Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - An-Noor : 31
وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُیُوْبِهِنَّ١۪ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَآئِهِنَّ اَوْ اٰبَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَآئِهِنَّ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اَخَوٰتِهِنَّ اَوْ نِسَآئِهِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُنَّ اَوِ التّٰبِعِیْنَ غَیْرِ اُولِی الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْهَرُوْا عَلٰى عَوْرٰتِ النِّسَآءِ١۪ وَ لَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِهِنَّ١ؕ وَ تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ جَمِیْعًا اَیُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
وَقُلْ
: اور فرما دیں
لِّلْمُؤْمِنٰتِ
: مومن عورتوں کو
يَغْضُضْنَ
: وہ نیچی رکھیں
مِنْ
: سے
اَبْصَارِهِنَّ
: اپنی نگاہیں
وَيَحْفَظْنَ
: اور وہ حفاظت کریں
فُرُوْجَهُنَّ
: اپنی شرمگاہیں
وَلَا يُبْدِيْنَ
: اور وہ ظاہر نہ کریں
زِيْنَتَهُنَّ
: زپنی زینت
اِلَّا
: مگر
مَا
: جو
ظَهَرَ مِنْهَا
: اس میں سے ظاہر ہوا
وَلْيَضْرِبْنَ
: اور ڈالے رہیں
بِخُمُرِهِنَّ
: اپنی اوڑھنیاں
عَلٰي
: پر
جُيُوْبِهِنَّ
: اپنے سینے (گریبان)
وَلَا يُبْدِيْنَ
: اور وہ ظاہر نہ کریں
زِيْنَتَهُنَّ
: اپنی زینت
اِلَّا
: سوائے
لِبُعُوْلَتِهِنَّ
: اپنے خاوندوں پر
اَوْ
: یا
اٰبَآئِهِنَّ
: اپنے باپ (جمع)
اَوْ
: یا
اٰبَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ
: اپنے شوہروں کے باپ (خسر)
اَوْ اَبْنَآئِهِنَّ
: یا اپنے بیٹے
اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ
: یا اپنے شوہروں کے بیٹے
اَوْ اِخْوَانِهِنَّ
: یا اپنے بھائی
اَوْ
: یا
بَنِيْٓ اِخْوَانِهِنَّ
: اپنے بھائی کے بیٹے (بھتیجے)
اَوْ
: یا
بَنِيْٓ اَخَوٰتِهِنَّ
: یا اپنی بہنوں کے بیٹے (بھانجے)
اَوْ نِسَآئِهِنَّ
: یا اپنی (مسلمان) عورتیں
اَوْ مَا مَلَكَتْ
: یا جن کے مالک ہوئے
اَيْمَانُهُنَّ
: انکے دائیں ہاتھ (کنیزیں)
اَوِ التّٰبِعِيْنَ
: یا خدمتگار مرد
غَيْرِ اُولِي الْاِرْبَةِ
: نہ غرض رکھنے والے
مِنَ
: سے
الرِّجَالِ
: مرد
اَوِ الطِّفْلِ
: یا لڑکے
الَّذِيْنَ
: وہ جو کہ
لَمْ يَظْهَرُوْا
: وہ واقف نہیں ہوئے
عَلٰي
: پر
عَوْرٰتِ النِّسَآءِ
: عورتوں کے پردے
وَلَا يَضْرِبْنَ
: اور وہ نہ ماریں
بِاَرْجُلِهِنَّ
: اپنے پاؤں
لِيُعْلَمَ
: کہ جان (پہچان) لیا جائے
مَا يُخْفِيْنَ
: جو چھپائے ہوئے ہیں
مِنْ
: سے
زِيْنَتِهِنَّ
: اپنی زینت
وَتُوْبُوْٓا
: اور تم توبہ کرو
اِلَى اللّٰهِ
: اللہ کی طرف ( آگے)
جَمِيْعًا
: سب
اَيُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ
: اے ایمان والو
لَعَلَّكُمْ
: تاکہ تم
تُفْلِحُوْنَ
: فلاح (دوجہان کی کامیابی) پاؤ
اور مومن عورتوں سے بھی کہہ دو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش (یعنی زیور کے مقامات) کو ظاہر نہ ہونے دیا کریں مگر جو اس میں سے کھلا رہتا ہو اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھے رہا کریں اور اپنے خاوند اور باپ اور خسر اور بیٹوں اور خاوند کے بیٹوں اور بھائیوں اور بھتیجوں اور بھانجوں اور اپنی (ہی قسم کی) عورتوں اور لونڈیوں غلاموں کے سوا نیز ان خدام کے جو عورتوں کی خواہش نہ رکھیں یا ایسے لڑکوں سے جو عورتوں کے پردے کی چیزوں سے واقف نہ ہوں (غرض ان لوگوں کے سوا) کسی پر اپنی زینت (اور سنگار کے مقامات) کو ظاہر نہ ہونے دیں اور اپنے پاؤں (ایسے طور سے زمین پر) نہ ماریں کہ (چھنکار کی آواز کانوں میں پہنچے اور) ان کا پوشیدہ زیور معلوم ہوجائے اور (مومنو ! ) سب خدا کے آگے توبہ کرو تاکہ تم فلاح پاؤ
