Ahkam-ul-Quran - An-Noor : 11
اِنَّ الَّذِیْنَ جَآءُوْ بِالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ١ؕ لَا تَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّكُمْ١ؕ بَلْ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ١ؕ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ١ۚ وَ الَّذِیْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ مِنْهُمْ لَهٗ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک جو لوگ جَآءُوْ بالْاِفْكِ : بڑا بہتان لائے عُصْبَةٌ : ایک جماعت مِّنْكُمْ : تم میں سے لَا تَحْسَبُوْهُ : تم اسے گمان نہ کرو شَرًّا : برا لَّكُمْ : اپنے لیے بَلْ هُوَ : بلکہ وہ خَيْرٌ لَّكُمْ : بہتر ہے تمہارے لیے لِكُلِّ امْرِۍ : ہر ایک ٓدمی کے لیے مِّنْهُمْ : ان میں سے مَّا اكْتَسَبَ : جو اس نے کمایا (کیا) مِنَ الْاِثْمِ : گناہ سے وَالَّذِيْ : اور وہ جس تَوَلّٰى : اٹھایا كِبْرَهٗ : بڑا اس کا مِنْهُمْ : ان میں سے لَهٗ : اس کے لیے عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
جن لوگوں نے بہتان باندھا ہے تم ہی میں سے ایک جماعت ہے اس کو اپنے حق میں برا نہ سمجھنا بلکہ وہ تمہارے لئے اچھا ہے ان میں سے جس شخص نے گناہ میں جتنا حصہ لیا اس کے لئے اتنا وبال ہے اور جن نے ان میں سے اس بہتان کا بڑا بوجھ اٹھایا ہے اس کو بڑا عذاب ہوگا
واقعہ افک میں حضور ﷺ کے صبر کا پھل قول باری ہے : (ان الذین جائو ا بالا فک عصبۃ منکم لا تحسبوہ شرا لکم بل ھو خیر لکم۔ ) جو لوگ یہ بہتان گھڑ لائے ہیں وہ تمہارے ہی اندر کا ایک ٹولہ ہیں۔ اس واقعے کو اپنے حق میں شر نہ سمجھو بلکہ یہ بھی تمہارے لئے خیر ہی ہے۔ یہ آیت ان لوگوں کے متعلق نازل ہوئی ہے جنہوں نے حضرت عائشہ ؓ پر بہتان باندھا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ یہ جھوٹ ہے۔ افک جھوٹ کو کہتے ہیں۔ اس بہتان کی وجہ سے حضور ﷺ ، حضرت ابوبکر ؓ اور مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو سخت ذہنی کوفت ، پریشانی اور صدمے کے سامنے کرنا پڑا لیکن انہوں نے صبر کیا اس لئے یہ ان کے حق میں خیر بن گیا۔ اس بہتان پر ان کا صبر اور ان کا کرب ان کے حق میں شر ثابت نہیں ہوا بلکہ چندہ وجوہ کی بنا پر یہ خیر قرار پایا۔ اول تو یہ کہ انہیں صبر کرنے کا ثواب ملا، دوم یہ کہ انہیں اس وقت زبردست مسرت حاصل ہوئی جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت عائشہ ؓ کی برات اور پاکدامنی کا اعلان کردیا گیا۔ سوم یہ کہ اس کے ذریعے انہیں قاذف کے احکامات معلوم ہوگئے۔ قول باری ہے۔ (لکل امری منھم ما اکتسب من الاثم) جس نے اس میں جتنا حصہ لیا اس نے اتنا ہی گناہ سمیٹا۔ یعنی…واللہ اعلم…جس نے جتنا گناہ سمیٹا اتنی ہی اسے اس کی سزا ملی۔ قول باری ہے :(والذی تولی کبرہ۔ اور جس شخص نے اس کی ذمہ داری کا بڑا حصہ اپنے سر لیا) روایت میں ہے کہ یہ شخص عبداللہ ابی بن سلول تھا۔ (کبرہ) کے معنی ہیں اس کا بڑا حصہ۔ یعنی اس بہتان طرازی کا بڑا حصہ ۔ منافقین عبداللہ بن ابی کے پاس اکٹھے ہوئے اور اس کی رائے اور حکم کے تحت اس بہتان کی لوگوں میں اشاعت کرتے اور طرح طرح کی چہ میگوئیاں کرتے۔ عبداللہ بن ابی اس کے ذریعے حضور ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ کو ذہنی کوفت پہنچانا اور ان کی ذات پر کیچڑاچھالنا چاہتا تھا۔
Top