظنا “ کیا ہے یعنی میاں بیوی دونوں کو خیال ہو کہ وہ حدود اللہ کو قائم نہیں رکھ سکیں گے۔ ابو معجن ثقضی کا قول ہے فراء نے انہیں یہ دو شعر سنائے تھے۔ اذا مت فادفنی الی جذب کو مۃ تروی عظامی بعد موتی عروقھا ولا تدفنی بالعراء فا نمی اخاف اذا مامت ان لا ازوقھا جب میں مر جائوں تو مجھے انگور کی بیل کے پہلو میں دفن کردینا تا کہ میری موت کے بعد اس کی جڑیں میر ہڈیوں کو سیرات کرتی رہیں۔ مجھے کھلے میدان میں ہرگز دفن نہ کرنا کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ مرنے کے بعد کہیں میں انگور یعنی شراب سے بھی محروم نہ ہو جائوں۔ ایک اور شاعر کا شعر ہے : اتنا فی کلام عن نصیب یقولہ وما خقت یا سلام مرانک عائبی مجھے نصیب کی کچھ باتیں پہنچی ہیں لیکن اے سلام یعنی نصیب میں نہیں خیال کرتا کہ تو مجھ میں کیڑے نکالے گا۔ یہاں ’ ما خفت ‘ کا معنی ’ ما ظننت ‘ ہے یعنی میں نہیں سمجھتا یا خیال کرتا، حدود اللہ کو قائم نہ رکھ سکنے کے متعلق اس اندیشے کی دو صورتں ہیں۔ ایک صورت تو یہ کہ میاں بوی میں سے ایک بد خلق ہو یا دونوں اس طرح کے ہوں جس ک نتیجے میں نکاح کے حقوق کے تحت ان پر لازم ہونے والے حدود اللہ کو وہ قائم نہ رکھ سکیں ان حقوق کا ذکر اس قول باری میں ہے۔ ( ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف) دوسری صورت یہ ہے کہ ایک کے دل میں دوسرے کی طرف سے نفرت اور بغض ہو جس کی وجہ سے معاشرت اور باہمی افہام و تفہیم اور حسن سلوک متاثر ہوجائے جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے لازم ہونے والے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہی ہوجائے اور شوہر کو اپنی ایک بوی سے ہٹ کر دوسری بیویوں کی طرف میلان کے اظہار کی جو ممانعت ہے اس میں کوتاہی ہوجائے ۔ اس کی ممانعت اس قول باری میں ہے ( فلا تمیلوا کل المثل فتذروھا کالملقۃ) جب ان دونوں میں سے کوئی صورت پیش آ جائے اور دونوں کو اندیشہ پیدا ہوجائے کہ وہ شاید اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حدود کو قائم نہ رکھ سکیں تو اس صورت میں خلع کرلینا حلال ہوجائے گا۔ جابر جعفی نے عبداللہ ہن یحییٰ سے اور انہوں نے حضرت علی ؓ سے روایت کی ہے کہ چند فقرے ایسے ہیں کہ اگر عورت انہیں اپنی زبان سے نکال بیٹھے تو اس کے لیے خلع کرا لینا حلال ہوجائے گا مثلاً وہ شوہر سے یہ کہے کہ ” میں تیری بات نہیں مانوں گی “ یا ” تیری کوئی قسم پوری نہیں کروں گی “۔ یا کبھی تیری خاطر جنابت سے نہیں نہائوں گی “ وغیرہ ۔ مغیرہ نے ابراہیم نخعی سے روایت کی ہے کہ مرد کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی سے فدیہ لے مگر اس صورت میں وہ ایسا کرسکتا ہے ۔ جب وہ اس کی نافرمانی پر اتر آئے اور اس کی کوئی قسم پوری نہ ہونے دے۔ جب وہ ایسی حرکتیں کرنے لگے تو اس صورت میں مرد کے لیے اس سے فدیہ لینا جائز ہوگا۔ اور اگر شوہر فدیہ لینے پر رضا مند نہ ہو اور عورت فدیہ ادا کرنے پر اڑ جائے تو ایسی صورت میں شوہر اپنے خاندان سے اور بیوی اپنے خاندان سے ایک ایک حکم یعنی ثالث منتخب کرلیں پھر یہ دونوں حکم جو فیصلہ کردیں اسے قبول کرلیں۔ علی ابن ابی طلحہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ عورت کی طرف سے اللہ کے حدود کو قائم نہ کرنے کی یہ صورت ہے کہ وہ زوج کے حق کے استخقاف کی مرتکب ہو اور اس کے ساتھ بد خلقی سے پیش آئے مثلاً یوں کہے ” بخدا میں تیری کوئی قسم بھی پوری نہیں کروں گی اور کبھی تیرے ساتھ بستر پر نہیں لیٹوں گی اور تیری کوئی بات نہیں مانوں گی “۔ ایسی صورت میں مرد کے لیے اس سے فدیہ لے لینا حلال ہوجائے گا لیکن مرد اس سے دی ہوئی چیز یا رقم سے زائد وصول نہیں کرے گا اور فدیہ لینے کے بعد اس کے راستے سے ہٹ جائے گا۔ خواہ بد خلقی اور بری معاشرت کا مظاہرہ عورت کی طرف سے کیوں نہ ہوا ہو۔ پھر قول باری ہے ( فان طبن لکھ عن شی منہ نفسا فکلوہ ھیئاً مریا۔ البتہ اگر خود وہ اپنی خوشی سے مہر کا کوئی حصہ تمہیں معاف کردیں تو اسے تم مزے سے کھا سکتے ہو) یعنی اگر یہ معافی بزور یا بذریعہ فریب و دھوکہ دہی حاصل نہ کی گئی ہو تو پھر اس معافی کے تحت ملنے والا مال خوشگوار اور پر لطف ہوگا۔ اس آیت کے منسوخ ہوجانے کے متعلق اختلاف ہے۔ حجاج نے عقبہ بن ابی الصہباء سے روایت کی ہے کہ میں نے بکر بن عبداللہ سے ایک شخص کے متعلق دریافت کیا جس کی بیوی اس سے خلع کرانا چاہتی ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ مرد کے لیے اس سے کوئی چیز لینا حلال نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ( فلا جناح علیھما فیما افتدت بہ، ان دونوں پر اس چیز کے لیے لینے میں کوئی گناہ نہیں جو عورت فدیہ کے طور پردے دے۔ انہوں نے جواب دیا کہ یہ آیت قول باری ( وان اردتم استبدال زوج مکان زوج واتیتم احدا ھن قنطارا فلا تاخذوا منہ شیئا، اور اگر تم ایک بیوی کو دوسری بےبدلنا چاہو اور تم نے کسی اور کو ڈھیروں مال دے دیا ہو تو اس میں سے کوئی چیز واپس نہ لو منسوخ ہوچکی ہے۔ ابوعاصم نے ابن جریج سے روایت کی ہے ک میں نے عطاء بن ابی رباح سے دریافت کیا کہ اگر بیوی ظالم اور بد خلق ہو شوہر اسے خلع کرلینے کے لیے کہے کیا یہ بات شوہر کے لیے جائز ہوگی عطاء نے نفی میں جواب دیتے ہوئے کہا یا تو شوہر اس سے راضی ہو کر اسے عقد زوجیت میں رکھے اور یا اسے رخصت کر دے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یہ قول شافہ ہے۔ ظاہر کتاب اور سنت اور اتفاق سلف اس کی تردید کر رہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بھی قول باری ( وان اردتم استبدال زوج مکان زوج) میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جو قول باری ( فلا جناح علیھما فیما افتدت بہ) کو منسوخ کرنا واجب کرتی ہو۔ کیونکہ ہر آیت کا حکم اس حالت تک محدود ہے جو آیت میں مذکور ہے اس لیے کہ خلع کی ممانعت اس صورت میں ہے جبکہ بدسلوکی شوہر کی جانب سے ہو اور شوہر ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لانا چاہتا ہو۔ اس کے برعکس خلع کی اباحت کا حکم اس صورت میں دیا گیا ہے جب کہ میاں بیوی کو یہ اندیشہ ہو کہ وہ اللہ کے حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے اور وہ اس طرح کہ بیوی کو شوہر سے نفرت ہو یا بیوی بدخلق ہو یا شوہر بد خلقی کا مظاہرہ کرتا ہو لیکن اس کے دل میں بیویی کو نقصان پہنچانے کا کوئی ارادہ نہ ہوتا ہم دونوں کو ان حقوق میں حدود اللہ قائم نہ رکھ سکنے کا اندیشہ ہو جن کا تعلق نکاح کی وجہ سے لازم آنے والے امور سے ہو مثلاً حسن معاشرت اور ایک دوسرے کے حقوق پورا کرنا وغیرہ۔ یہ حالت درج بالا حالت سے مختلف ہے اس لیے ایک آیت میں ایسی حالت کا بیان نہیں ہے جو دوسری آیت کی حالت سے ٹکراتی ہو اور اس کی منسوخیت یا تخصیص کو واجب کرتی ہو اس لیے کہ ہر آیت پر اس کے نزول کے پس منظر میں عمل ہو رہا ہے۔ اسی طرح قول باری ( ولا تعضلوھن لتذھبوا ببعض ما اتیتموھن اور نہ یہ حلال ہے کہ تم انہیں تنگ کر کے اس کا کچھ حصہ اڑا لینے کی کوشش کرو جو تم انہیں دے چکے ہو) کی تاویل ہے اگر خطاب شوہروں سے ہے۔ ان پر عورت کے مال میں سے کوئی چیز لینے کی ممانعت کردی گئی ہے اگر بدسلوکی اور نفرت کا مظاہرہ شوہر کی طرف سے ہو اور وہ بیوی کو نقصان پہنچانا چاہتا ہو۔ البتہ اگر عورت صریح بد چلنی کا مرتکب پائی جائے تو شوہر کو اسے تنگ کرنے کا حق ہے ابن سیرین اور ابو قلابہ نے کہا ہے کہ صریح بدچلنی سے مراد یہ کہ شوہر کو اس کب بدکاری کا پتہ چل جائے۔ عطاء زہری اور عمرو بن شعیب سے مروی ہے کہ خلع صرف اس سے حلال ہے جو بدسلوکی اور نفرت کا مظاہرہ کرے۔ اس لیے ان آیات میں نسخ کہیں نہیں ہے اور تمام قابل عمل ہیں۔ واللہ اعلم !۔ خلع کی صورت میں مرد کے لیے کیا لینا حلال ہے اس بارے میں سلف اور فقہاء امصار کے اختلاف کا ذکر حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ آپ نے ناپسند کیا ہے کہ مرد اس سے زیادہ لے لے جو اس نے بیوی کو دیا ہو۔ یہی سعید بن المسیب، حسن بصری، طائوس اور سعید بن جبیر کا قول ہے، حضرت عمر ؓ حضرت عثمان ؓ ، حضرت ابن عمر ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ ، مجاہد، ابرہیم نخعی، حسن بصری سے ایک اور روایت کے مطابق یہ مروی ہے کہ شوہر کے لیے اپنے دیے ہوئے مال سے زائد لے کر خلع قبول کرلینا جائز ہے۔ اگرچہ یہ عورت کے بالوں کی چوٹی ہی کیوں نہ ہو۔ امام ابوحنیفہ ، ابویوسف ، محمد زفر کا قول ہے کہ اگر بدسلوکی اور نافرمانی عورت کی طرف سے ہو تو مرد کے لیے اپنا دیا ہوا مال واپس لے لینا جائز ہے۔ لیکن وہ اس سے زائد نہیں لے سکتا۔ اور اگر یہ بدسلوکی شوہر کی طرف سے ہو تو اس صورت میں اسے کوئی چیز لینا حلال نہیں ہوگا۔ لیکن اگر اس نے کچھ لے لیا تو قضاًء درست ہوگا۔ ابن شبرمہ کا قول ہے کہ شوہر کی بیوی سے علیحدگی جائز ہوگی اگر شوہر اس کے ذریعے اسے نقصان پہنچانے کا ارادہ نہ رکھتا ہو۔ اگر نقصان کا ارادہ رکھتا ہو تو ایسا کرنا جائز نہیں ہو گ۔ ابن وہب نے امام مالک سے روایت کی ہے کہ جب یہ بات معلوم ہوجائے کہ اس کا شوہر اسے نقصان پہنچا رہا ہے اور اسے تنگ کر رہا ہے اور اس کے ساتھ ظلم و زیادتی کر رہا ہے تو طلاق کا فیصلہ کردیا جائے گا اور اس کا مال اسے واپس کردیا جائے گا۔ ابن القاسم نے مالک سے روایت کی ہے کہ شوہر کے لیے جائز ہے کہ وہ خلع میں اس سے زائد مال لے لے جتنا اس نے اسے دیا ہے اور اگر بدسلوکی مرد کی طرف سے ہو تو خلع کرانے کے لیے عورت برضا و رغبت اسے جو کچھ دے دے اسے لے لینا مرد کے لیے حلال ہے بشرطیکہ اس میں مرد کی جانب سے عورت کو نقصان پہنچنے کا کوئی احتمال نہ ہو ۔ لیث بن سعد سے اسی قسم کی روایت ہے۔ سفیان ثوری کا قول ہے کہ اگر خلع عورت کی جانب سے ہو تو اس صورت میں مرد اگر اس سے کچھ لے لے تو اس میں حرج نہیں ہے اور اگر خلع کی کوشش مرد کی طرف سے ہو تو اس صورت میں عورت سے کچھ بھی لینا جائز نہیں ہے، اوزاعی کا قول ہے کہ اگر شوہر بیوی سے خلع کرلے اور بیوی بیمار ہو اب اگر بدسلوکی اور نافرمانی بیوی کی طرف سے نہ ہو تو شوہر مال واپس کر دے گا اور مرد کا رجوع کرنے کا حق حاصل ہوگا اگر ہمبستری سے پہلے مہر کی پوری رقم پر مرد بیوی سے خلع کرلے جبکہ عورت کی طرف سے نافرمانی اور بدسلوکی کا مظاہرہ نہ ہوا ہو اور دونوں فسخ نکاح پر متفق ہوجائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ حسن بن حی نے کہا ہے کہ اگر بدسلوکی شہر کی طرف سے ہو تو اس کے لیے تھوڑا یا بہت مال لے کر خلع قبول کرلینا جائز نہیں ہوگا۔ اور اگر بدسلوکی اور نافرمانی بیوی کی جانب سے ہو جس سے شوہر کے حقوق معطل ہو کر رہ جائیں تو شوہر کو اجازت ہوگی کہ وہ اس مال پر خلع قبول کرلے جس پر دونوں رضا مند ہوجائیں۔ یہی عثمان البتی کا بھی قول ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ اگر بیوی ان حقوق کی ادائیگی سے باز رہے جو شوہر کی جانب سے اس پر لازم ہیں تو شوہر کے لیے فدیہ لینا جائز ہوجائے گا اور جب شوہر کے لیے و مال کھا لینا جائز ہے جو عورت بخوشی اسے دے دے اور علیحدگی کا کوئی مسئلہ نہ ہو تو علیحدگی کے لیے جو مال وہ بخوشی اسے دے دے اس کا کھا لینا بھی اسے جائز ہوگا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خلع کے سلسلے میں کئی آیتیں نازل کی ہیں۔ ایک یہ قول باری ہے ( وان اردتم استبدالزوج مکان زوج و اتیتم اجداھن قنطارا فلا تاخذوا منہ شیئا اتاخذونہ بھتانا و اثما مبینا) یہ آیت مرد کو عورت سے کوئی چیز لینے سے روک رہی ہے جبکہ بدسلوکی اور نفرت کا مظاہرہ مرد کی جانب سے ہو ۔ اس بنا پر ہمارے اصحاب نے کہا ہے کہ ایس صورت میں مرد کے لیے عورت سے کچھ لینا حلال نہیں ہے۔ ایک اور آیت ہے ( ولا یخل لکھ ان تاخذو مما اتیتموھن شیعئاً الا ان یخافا الا یقیما حدود اللہ) اس میں اللہ تعالیٰ نے کچھ لے لینے کو مباح کردیا ہے اگر دونوں کو حدود اللہ قائم نہ رکھ سکنے کا اندیشہ ہو اس کی صورت جیسا کہ ہم بیان کر آئے ہیں یہ ہے کہ عورت کو اپنے شوہر سے نفرت ہو اور وہ بدخلقی کا مظاہرہ کرے یا دونوں ایک دوسرے سے نفرت کرتے اور بدسلوکی پر اتر آئے ہوں تو ان تمام صورتوں میں مرد کے لئے وہ مال واپس لے لینا جائز ہے جو اس نے عورت کو دیا ہو، لیکن اس سے زائد نہ لے۔ ظاہر کا تقاضا تو یہ ہے کہ شوہر بیوی سے سب چکھ لے لے لیکن زائد کی تخصیص سنت سے ہوئی ہے۔ ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا (لا یحل لکوان ترثوا النساء کرھا و لا تعضلوھن لتذھبوا بعبض ما اتیتمو ھن الا ان یاتین بفاحشۃ مبینۃ) ایک قول ہے کہ اس میں شوہر سے خطاب ہے اور اسے بیوی کو دیئے ہوئے مال میں سے کوئی چیز بھی واپس لینے سے منع کردیا گیا ہے۔ البتہ اگر بیوی کی طرف سے صریح بدچلنی کا مظاہرہ ہو جس کے متعلق ایک قول ہے کہ یہ زنا ہے اور ایک قول ہے کہ یہ نفرت اور نافرمانی کا اظہار ہے۔ یہ آیت اس قول باری (فان خفتم الا یقیما حدود اللہ فلا جناح علیھما فیمافتدت بہ) کی نظیر ہے۔ ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (و ان خفتم شقاق بینھما فابعثوا حکماً من اھلہ و حکما من اھلھا) اگر تمہیں ان دونوں کی ناانتفاقی کا خطرہ ہو تو شوہر کے خاندان اور بیوی کے خاندان سے ایک ایک ثالث مقرر کرلو) ہم انشاء اللہ اس آیت کے حکم پر روشنی ڈالیں گے جب ہم اس پر پہنچ جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں نہیں بلکہ ایک دوسری آیت میں مہر کی رقم واپس لینے کی اباحت کا ذکر کیا ہے لیکن اس میں خلع کی صورت کا ذکر نہیں ہے۔ قول باری ہے (واتوا النساء صدقاتھن نحلۃ فان طبن لکم عن شیء منہ نفسا فکلوہ ھنیا مریا) اسی رطح ارشاد ہے (و ان طلقتم ھن من قبل ان تمسوھن و قد فرضتم لھن فریضۃ فنصف ما فرضتم الا ان یعفون او یعفوالذی بیدہ عقدۃ النکاح، اگر تم انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو جبکہ تم نے ان کے لئے مہر مقرر کیا ہو تو مقرر شدہ مہر کا آدھا ادا کرو الا یہ کہ وہ تمہیں معاف کردیں یا وہ شخص معاف کر دے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہو) یہ تمام آیات اپنے اپنے احکام کے مقتضیات کے مطابق مستعمل ہیں۔ یعنی اس پر عمل ہو رہا ہے۔ اب ہم کہتے ہیں کہ جب بدسلوک یاور نفرت کا اظہار شوہر کی جانب سے ہو تو اس کے لئے چکھ بھی لینا حلال نہیں ہوگا کیونکہ قول باری ہے (فلا تاخذوا منہ شیئا) نیز قول باری ہے (ولا تعضلو ھن لتذھبوا ببعض ما اتتموھن) اگر بدسلوکی اور نافرمانی کا مظاہرہ بیوی کی جانب سے ہو یا عورت کی بدخلقی یا ایک دوسرے سے نفرت کا خدشہ ہو اور یہ خطرہ ہو کہ ان حالات کے تحت وہ دونوں اللہ کے حدود کی پاسدار ی نہیں کرسکیں گے تو شوہر کے لئے بیوی کو دیا ہوا مال واپس لے لینا جائز ہوگا لیکن وہ اس سے زائد نہیں لے گا۔ اسی طرح قول باری ہے (ولا تعضلوھن لتذھبوا ببعض ما اتیتموھن الا ان یاتین بفاحشۃ میتۃ ض اس کی ایک تاویل یہ کی ہے کہ اس سے مراد عورت کی بدسلوکی اور اظہار نفرت ہے۔ اس صور ت میں مرد کے لئے اپنا دیا ہوا مال واپس لے لینا جائز ہوگا۔ قول باری (فان طبن لکم من شیء منہ نفسا فکلوہ ھیئا مریا) اس حالت سے تعلق رکھتا ہے جو خلع کی نہ ہو بلکہ رضامندی اور اپنی خوشی سے وہ مہر کا ایک حصہ چھوڑ دے۔ امام شافعی کا یہ قول درست نہیں ہے کہ جب خلع کی حالت کے بغیر بیوی کا مال لے لینا درست ہے تو خلع میں ایسا کرنا درست ہونا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دو مقامات پر مخصوص طریقے سے اس طرح ذکر فرمایا ہے کہ ایک مقام پر تو ممانعت ہے اور دوسرے مقام پر اباحت ہے۔ ممانعت کی آیتیں یہ ہیں (و ان اردتم استبدال زوج مکان زوج) اور (ولا یحل لکم ان تاخذوا مما اتیتموھن شیئا الا ان یخافا الا یقیما حدود اللہ) اور اباحت کی آیت یہ ہے (فان طین لکم عن شیء منہ نفسا فکاوہ ھیئا مریا) اس لئے یہ کہنا غلط ہے کہ جب رضا مندی کی حالت میں اس کا مال کھا لینا جائز ہے تو خلع کی حالت میں بھی جائز ہونا چاہیے۔ یہ بات نص کتاب اللہ کے خلاف ہے۔ حضور ﷺ سے خلچ کے سلسلے میں ایک روایت ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے بیان کی انہیں ابو دائود نے، انہیں القعنبی نے مالک سے، انہوں نے یحییٰ بن سعید سے، انہوں نے عمرہ بنت عبدالرحمن بن سعد بن ذرارہ سے، انہوں نے حبیبہ ؓ بنت سہل انصاریہ سے کہ وہ ثابت بن قیس بن شماس کے عقد می تھیں۔ حضور ﷺ ایک دن منہ اندھیرے باہر تشریف لے گئے تو دیکھا کہ دروازے پر حبیبہ بنت سہل صبح کی ہلکی تاریکی میں کھڑی ہے۔ حضور نے پوچھا کون ہے ؟ جواب ملا حبیبہ بنت سہل، پھر پوچھا کیا بات ہے۔ جوا بملا کہ نہ تو مجھے سکون ہے اور نہ ہی میرے شوہر ثابت بن قیس کو جب آپ نے شوہر کو بلوا بھیجا تو اس سے فرمایا : ” یہ حبیبہ بنت سہل ہے “۔ اس کے بعد حبیبہ جو کچھ کہہ سکتی تھی کہہ گزر یاور آخر میں کہنے لگی : ” اللہ کے رسول ﷺ ! میرے شوہر نے جو کچھ مجھے دیا ہے وہ میرے پاس ہے۔ “ یہ سن کر حضور ﷺ نے ثابت سے کہا کہ اپنی بیوی سے یہ لے لو۔ اس کے بعد حبیبہ اپنے خاندان میں جا کر بیٹھ رہی۔ بعض روایات میں یہ الفاظ ہیں کہ ” اس کے راستے سے ہٹ جائو “۔ بعض میں ہے کہ ” اس سے علیحدگی اختیار کرلو “۔ فقہاء کا یہ قول کہ شوہر کو زائد لینے کی گنجائش نہیں ہے اس روایت کی بنا پر ہے جو ہمیں عبدالباقی بن قانع نے سنائی ہے۔ انہیں عبداللہ بن احمد بن حنبل نے، انہیں محمد بن یحییٰ بن ابی سمیتہ نے، انہیں الولید بن مسلم نے ابن جریج سے، انہوں نے عطاء سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہ ایک شخص اپنی بیوی کا جھگڑا حضور ﷺ کے پاس لے کر آیا۔ حضور ﷺ نے عورت سے فرمایا کہ کیا تو وہ سب کچھ واپس کر دے گی جو اس نے تجھے دیا ہے “ اس نے جواب دیا : ” ہاں اور اس سے کچھ زائد “۔ یہ سن کر حضور ﷺ نے فرمایا : ” زائد لینے کی اجازت نہیں ہے “۔ ہمارے اصحاب کا اس حدیث کی بنئا پر یہ قول ہے کہ شوہر بیوی سے زائد مال نہیں لے گا۔ انہوں نے ظاہر آیت کی اس حدیث کی بنا پر تخصیص کردی ہے۔ اب آیت کی خبر واحد کی بنا پر تخصیص اس وجہ سے جائز ہوئی کہ قول باری (فان خفتم الا یقیما حدود اللہ فلا جناح علیھما فیما افتدت بہ) میں کئی معانی کا احتمال اور اس میں رائے زنی یعنی اجتہاد کی گنجائش ہے اور سلف سے اس سلسلے میں مختلف وجوہ منقول ہیں۔ اسی طرح قول باری (ولا تعضلوھن لتذھبوا ببعض ما اتیتموھن الا ان یاتین بفاحشۃ مسینۃ) میں بھی کئی معانی کا احتمال ہے جیسا کہ ہم بیان کر آئے ہیں۔ اس لئے خبر واحد کے ذریعہ اس کی تخصیص جائز ہے۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے (اولا مستم النساء) یا و ان طلقتموھن من قبل ان تمسوھن) جب آیت میں کئی احتمالات تھے اور سلف میں بھی اس کے معنی مراد میں اختلاف تھا اس لئے کہ معنی مراد کے لئے خبر واحد کو قبول کرنا جائز ہوگیا۔ ہمارے اصحاب کا جو یہ قول ہے کہ جب شوہر دیئے ہوئے مال سے زائد پر یا کچھ مال پر خلع کرنے پر رضامند ہوجائے جبکہ بدسلوکی اور نفرت اسی کی جانب سے ہو رہی ہو تو یہ دنیاوی حکم کے لحاظ سے درست ہوگا اگرچہ فیما بینہ و بین الللہ اس کی گنجائش نہیں ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ مال بیوی اپنی خوش دلی سے دے رہی ہے اور اسے اس پر مجبور نہیں کیا گیا ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد بھی ہے کہ (لا یحل مال امری مسلم الابطیبۃ من نفسہ، کسی مسلمان کا مال لینا حلال نہیںے الا یہ کہ وہ اپنی خوشی سے دے دے) نیز ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نہی کا تعلق نفس عقد کے کسی مفہو سے نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق اس کے سوا اور چیز سے ہے اور وہ یہ ہے کہ شوہر نے اسے اتنا نہیں دیا جتنا کہ اس سے لے لیا۔ اگر وہ اس قدر اسے دے چکا ہوتا تو پھر اس کا اس طرح لینا مکروہ نہ ہوتا۔ اب جب کہ نہی کا تعلق عقد کے اندر پائے جانے والے کسی معنی سے نہیں ہے تو یہ بات جواز عقد کے لئے مانع نہیں بن سکتی مثلاً اذان جمعہ کے وقت کوئی سودا کرنا یا شہر میں رہنے والے کسی شخص کا باہر سے آنے والے کسی شخص سے کوء یچیز خرید لینا یا تجارتی قافلے کو شہر سے باہر ہی جا کر مل لینا اور سودے طے کرلینا وغیرہ۔ اسی طرح غلام کو تھوڑے یا زیادہ مال کے بدلے آزاد کردینا جائز ہے۔ نیز قتل عمد میں تھوڑے یا زیادہ مال پر صلح کرلینا جائز ہے، تو طلاق کا معاملہ بھی اسی طرح جائز وہنا چاہیے۔ پھر جب مہر مثل سے زائد رقم پر نکاح جائز ہے جبکہ وہ عورت کی ذات یعنی بضع کا بدل ہے اسی طرح اگر عور تاپنے مہر مثل سے زائد رقم دے کر اپنی جان چھڑا لے تو یہ بھی جائز ہونا چاہیے کیونکہ نکاح اور ضلع دونوں صورتوں میں یہ رقم اس کی ذات یعنی بضع کا بدل ہوتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب خلع فسخ نکاح ہوتا ہے تو اس میں اس رقم سے زائد لینا جائز نہیں ہونا چاہیے جس پر عقد نکاح ہوا تھا جس طرح کہ اقالہ کی صور ت میں ثمن سے زئاد رقم لینا درست نہیں ہوتا (اگر سودا طے ہونے کے بعد اسے ختم کردیا جائے تو فقہی اصطلاح میں اسے اقالہ کہتے ہیں) اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ معترض کا یہ کہنا کہ خلع فسخ عقد نکاح ہے، غلط بات ہے بلکہ یہ نئے سرے سے اسی طرح کی طلاق ہے جس طرح کوء یبدل یعنی رقم کے بغیر طلاق دی جائے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ خلع کسی طرح بھی بمنزلہ اقالہ نہیں ہے کیونکہ اگر شوہر دیئے ہوئے مال سے کم لے کر خلع پر آمادہ ہوجائے تو یہ صورت بالاتفاق جائز ہے جب کہ ثمن سے کم رقم لے کر اقالہ جائز نہیں ہوتا۔ اسی طرح کچھ لئے بغیر بھی خلع بالاتفاق جائز ہوتا ہے۔ حاکم کے واسطے کے بغیر خلع کے متعلق اختلاف ہے۔ حسن اور ابن سیرین سے مروی ہے کہ خلع صرف سلطان یعنی حاکم کے پاس جا کر ہی درست ہوسکتا ہے سعید بن جبیر کا قول ہے کہ جب تک شوہر بیوی کو سمجھا بجھا نہ لے اس وقت تک خلچ کا عم ل نہیں ہوگا۔ اگر بیوی سمجھ جائے تو فبہا ورنہ اس سے کنارہ کشی اختیار کرے، اگر پھر بھی نہ سمجھے تو اس کی پٹائی کرے، اگر پھر بھی نہ سمجھے تو معاملہ سلطان کے پاس لے جائے (یا عدالت میں پیش کر دے) سلطان میاں اور بیوی کے خاندانوں سے ایک ایک ثالث مقرر کر دے۔ یہ دونوں ثالث جو کچھ سنیں سلطان سے بیان کردیں اس کے بعد اگر سلطان کی رائے ان دونوں کو علیحدہ کردینے کی ہوجائے تو علیحدہ کر دے اور اگر دونوں کو اکٹھا کرنے کی ہوجائے تو اکٹھا کر دے۔ حضرت علی ؓ ، حضرت عمر ؓ ، حضرت عثمان ؓ ، حضرت ابن عمر ؓ ، قاضی شریح، طائوس اور زہری اور بہت سے دوسرے حضرات کا قول ہے کہ سلطان کے واسطے کے بغیر بھی خلع جائز ہے۔ سعید نے قتادہ سے روایت کی ہے کہ گورنرکوفہ و بصرہ زیادہ پہلا شخص تھا جس نے سلطان کے بغیر خلع کے نفاذ کو رد کردیا تھا۔ تاہم فقہائے امصار کے درمیان سلطان کے واسطے کے بغیر خلع کے جواز کے متعلق کوئی اختلاف نہیں ہے کتاب اللہ بھی اس کے جواز کو واجب کرتی ہے۔ قول باری ہے (ولا جناح علیھما فیما افتدل بہ) نیز (ولا تعضلوھن لتذھبوا ببعض ما اتیتموھن الا ان یاتین بفاحشۃ مبینۃ) اس میں اللہ تعالیٰ ن یدونوں کی باہمی رضا مندی سے بیوی سے مال لے کر خلع کو مباح کردیا ہے اور اس میں سلطان کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اسی طرح حضور ﷺ نے ثابت بن قیس کی بیوی سے فرمایا تھا کہ ” کیا تو اس کا باغ لوٹا دے گی “۔ خاتون نے اثبات میں جواب دیا تھا۔ اس پر آپ نے شوہر سے کہا تھا کہ باغ لے لو اور اس سے علیحدہ ہو جائو۔ آپ کا یہ ارشاد بھی اس پر دلالت کرتا ہے کہ خلع کا عمل سلطان کے واسطے کے بغیر بھی درست ہے کیونکہ اگر خلع کا معاملہ سلطان کے ہاتھ میں ہوتا خواہ زوجین خلع کرنا چاہتے یا انکار کرتے جبکہ سلطان کو اس کا علم ہوجاتا کہ یہ دونوں اللہ کے حدود کو قائم رکھنے کے متعلق اندیشے میں مبتلا ہیں تو حضور ﷺ ان دونوں میاں بیوی سے اس بارے میں استفسار نہ کرتے اور نہ ہی شوہر کو خطاب کر کے یہ کہتے کہ خلع کرلو بلکہ آپ خود خلع کا عمل سرانجام دے کر اس کا باغ اسیلوٹا دیتے خواہ دونوں اس بات کو قبول کرنے سے انکار کردیتے یا ان میں سے ایک انکاری ہوجاتا۔ جس طرح کہ لعان کی صورت میں میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کا معاملہ سلطان کے ہاتھ میں ہوتا ہے تو حضور ﷺ نے لعان کرنے والے مرد سے یہ نہیں کہا کہ اب اس کے راستے سے ہٹ جائو بلکہ خود دونوں کے درمیان علیحدگی کرا دی جیسا کہ حضرت سہل بن سعد ؓ نے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے لعان کرنے والے زوجین کے درمیان علیحدگی کردی تھی۔ جس طرح کہ ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ نے شوہر سے کہا اب بیوی تک رسائی کا تمہارے لئے کوئی راستہ نہیں رہ گیا۔ آپ نے یہ معاملہ شوہر کے ہاتھ میں نہیں دیا۔ اس بیان سے یہ واضح ہوگیا کہ خلع سلطان کے بغیر بھی جائز ہے اس پر حضور ﷺ کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے کہ (لا یحل مال امرء مسلم الا بطیبۃ من نفسہ) ۔ کیا خلع طلاق ہے ؟ خلع طلاق ہے یا نہیں اس کے متعلق اختلاف ہے۔ حضرت عمر ؓ ، حضرت عبداللہ، حضرت عثمان ؓ ، حسن بصری، ابو سلمہ، قاضی شریح، ابراہیم نخعی، شعبی اور مکحول سے مروی ہے کہ خلع ایک طلاق بائن ہے۔ یہی فقاء امصار کا قول ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ یہ طلاق نہیں ہے۔ ہمیں عبدالباقی نے روایت سنائی، انہیں علی بن محمد نے، انہیں ابوالولید نے، انہیں شعبہ نے، انہیں عبدالملک بن میسرہ نے کہ ایک شخص نے طائوس سے خلع کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ اس سے کچھ نہیں ہوتا یعنی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ اس پر عبدالملک بن میسرہ نے کہا کہ آپ اس بارے میں ایسی بات کہتے ہیں جو ہم نے کہیں اور نہیں سنی۔ اس پر طائوس نے خدا کی قسم کھا کر کہا کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے شوہر اور بیوی کو دو طلاقوں اور خلع کے بعد بھی میاں بیوی رہنے دیا۔ اس روایت کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ اس میں طائوس کو غلطی لگ گئی ہے کیونکہ طائوس باوجود اپنی جلالت شان، فضل اور تقویٰ و پرہیز گاری کے روایت میں بہت غلطیاں کرتے تھے۔ اور بہت سی ایسی باتیں بھی انہوں نے روایت کی ہیں جو سرے سے ناقابل قبول ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا جس شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں وہ ایک شمار ہوگی۔ حالانکہ حضرت ابن عباس ؓ سے متعدد طرق سے مروی ہے کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو ستاروں کی تعداد کے برابر طلاق دی وہ تین طلاقوں کی وجہ سے اس پر بائن ہوجائے گی۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ ایوب جو مشہور محدث تھے طائوس کی غلطیوں کی کثرت پر تعجب کیا کرتے تھے۔ ابن ابی نجیع نے طائوس سے نقل کیا ہے کہ خلع طلاق نہیں ہے۔ اہل مکہ نے یہ سن کر ان کی تردید کی جس پر انہوں نے کچھ لوگوں کو جمع کر کے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میں نے حضر تابن عباس ؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں احمد بن الحسن عبدالجبار نے انہیں ابو ہمام نے، انہیں الولید نے ابو سعید روح بن خباح سے، انہوں نے کہا کہ میں نے زمعہ بن ابی عبدالرحمن سے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے سعید بن المسیب کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ حضور ﷺ نے خلع کو ایک طلاق قرا ردیا ہے۔ خلع طلاق ہے۔ اس پر حضور ﷺ کا یہ قول بھی دلالت کرتا ہے جو آپ نے ثابت بن قیس کو فرمایا تھا جب کہ اس کی بیوی نے اس کی نافرمانی کی تھی کہ ” اس کے راستے سے ہٹ جائو “ یا بعض روایت میں ہے کہ اس سے جدا ہو جائو “ اور بیوی سے فرمایا کہ ثابت کا باغ اسے واپس کر دو ، بیوی نے عرض کیا۔ ” میں نے ایسا کرلیا۔ “ اب یہ بات واضح ہے کہ جو شخص اپنی بیوی سے یہ کہے کہ ” میں تجھ سے جدا ہوگیا “ یا ” میں نے تیرا راستہ چھوڑ دیا۔ “ اور اس کی نیت اس سے علیحدگی کی ہو تو یہ طلاق ہوگی۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ شارع (علیہ السلام) کے حکم سے ثابت کا اپنی بیوی سے خلع کرلینا دراصل طلاق کی صورت تھی۔ نیز اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر شوہر اپنی بیوی سے یہ کہے ” میں تجھے کچھ مال ک یبدلے طلاق دیتا ہوں “۔ یا ” میں تیرا معاملہ کچھ مال کے بدلے تیرے ہاتھ میں دیتا ہوں۔ “ تو یہ طلاق ہوگی۔ اسی طرح اگر شوہر یہ کہے۔ ” میں نے کسی مال کے بغیر تجھ سے خلع قبول کرلیا۔ ” یہ کہتے ہوئے اس کی نیت فرقت یعنی علیحدگی کی ہو تو یہ طلاق ہوگی اس لئے اگر وہ کچھ مال لے کر خلع قبول کرلے تو یہ صورت بھ یطلاق کی ہونی چاہیے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ایک شخص اگر خلع کا کہے تو بمنزلہ اقالہ ہوگا جو بیع میں ہوا کرتا ہے اور اقالہ فسخ بیع ہوتا ہے نئے سرے سے بیع نہیں ہوتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ مال لئے بغیر خلع کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اسی طرح مہر سے کم رقم پر بھی بالاتفاق خلع ہوسکتا ہے۔ جبکہ اقالہ اس ثمن کو واپس کئے بغیر نہیں ہوسکتا جو سودے میں طے شدہ قول کے مطابق ادا کیا گیا تھا۔ اگر خلع بھی اقالہ کی طرح فسخ عقد نکاح ہوتا تو وہ نکاح میں مقرر شدہ مہر کے بدلے ہوتا۔ اب جبکہ تمام لوگوں کا اتفاق ہے کہ خلع مال کے بغیر یا مہر سے کم مال پر ہوسکتا ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ خلع دراصل مال لے کر طلاق دینے کی شکل ہے اور یہ فسخ نہیں ہے۔ اور میں اور شورہ کے اس قول میں کہ ” میں نے تجھے اس مال کے بدلے طلاق دے دی، کوئی فرق نہیں ہے۔ جن لوگوں کا یہ قول ہے کہ خلع طلاق نہیں ہے ان کا استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب یہ فرمایا (الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان) پھر اس کے بعد یہ فرمایا (ولا یحل لکم ان تاخذوا مما اتیتموھن شیئا) اور اسی سیاق میں یہ فرمایا (فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ) اور خلع کے بعد تیسری طلاق کو ثابت کردیا تو اس سے یہ دلالت ہوگئی کہ خلع طلاق نہیں ہے کیونکہ اگر یہ طلاق ہوتا تو پھر (فان طلقھا) چوتھی طلاق ہوتی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دو طلاقوں کے ذکر کے بعد خلع کا ذکر کیا پھر اس کے بعد تیسری طلاق کا ذکر فرمایا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہمارے نزدیک یہ بات اس طرح نہیں ہے وہ اس لئے کہ قول باری (الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان) دو ایسی طلاقوں کی خبر دے رہا ہے جو خلع کی صورت میں نہ دی گئی ہوں اور پھر ان کے ساتھ رجوع کی گنجائش بھی ثابت رکھی جس کے لئے فرمایا (فامساک بمعروف) ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں طلاقوں کا حکم بیان فرمایا اگر یہ خلع کی شکل میں ہوں اور اس میں ممانعت اور اباحت کی صورتیں بھی بتلا دیں اور وہ حالت بھی بیان کردی جس میں خلع کے بدلے مال لینا جائز ہے یا جائز نہیں ہے۔ پھر اس پورے بیان پر اس قول کو عطف کیا (فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ) اور اس کے ذریعے پھر ان ہی دو طلاقوں کی طرف روئے سخن کرلیا جن کا ذکر پہلے کبھی بصورت خلع ہوا تھا اور کبھی کسی اور صورت میں۔ اس تشریح کی روشنی میں یہ دلالت نہیں ملتی کہ خلع دو طلاقوں کے بعد ہوتا ہے اور خلع کے بعد جو تیسری طلاق ہے وہ دراصل چوتھی طلاق بن جاتی ہے۔ اس سے اس امر پر بھی دلالت ہوتی ہے کہ ضلع حاصل کرلینے والی عورت کو طلاق لاحق ہوجاتی ہے۔ اس لئے فقہاء امصار کا درج بالا آیات کی اس ترتیب اور تشریح پر اتفاق ہے جو ہم نے ابھی اوپر کی سطور میں بیان کی ہے اور خلع کے بعد تیسری طلاق ہوگئی جس کی صحت کا حکم اللہ نے دے دیا اور جس کے بعد بیوی کو ہمیشہ کے لئے اس پر حرام کردیا الا یہ کہ کسی اور مرد سے نکاح کرے تو یہ اس بات کی دلیل بن گئی کہ خلع حاصل کرنے والی عورت کو جب تک وہ عدت میں ہے طلاق لاحق ہوسکتی ہے۔ تیسری طلاق خلع کے بعد ہوتی ہے اس پر ترتیب آیات میں یہ قول باری (فان طلقھا فلا جناح علیما ان یتراجعا ان ظنا ان یقیما حدود اللہ) دلالت کرتا ہے جسے ماقبل کے بیان اور اس قول باری (ولا یحل لکم ان تاخذوا مما اتیتموھن شیئا الا ان یخافا الا یقیما حدود اللہ) پر عطف کیا گیا ہے۔ اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے تیسری طلاق کے بعد ایک دوسرے سے رجوع کرلینے کو مباح کردیا ہے بشرطیکہ حدود اللہ کو قائم نہ رکھ سکنے کا خوف زائل ہوجائے۔ اس لئے کہ یہ ممکن ہے کہ جدائی کے بعد دونوں اپنے کئے پر پشیمان ہوجائیں اور ہر ایک کا دل الفت اور رفاقت کی طرف واپس آ جانا چاہیے۔ یہ بات اس حقیقت پر دلالت کرتی ہے کہ تیسری طلاق جس کا ذکر یہاں وا ہے وہ خلع کے بعد ہے۔ قول باری (ان ظنا ان یقیما حدود اللہ) حوادث یعنی پش آمدہ امور کے احکام میں اجتہاد کے جواز پر دلالت کرتا ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اباحت کو ظن کے ساتھ متعلق کردیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ قول باری (فلا تحل لہ من بعد) قول باری (الطلاق مرتان) کی طرف راجع ہے۔ اس فدیہ کی طرف راجع نہیں ہے جس کا ذکر اس کے بعد ہوا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات کئی وجوہ سے فاسد ہے۔ ایک یہ کہ قول باری (ولا یحل لکم ان تاخذوا مما آتیتموھن شیئا) دو طلاقوں کے ذکر کے بعد نئے سرے سے شروع کیا گیا خطاب ہے اور یہ ان دونوں طلاقوں پر مرتب نہیں ہے کیونکہ یہ خطاب ان دونوں پر معطوف ہے۔ جب ایک طرف یہ بات ہے اور دوسری طرف فدیہ کے ذکر کے بعد فرمایا (فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ) تو یہ ضروری ہوگیا کہ یہ قول فدیہ پر مرتب ہو کیونکہ حرف فاء تعقیب کے لئے ہوتا ہے اور یہ بات درست نہیں ہے کہ اسے ان دو طلاقوں پر مرتب تسلیم کیا جائے جن کا ذکر ابتدا میں ہوا ہے اور اس کے متصل فقرے پر اسے عطف نہ کیا جائے۔ یہ بات صرف اسی وقت درست ہوسکتی ہے جب کوئی ایسی دلالت موجود ہو جو اس کا تقاضا کر رہی ہو اور اسے ضروری قرار دے رہی ہو۔ جیسا کہ تخصیص کے لفظ کے ساتھ استثناء کی صورت میں آپ یہ کہتے ہیں کہ یہ اس کے متصل حکم کی طرف عائد ہوتا ہے اور کسی دلالت کے بغیر ماقبل پروارد نہیں ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ قول باری (وربائکم اللاتی فی حجورکم من نسائکم اللاتی دخلتم بھن فان لم تکونوا دخلتم بھن فلا جناح علیکم اور تمہاری بیویوں کی لڑکیاں جنہوں نے تمہاری گودوں میں پرورش پائی ہے۔ ان بیویوں کی لڑکیاں جن سے تمہارا تعلق زن و شو قائم ہوچکا ہو ورنہ اگر صرف نکاح ہوا ہو اور تعلق زن و شو نہ ہوا ہو تو انہیں چھوڑ کر ان کی لڑکیوں سے نکاح کرلینے میں تم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے) میں دخول کی شرط ربائب (گودوں میں پرورش پانے والی لڑکیوں) کی طرف راجع ہے۔ امہات نساء یعنی بیویوں کی مائوں کی طرف راجع نہیں ہے۔ کیونکہ حرف فاء کے ذریعے عطف ان سے متصل ہے، امہات نساء کے متصل نہیں ہے حالانکہ یہ بات معترض کے ذکر کردہ بات کے مقابلے میں اقرب ہے کہ (فان طلقھا) کا عطف قول باری (الطلاق مرتان) پر ہے، فدیہ پر نہیں ہے جو اس کے متصل ہے۔ کیونکہ معترض اسے فدیہ پر عطف نہیں مانتا جو کہ اس کے متصل ہے بلکہ اسے اس کے ماقبل پر عطف تسلیم کرتا ہے۔ ان دونوں کے درمیان آنے والی بات یعنی فدیہ کے ذکر پر اسے عطف نہیں کرتا۔ نیز ہم (فان طلقھا) کو پورے بیان یعنی فدیہ اور فدیہ سے قبل ذکر ہونے والی دو طلاقوں پر جو بطور فدیہ نہیں ہیں پر عطف کرتے ہیں۔ اس صورت میں اس کے تحت دو فائدے بیان ہوجائیں گے ایک تو یہ کہ دو طلاقوں کے ذریعے خلع کے بعد بھی طلاق کا جواز ہوتا ہے اور دوسرے یہ کہ خلع کی صورت کے علاوہ دی گئی دو طلاقوں کے بعد طلاق کا جواز ہوتا ہے۔ واللہ اعلم !
Top