خواتین بھی نظر بچا کر رکھیں قول باری ہے : (وقل للمومنات یغضضن من ابصارھن) اور مومن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ نے مردوں کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ ان چیزوں سے اپنی نظریں بچا کر رکھیں جن پر نظر ڈالنا حرام ہے۔ عورتوں کو بھی نظر ڈالنے کے سلسلے میں یہی حکم ہے۔ قول باری : (و یحفظوا فروجھم) نیز (ویحفظن فروجھن) کی تفسیر میں ابوالعالیہ سے ان کا یہ قول مروی ہے کہ قرآن مجید میں جس جگہ بھی یہ حکم مذکور ہے اس سے مراد زنا سے اپنی شرمگاہوں کی حفاظت ہے۔ سوائے سورة نور کے درج بالا آیتوں کے، یہاں ایسی حفاظت مراد ہے کہ کوئی شخص ان شرمگاہوں پر نظر نہ ڈال سکے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ابو العالیہ کا یہ قول آیت کی بلا دلیل تخصیص کے مترادف ہے۔ ظاہر آیتجس امر کی مقتضی ہے وہ یہ ہے کہ شرمگاہوں کو ان تمام باتوں سے محفوظ رکھا جائے جو ایک انسان کے لئے حرام قرار دی گئی ہیں یعنی زنا، لمس اور نظر بازی وغیرہ اسی طرح اس مقام کے علاوہ قرآن میں دوسرے مقامات پر شرمگاہوں کی حفاظت کے حکم پر مشتمل آیات میں مذکورہ بالا باتوں سے شرمگاہوں کو بچانا مراد ہے اور یہ آیات ان تمام باتوں پر محمول ہیں البتہ یہ کہ کوئی دلالت ایسی قائم ہوجائے جو یہ نشاندہی کردے کہ ان میں بعض مراد ہیں اور بعض نہیں ہیں۔ ابوالعالیہ نے غض بصر کے حکم سے شرمگاہ پر نظر ڈالنے کی ممانعت نیز دوسری آیا میں شرمگاہوں کی حفاظت کے امر سے زنا کاری کی نہی مراد لے کر جو تخصیص کی ہے شاید الفاظ اس تخصیص کا ساتھ نہ دے سکیں اس لئے کہ اس میں کوئی امتناع نہیں ہے کہ غض بصر اور حفظہ فروج کے حکم کے تحت مسلمانوں کو غلط نظر باری اور زنا کاری نیز ان تمام امور سے روکا گیا ہے جن کی شریعت کے ہاں ممانعت ہے۔ علاوہ ازیں اگر آیت میں بدنظری کی ممانعت مراد ہے تو پھر لا محالہ لمس اور وطی بھی آیت میں مراد ہوں گے کیونکہ یہ دونوں قبیح افعال نظر بازی سے بھی زیادہ سنگین ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ آیت کے ذریعے صرف نظر بازی کی ممانعت پر نص کردیتا تو خطاب باری کے مفہوم میں ایسی بات بھی ضرور شامل ہوتی جو لمس اور وطی کی ممانعت کی موجب بن جاتی جس طرح قول باری (ولا تقل تھما اف ولا تنھر ھما اور ماں باپ کو اف تک نہ کہو اور نہ ہی انہیں جھڑکو) ان دونوں باتوں سے زیادہ سنگین باتوں مثلاً گالی اور ضرب وغیرہ کی ممانعت بھی موجود ہے۔ سنگھار کے اظہار کی ممانعت قول باری ہے : (ولا ییدین زینتھن الا ما ظھر منھا) اور اپنا سنگھار ظاہر نہ ہونے دیں ہاں جو اس سے کھلا ہی رہتا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ ، مجاہد اور عطا سے (الا ما ظھر منھا) کی تفسیر میں مروی ہے کہ اس ہتھیلی پر لگی ہوئی مہندی اور آنکھوں میں پڑا ہوا سرمہ مراد ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ سے بھی اسی قسم کا قول منقول ہے اور حضرت انس ؓ سے بھی۔ حضرت ابن عباس ؓ سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ اس سے کف دست ، چہرہ اور انگوٹھی وغیرہ مراد ہے۔ حضرت عائشہ ؓ کا قول ہے کہ ظاہری زینت کنگن اور فتخہ ہیں۔ ابوعبید نے کہا ہے کہ فتحہ، انگوٹھی کو کہتے ہیں۔ حسن کا قول ہے اس سے عورت کا چہرہ اور اس کا ظاہری لباس مراد ہے۔ سعید بن المسیب کا قول ہے کہ عورت کا چہرہ اس آیت کا مصداق ہے۔ ابوالاحوص نے عبداللہ ؓ سے روایت کی ہے کہ زینت کی دو صورتیں ہیں۔ ایک تو باطنی زینت ہے جس پر صرف شوہر کی نظر پڑتی ہے۔ مثلاً گلے کا ہار، انگوٹھی اور کنگن وغیرہ، دوسری ظاہری زینت یعنی اس کا لباس ہے۔ ابراہیم نخعی کا بھی قول ہے کہ ظاہری زینت لباس کا نام ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قول باری (ولا یبدین زینتھن الا ما ظھر منھا) میں اجنبی مرد مراد ہیں شوہر مراد نہیں ہے۔ اسی طرح محرم رشتہ دار بھی مراد نہیں ہیں کیونکہ سلسلہ آیات میں اس بارے میں محرم رشتہ داروں کا حکم بیان ہوچکا ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اس سے چہرہ اور دونوں کف دست مراد ہیں اس لئے کہ سرمہ چہ رہے کی زینت ہے اور مہندی نیز انگوٹھی ہتھیلی کی زینت ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے چہرے اور ہتھیلی کی زینت پر نظر ڈالنے کی اجازت دے دی تو یہ بات اس امر کی بھی مقتضی ہے کہ چہرے اور ہتھیلیوں پر نظر ڈالنے کی بھی اباحت ہے۔ چہرہ اور دونوں ہتھیلیاں عورت کے ستر میں داخل نہیں ہیں اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ عورت کھلے چہرے اور کھلی ہتھیلیوں کے ساتھ نماز پڑھ سکتی ہے۔ اگر یہ دونوں عضو ستر میں داخل ہوتے تو نماز میں دیگر اعضاء کی طرح انہیں چھپانا بھی ضروری ہوتا جب یہ بات اس طرح ہے تو اجنبی مرد کے لئے عورت کے چہ رہے اور ہتھیلیوں پر شہوت کے بغیر نظر ڈالنا جائز ہوگا۔ ضرورت کے تحت عورت کو دیکھنے کی استثنائی صورتیں اگر اس پر نظر پڑتے ہی اس کے حصول کی خواہش شہوت کی صورت میں پیدا ہوجائے تو بھی عذر اور ضرورت کے تحت اس پر نظر ڈالنا جائز ہوگا مثلاً مرد اس سے نکاح کرنا چاہتا ہو، یا اس پر اسے گواہی دینی ہو یا حاکم اس کا اقرار سننا چاہتا ہو، یا اس قسم کی کوئی اور صورت ہو۔ پہلی نظر معاف ہے دوسری نہیں شہوت کے تحت عورت کے چہرے کو نہ دیکھنے پر حضور ﷺ کا ارشاد دلالت کرتا ہے جو آپ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو فرمایا تھا۔” پہلی نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈالو، پہلی نظر معاف لیکن دوسری نظر معاف نہیں ہے۔ “ اسی طرح حضرت جریر ؓ نے اچانک پڑجانے والی نظر کے متعلق حضرت حضور ﷺ سے پوچھا تھا تو آپ ﷺ نے انہیں اپنی نظر ہٹالینے کا حکم دیتا تھا۔ آپ نے اس حکم میں چہرے اور دوسرے اعضاء کے درمیان فرق نہیں کیا تھا۔ اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ نظر سے وہ نظر مراد ہے جو شہوت کے تحت ڈالی جائے۔ آپ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا تھا کہ پہلی نظر معاف ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ضرورت کے تحت بےاختیار ایسا ہوجاتا ہے لیکن دوسری نظرانسان اپنے ارادے اور اختیار سے ڈالتا ہے۔ ہمارے اصحاب نے چہرے اور ہتھیلیوں پر نظر ڈالنے کی اباحت کردی ہے خواہ اس صورت میں شہوت پیدا ہوجانے کا خطرہ ہی کیوں نہ ہو تو اس اباحت کی وجہ وہ ضرورتیں اور اعذار ہیں جن کے متعلق روایات منقول ہیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا ہے کہ ایک شخص نے ایک انصاریہ سے نکاح کرنا چاہا تو حضور ﷺ نے اسے پہلے دیکھ لینے کا مشورہ دیا اور فرمایا کہ ” انصار کی آنکھوں میں ایک چیز ہوتی ہے۔ “ یعنی ان کی آنکھیں نسبتاً چھوٹی ہوتی ہیں۔ حضرت جابر ؓ نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا : ” جب تم میں سے کوئی شخص کسی عورت کو پیغام نکاح بھیجے اور اس کے لئے اس پر نظر ڈالنے کی گنجائش ہو جس سے اس کے دل میں کشش پیدا ہو اور ان کی نظروں میں وہ بھلی لگے تو اسے ایسا کرلینا چاہیے۔ “ یعنی اس پر نظر ڈال لینی چاہیے۔ موسیٰ بن عبداللہ بن یزید نے ابو حمید سے جنہیں حضور ﷺ کو دیکھنے کی سعادت نصیب ہوگئی تھی، روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا ” جب تم میں سے کوئی شخص کسی عورت کو نکاح کا پیغام بھیجے تو اس پر نظر ڈال لینے میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ “ یعنی بشرطیکہ وہ صرف پیغام نکاح کے تحت ہی اس پر نظر ڈال رہا ہو۔ سلیمان بن ابی حثمہ نے محمد سلمہ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے اسی قسم کی روایت کی ہے۔ عاصم الاحول بکیر بن عبداللہ سے اور انہوں نے حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت کی ہے۔ حضرت مغیرہ ؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے ایک عورت کو پیغام نکاح بھیجا ۔ حضور ﷺ نے پوچھا کہ ” آیا تم نے اس پر نظر بھی ڈال لی ہے ؟ “ میں نے نفی میں جواب دیا۔ اس پر آپ نے فرمایا : ” اس پر ایک نظر ڈال لو کیونکہ یہ بات تمہارے رشتہ ازدواج کے دوام کے لئے زیادہ مناسب ہے۔ چہرے کا پردہ یہ تمام روایات نکاح کے ارادے کے تحت عورت کے چہ رہے اور ہتھیلیوں پر شہوت کے ساتھ نظر ڈالنے کے جواز پر دلالت کرتی ہیں۔ اس پر یہ قول باری بھی دلالت کرتا ہے : (لا یحل لک النسآء من بعدو لا ان تبدل من ازواج ولم اعجبک حسنھن۔ ) ان عورتوں کے بعد تمہارے لئے کوئی جائز نہیں اور نہ یہی کہ تم ان بیویوں کی جگہ دوسری بیویاں کرلو چاہے تمہیں ان کا حسن بھلا ہی کیوں نہ لگے۔ ظاہر ہے کہ حسن کے بھلا لگنے کا مرحلہ چہرہ دیکھنے کے بعد ہی آئے گا۔ عورت کے چہرے پر شہوت کے تحت نظر ڈالنا ممنوع ہے اس پر حضور ﷺ کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے (العینان تزئیان والیدان تزنیان والوجلان تزنیان ویصدق ذلک کلہ الفوج اویکذبہ) دونوں آنکھیں، دونوں ہاتھ اور دونوں پیر زنا کا ارتکاب کرتے ہیں اور شرمگاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کردیتی ہے۔ آیت زیر بحث کی تفسیر میں حضرت ابن مسعود ؓ کا قول کہ (الا ماظھر منھا) لباس مراد ہے تو یہ بےمعنی سی بات ہے اس لئے کہ یہ امر واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زینت کا ذکر فرمایا ہے لیکن اس سے درحقیقت وہ عضو مراد ہے جس پر زینت یعنی سنگھار ہوتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ایک عورت اپنے تمام زیورات مثلاً کنگن، پازیب، ہار وغیرہ غیر مرد کو دکھا سکتی ہے۔ لیکن انہیں پہن کر غیر مرد کے سامنے نہیں آسکتی۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ زینت سے وہ عضو مراد ہے جس کے سنگھار کا اہتمام کیا جاتا ہے جیسا کہ اس آیت کے بعدہی سلسلہ تلاوت میں فرمایا : (ولا یبدین زینتھن الا لیعولتھن) اور وہ اپنا بنائو سنگھار ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں کے سامنے۔ یہاں زینت کی جگہ یعنی اعضائے زینت مراد ہیں۔ اس لئے زینت کی تفسیر لباس سے کرنا ایک بےمعنی سی بات ہے۔ اس لئے کہ عورت کے جسم پر موجود لباس کو دیکھ لینا جبکہ اس کے جسم کے کسی حصے پر نظر نہ پڑے اسی طرح ہے جس طرح ان کپڑوں پر اس وقت نظر پڑجائے جب عورت نے انہیں پہنا نہ ہو۔ عورت کا گلا اور سینہ ستر میں شامل ہے قول باری ہے : (ولیضربن بخموھن علی جیوبھن) اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رکھیں۔ صنصیہ بنت شعبہ نے حضرت عائشہ ؓ سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ انصار کی عورتیں بہت ہی اچھی عورتیں ہیں۔ ان کی حیا داری نے انہیں دین میں سمجھ حاصل کرنے اور دینی مسئلے دریافت کرنے سے نہیں روکا۔ جب سورة نور کا نزول ہوا تو انہوں نے اپنا کمر پٹہ کھول کر اس کا دوپٹہ بنالیا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ایک قول کے مطابق جیوب سے قمیصوں کے گریبان مراد ہیں کیونکہ عورتیں ایسی قمیصیں پہنتی تھیں جن کے گریبان ہوتے تھے۔ جس طرح زرہ کا گریبان ہوتا ہے۔ اس طرح قمیص پہن کر گلا اور سینے کا بالائی حصہ صاف نمایاں ہوتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے جسم کے ان حصوں کو چھپانے کا حکم دیا۔ چناچہ ارشاد ہوا : (ولیضربن بخموھن علی جیوبھن) اس بات میں یہ دلیل موجود ہے کہ عورت کا گلا اور سینہ ستر میں داخل ہیں اور اجنبی مرد کے لئے ان پر نظر ڈالنا جائز نہیں ہے۔ بنائو سنگھار خاوند کے علاوہ ظاہر نہ کریں قول باری ہے : (ولا یبدین زینتھن الا لبعولتھن ) وہ اپنا بنائو سنگھار نہ ظاہر کریں مگر شوہر کے سامنے۔ تاآخر آیت۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ظاہر آیت اس بات کا مقتضی ہے کہ شوہر کے سامنے نیز باپ وغیرہ دوسرے محرم مردوں کے سامنے جن کا ذکر آیت میں شوہر کے ساتھ ہوا ہے اپنا بنائو سنگھار ظاہر کرنا مباح ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ اس سے موضع زینت مراد ہے۔ یہ چہرہ، ہاتھ اور بازو ہے ۔ اس لئے کہ ہاتھ میں کنگن ، بازو میں بازو بند، گلے نیزسینے کے بالائی حصے میں ہار اور پنڈلی میں پازیب ہوتی ہے۔ آیت ان لوگوں کے لئے جن کا ذکر زیر بحث قول باری میں ہے، عورت کے جسم کے ان حصوں پر نظر ڈالنے کی اباحت کی مقتضی ہے۔ یہ حصے باطنی زینت کے مواضع ہیں اس لئے کہ آیت کے اول حصے میں اجنبی مردوں کے لئے ظاہری زینت پر نظر ڈالنے کی اباحت تھی اور یہاں شوہر نیز ذوی المحارم کے لئے باطنی زینت پر نظر ڈالنے کی اباحت کردی۔ حضرت ابن مسعود ؓ اور حضرت زبیر ؓ سے مروی ہے کہ زینت سے کان کی بالیاں، ہار، کنگن اور پازیب مراد ہیں۔ سفیان نے منصور سے اور انہوں نے ابراہیم نخعی سے : (او ابناء بعولتھن ۔ شوہروں کے بیٹے) کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ سوتیلا بیٹا بازو کے بالائی حصہ یعنی کان اور سر پر نظر ڈال سکتا ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس قول باری کے ذریعے کان اور سر کی تخصیص کے کوئی معنی نہیں ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے زینت کے مواضع کے اندر کسی چیز کی تخصیص نہیں کی ہے اور اس معاملے میں شوہر اور ذوی المحارم کو یکساں درجے پر رکھا ہے۔ اس لئے کہ آیت کا عموم مذکورہ ذوی المحارم کے لئے مواضع زینت پر نظر ڈالنے کی اباحت کا اسی طرح مقتضی ہے جس طرح شوہر کے لئے اب کی اباحت کا۔ نیز اللہ تعالیٰ نے جب آباء کے ساتھ ان ذومی المحارم کا ذکر کیا جن کے ساتھ نکاح ہمیشہ کے لئے حرام ہے تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ ایسے رشتہ دار جو تحریم نکاح میں ذوی المحارم کی طرح ہوں ان کا حکم بھی یہی ہے۔ مثلاً داماد، ساس اور رضاعت کی بنا پر محرم خواتین وغیرہ۔ اجنبی عورت کے بالوں کو دیکھنا بھی مکروہ ہے سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ ان سے اجنبی عورت کے بالوں پر نظر ڈالنے کے متعلق پوچھا گیا انہوں نے اسے مکرو خیال کیا اور کہا کہ آیت کے اندر اس کا ذکر نہیں ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اگرچہ آیت میں اس کا ذکر نہیں ہے لیکن آیت کے اندر اس کا ذکر نہیں ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اگرچہ آیت میں اس کا ذکر نہیں ہے لیکن آیت میں مذکورہ چیزوں کے معنوں میں بال بھی داخل ہیں۔ اس چیز کو اس تفسیر کی روشنی میں دیکھا جائے جو ہم نے بیان کی ہے۔ لونڈیوں کے پردے کی حد آیت زیر بحث میں شوہر اور ذوی المحارم کے سوا دوسروں کے لئے نظر ڈالنے کی تحریم کے جس حکم کا ذکر ہوا ہے اس کا دائرہ صرف آزاد عورتوں تک محدود ہے لونڈیاں اس حکم میں شامل نہیں ہیں۔ اس لئے کہ نظر ڈالنے کی حلت کے سلسلے میں اجنبی مردوں کے لئے لونڈیوں کی وہی حیثیت ہے جو ذوی المحارم کے لئے آزاد عورتوں کی ہے۔ اس بنا پر اجنبی مرد کے لئے لونڈی کے بالوں، بازوئوں ، پنڈلیوں نیز سینہ اور پستان پر نظر ڈالنا جائز ہے جس طرح ذوی المحارم کے محرم عورت پر نظر ڈالنا جائز ہے۔ اس لئے کہ اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اجنبی مرد لونڈی کے بالوں پر نظر ڈال سکتا ہے۔ حضرت عمر ؓ کے متعلق مروی ہے کہ آپ لونڈیوں کو اپنے سر کھلا رکھنے اور آزاد عورتوں کی مشابہت اختیار نہ کرنے کی سختی سے ہدایت کرتے تھے۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ لونڈیوں کی حیثیت نظر ڈالنے کے لحاظ سے محرم عورتوں جیسی ہے۔ اسی طرح اس مسئلے میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے کہ لونڈی محرم کے بغیر سفر کرسکتی ہے اس بنا پر اس کے حق میں تمام مردوں کی حیثیت وہی ہوگی جو ذوی المحارم کی آزاد عورتوں کے حق میں ہوتی ہے یعنی آزاد عورتیں ذوی المحارم کے ساتھ سفر کرسکتی ہیں۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے۔” کسی عورت کے لئے جو اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتی ہو محرم یا شوہر کے بغیر تین دن سے زائد کا سفر حلال نہیں ہے۔ “ جب لونڈی کے لئے محرم کے بغیر سفر کرنا جائز ہوگیا تو اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ نظر ڈالنے کی اباحت کے سلسلے میں لونڈی کی حیثیت وہی ہے جو آزاد عورت کی اس کے ذوی المحارم کے لئے ہے۔ نیز حضور ﷺ کا درج بالاارشاد اس امر پر دال ہے کہ محرم مرد کو عورت کے جسم کے جن حصوں پر نظر ڈالنے کی اجازت ہے وہ صرف اس کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے اجنبی مرد کے لئے اس کی حلت نہیں ہے جیسا کہ ہم نے شروع میں بیان کردیا تھا۔ والدہ، بہن، خالہ اور پھوپھی کے بالوں کو دیکھنے کی اباحت منذر الثوری نے روایت کی ہے کہ محمد بن الحنفیہ اپنی والدہ کے بالوں میں کنگھی کردیا کرتے تھے۔ ابو البختری نے روایت کی ہے کہ حضرت حسن ؓ اور حضرت حسین ؓ اپنی ہمشیرہ ام کلثوم کے پاس اس وقت بھی چلے جاتے تھے جب وہ اپنے بالوں میں کنگھی کررہی ہوتی تھیں۔ حضرت عبدالہل بن الزبیر ؓ کے متعلق بھی اپنی محرم خواتین کے سلسلے میں اسی قسم کی روایت منقول ہے۔ ابراہیم نخعی سے ان کا یہ قول منقول ہے کہ مرد کے لئے اپنی ماں، بہن، خالہ اور پھوپھی کے بالوں پر نظر ڈالنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ البتہ پنڈلی پر نظر ڈالنا ممنوع ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ آیت کے مقتضیٰ میں بال اور پنڈلی کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے۔ ہشام نے حسن سے روایت کی ہے اگر عورت اپنے بھائی کے سامنے دوپٹہ اتاردے تو اس کے متعلق انہوں نے کہا۔” بخدا اسے ایسا کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ “ سفیان نے لیث سے اور انہوں نے طائوس سے روایت کی ہے کہ انہوں نے اپنی بیٹی اور بہن کے بالوں پر نظر ڈالنا مکروہ سمجھا ہے۔ جریر ؓ نے مغیرہ سے اور انہوں نے سعبی سے روایت کی ہے کہ مرد کے لئے یہ مکروہ ہے کہ وہ اپنی مال اور بہن کے بالوں پر اپنی نظریں گاڑ دے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک یہ بات اس صورت پر محمول ہے جس میں شہوت پیدا ہونے کا خطرہ نہ ہوا اگر ایسا ہو تو یہ آیت اور سنت کے خلاف ہوگا اور پھر ذوی المحارم اور اجنبی مردوں کا حکم یکساں ہوجائے گا۔ آیت کا حکم مردوں کے نظر ڈالنے کی صورت کے ساتھ مخصوص ہے۔ عورتوں کے لئے عورتوں کا ستر عورتوں پر عورتوں کا نظر ڈالنا اس میں داخل نہیں ہے اس لئے کہ عورت کے لئے دوسری عورت کی جسم کے ان حصوں پر نظر ڈالنا جائز ہے جن حصوں پر ایک مرد کے لئے دوسرے مرد پر نظر ڈالنا جائز ہے اور وہ ناف سے اوپر کا حصہ اور گھٹنے سے نیچے کا حصہ ہے۔ عورتوں کے لئے دوسری عورتوں کے ناف سے لے کر گھٹنے تک کے حصے پر نظر ڈالنا ممنوع ہے۔ قول باری ہے : (اونسائھن) اپنے میل جول کی عورتوں کے سامنے ایک روایت کے مطابق اس سے مومن عورتوں کے ساتھ میل جول رکھنے والی مسلمان عورتیں مراد ہیں۔ غلاموں کے سامنے عورتوں کے پردے کی کیفیت قول باری ہے : (اوما ملکت ایمانھن) اور اپنے مملوک کے سامنے۔ حضرت ابن عباس ؓ ، حضرت ام سلمہ ؓ اور حضرت عائشہ ؓ نے اس کی تفسیر یہ کی ہے کہ غلام اپنی مالکن کے بالوں پر نظر ڈال سکتا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ کے نزدیک وہ دوسری عورتوں کے بالوں پر بھی نظر ڈال سکتا ہے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت عائشہ ؓ غلام کے سامنے کنگھی کرلیا کرتی تھیں۔ حضرت ابن مسعود ؓ ، مجاہد، حسن، ابن سیرین اور ابن المسیب کا قول ہے کہ غلام اپنی مالکن کے بالوں پر نظر نہیں ڈال سکتا۔ ہمارے اصحاب کا مسلک بھی یہی ہے الا یہ کہ غلام محرم ہو۔ انہوں نے درج بالا قول باری سے لونڈیاں مراد لی ہیں اس لئے کہ غلام اور آزاددونوں تحریم کے مسئلے میں یکساں ہیں۔ مالکن کے لئے اگرچہ اپنے غلام سے نکاح کرلینا جائز نہیں ہوتا لیکن یہ عارضی تحریم ہے۔ جیسا کہ اس شخص کا معاملہ ہے جس کے عقد میں کوئی عورت ہو اس کی بہن اس پر حرام ہوگی لیکن یہ چیز اس مرد کے لئے اپنی سالی کے بالوں پر نظر ڈالنے کی اباحت نہیں کرے گی یا اس شخص کی طرح جس کے عقد میں چار بیویاں ہوں، ظاہر ہے کہ باقی ماندہ عورتیں اس پر فی الحال حرام ہوں گی لیکن یہ بات باقی ماندہ عورتوں کے بالوں پر نظر ڈالنے کی اباحت نہیں کردے گی۔ جب مالکن کے لئے اپنے غلام سے نکاح فی الحال حرام ہو لیکن یہ تحریم عارضی ہو ہمیشہ کے لئے نہ ہو تو پھر غلام کی حیثیت وہی ہوگی جو دوسرے تمام اجنبی مردوں کی ہے۔ نیز حضور ﷺ کا ارشاد ہے : (لا تحل لامراۃ تو من باللہ والیوم الاخران تسافر سفرا فوق ثلاث الامع ذی محرم) غلام، مالکن کا ذی محرم نہیں ہوتا اس لئے غلام کے ہمراہ سفر کرنا مالکن کے لئے جائز نہیں ہوگا جب اس کے ہمراہ سفر جائز نہیں ہوگا تو اس کے بالوں پر نظر ڈالنا بھی جائز نہیں ہوگا جس طرح ایک آزاد اجنبی مرد کے لئے یہ جائز نہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ کی درج بالا وضاحت سے آیت میں ملک یمین کے ذکر کا فائدہ باطل ہوجاتا ہے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ بات اس طرح نہیں ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے آیت میں (اونساء من) کے ذریعے عورتوں کا ذکر فرمایا اور اس سے آزاد مسلمان عورتیں مراد لیں۔ اس مقام پر کوئی یہ گمان کرسکتا تھا کہ لونڈیوں کو اپنی مالکن کے بالوں اور جسم کے ان حصوں پر نظر ڈالنے کی اجازت نہیں ہے جن پر آزاد عورت نظر ڈال سکتی ہے۔ اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے واضح فرمادیا کہ اس معاملے میں لونڈیاں اور آزاد عورتیں یکساں حکم رکھتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں خصوصیت کے ساتھ عورتوں کا ذکر فرمایا کیونکہ اس سے قبل جن افراد کا ذکر ہوچکا تھا وہ سب کے سب مرد تھے جیسا کہ اس قول باری سے واضح ہے : (ولا یبدین زینتھن الا لبعولتھن) تا آخر آیت۔ اس بنا پر کوئی شخص یہ گمان کرسکتا تھا کہ یہ بات صرف مردوں کے لئے خاص ہے بشرطیکہ وہ ذوی المحارم ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اس شبہ کو دور فرماتے ہوئے واضح کردیا کہ عورتوں کے لئے بھی دوسری عورتوں کے جسم کے ان حصوں پر نظر ڈالنا جائز ہے خواہ یہ عورتیں محرمات ہوں یا غیر محرمات۔ اس پر لونڈیوں کے حکم کو عطف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (اوماملکت ایمانھن) تاکہ یہ گمان پیدا نہ ہوسکے کہ یہ حکم صرف آزاد عورتوں تک محدود ہے کیونکہ ظاہر قول باری (اونساء ھن) آزاد عورتوں کے مفہومکا مقتضی تھا۔ لونڈیاں اس میں شامل ہیں تھیں جس طرح قول باری (وانکحو الایامی منکم۔ اپنی بےنکاحی عورتوں کا نکاح کرائو) آزاد عورتوں کے مفہوم پر مشتمل تھا، لونڈیوں کے مفہوم پر نہیں یا اسی طرح قول باری (شھیدین من رجالکم۔ اپنے مردوں میں سے دو گواہ) آزاد مردوں کا مفہوم ادا کررہا تھا کیونکہ اس میں اضافت ہماری طرف (آزاد مردوں کی طرف) کی گئی ہے۔ ان آیات کی طرح قول باری (اونساء ھن) سے آزاد عورتیں مراد تھیں اس لئے ان پر لونڈیوں کو عطف کرکے یہ واضح فرما دیا کہ اس سلسلے میں لونڈیوں کے لئے بھی ان امور کی اباحت ہے جن کی آزاد عورتوں کے لئے ہے۔ خواتین سے بےغرض مردوں کے لئے پردے کی تخفیف قول باری ہے : (اولتابعین غیراولی الاربۃ من الرجال) یا ان زیر دست مردوں کے سامنے جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں۔ حضرت ابن عباس ؓ ، قتادہ اور مجاہد سے مروی ہے کہ اس سے وہ مرد، مراد ہے جو تمہارے ساتھ صرف اس غرض سے رہتا ہو کہ اسے بھی تمہارے کھانے میں سے کوئی حصہ مل جائے اور اسے عورتوں کی ضرورت نہ ہو۔ عکرمہ کے قول کے مطابق یہ عنین یعنی قوت مردمی سے محروم شخص ہے۔ مجاہد، طائوس، عطاء اور حسن کا قول ہے کہ یہ ایلہ یعنی ضعیف العقل شخص ہے ۔ بعض کے قول کے مطابق اس سے مراد وہ احمق شخص ہے جسے عورتوں کے ساتھ کوئی دل چسپی نہ ہو۔ مخنث (ہیجڑا) سے پردہ زہری نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کی ہے کہ ایک مخنث یعنی ہیجڑا ازواج مطہرات کے پاس آتا جاتا تھا۔ لوگ اس کے متعلق یہ سمجھتے تھے کہ اسے عورتوں کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ ایک دن حضور ﷺ گھر آئے تو وہ اس وقت بیٹھا ایک عورت پر تبصرہ کررہا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ” میرے خیال میں اسے جنسی امور کا علم ہے۔ آئندہ یہ تمہارے پاس ہرگز نہ آئے۔ “ چناچہ اس کا داخلہ روک دیا گیا۔ ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے، انہوں نے حضرت ام سلمہ ؓ کی بیٹی زینب سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ ایک مرتبہ گھر میں داخل ہوئے تو ان کے پاس ایک ہیجڑا بیٹھا تھا۔ حضور ﷺ نے حضرت ام سلمہ ؓ کے بھائی یعنی اپنے سالے سے مخاطب ہوکر فرمایا : عبداللہ ! اگر اللہ تعالیٰ کل تم لوگوں کو طائف پر فتح عطا کردے تو میں تمہیں وہاں غیلان کی بیٹی کا پتہ بتادوں گا جس کے آگے چار آدمی ہوتے ہیں اور پیچھے آٹھ آدمی۔ “ پھر فرمایا ” میں نہیں سمجھتا کہ اسے جنسی باتوں کا پتہ نہیں، اس کا داخلہ روک دو ۔ “ حضور ﷺ نے ازواج مطہرات کے پاس اس مخنث کی آمدورفت کی اس صورت میں اجازت دی تھی جب آپ کا خیال یہ تھا کہ اسے عورتوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے لیکن آپ نے اسے عورتوں کے احوال وکیفیات بیان کرتے دیکھا تو آپ کو یہ علم ہوگیا کہ اسے عورتوں سے دلچسپی ہے تو آپ نے اسے اندر آنے سے روک دیا۔ نابالغوں سے پردے کی تخفیف قول باری ہے : (الذین لم یظھروا علی عورات النساء) اور ان بچوں کے سامنے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں۔ مجاہد کا قول ہے کہ وہ اتنے چھوٹے ہوں کہ عورتوں کی جنس کے متعلق انہیں کچھ خبر نہ ہو۔ قتادہ کے قول کے مطابق وہ بچے مراد ہیں جو ابھی بلوغت کی عمر کو نہ پہنچے ہوں۔ ابوبکر حبصاص کی رائے میں مجاہدکا قول زیادہ واقع ہے۔ اس لئے کہ (لم یظھروا علی عورات النسآء) کا مفہوم ہے کہ انہیں مردوں اور عورتوں کی پوشیدہ باتوں کے درمیان کوئی امتیاز نہ ہو جس کی وجہ اس کی کم سنی اور اس بارے میں ان کی معلومات کی کمی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اس بچے کو جسے عورتوں کی پوشیدہ باتوں کی خبر ہے تین اوقات میں اجازت لے کر اندر آنے کا حکم دیا ہے چناچہ ارشاد ہے : (لیستاذنکم الذین ملکت ایمانکم والذین لم یبلغوا الحلم منکم ثلث موات) تمہارے مملوک اور تمہارے وہ بچے جو ابھی عقل کی حد کو نہیں پہنچے ہیں تین اوقات میں اجازت لے کر تمہارے پاس آیا کریں۔ اس سے وہ بچہ مراد ہے جو جنسی امور سے واقف ہو نیز اسے عورتوں کی پوشیدہ باتوں کا علم ہو۔ اب وہ بچہ جسے اجازت حاصل کرنے کا حکم نہیں دیا گیا ہے وہ لازماً مذکور بچے سے چھوٹا ہوگا۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے : (مروھم بالصلوٰۃ بسبع واضربوھم علیھا لعشر وفرقوا بینھم فی المضاجع) انہیں سات برس کی عمر میں نماز پڑھنے کا حکم کرو، دس برس کی عمر میں نماز نہ پڑھنے پر ان کی پٹائی کرو اور ان کے بستر الگ الگ کردو۔ آپ نے دس سال کی عمر سے پہلے بستر الگ الگ کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ دس سال ہونے پر اس کا حکم دیا کیونکہ دس سال کے لڑکے کو اکثر احوال میں جنسی نیز پوشیدہ نسوانی باتوں کی کچھ نہ کچھ شدھ بدھ ہوجاتی ہے۔ زیورات کا اظہار نہ ہو قول باری ہے : (ولا یضربن بار جلھن لیعلم ما یخفین من زینتھن) وہ اپنے پائوں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہوجانے۔ ابوالاحوص نے حضرت عبداللہ ؓ سے روایت کی ہے کہ اس سے مراد پازیب ہے۔ مجاہدکا بھی یہی قول ہے۔ زمین پر پائوں مار کر چلنے سے اس لئے منع کیا گیا ہے تاکہ پازیب کی جھنکار کی آواز لوگوں کے کانوں تک نہ پہنچے۔ قول باری (لیعلم ما یخفین من زینتھن) کے یہی معنی ہیں۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ لفظ کے معنی سے جو مفہوم سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ زینت کو ظاہر کرنے سے روکا گیا ہے کیونکہ زینت کی آواز سنانے کی نہی کے سلسلے میں نص وارد ہوا ہے، کیونکہ اظہار زینت کی نہی اس چیز کے متعلق اولیٰ ہے جس کے ذریعے دوسروں کو اس کا علم ہوجائے۔ جب زینت کا اظہار اس طریقے کے ذریعے جائز نہیں جو زیادہ پوشیدہ ہے تو اس طریقے کے ساتھ بھی جائز نہیں ہوگا۔ جو زیادہ ظاہر ہے۔ یہ بات ان معانی کے ذریعہ قیاس کی صحت کے قول پر دلالت کرتی ہے جن کے ساتھ احکام کو معلق کردیا جاتا ہے۔ یہ معانی کبھی چلی ہوتے ہیں کیونکہ خطاب کا مضمون ان پر دلالت کرتا ہے۔ اور کبھی یہ معانی خفی ہوتے ہیں جن پر دوسرے اصولوں کے ذریعے استدلال کی ضرورت پڑتی ہے۔ آیت میں اس بات پر بھی دلالت موجود ہے کہ عورت کو اتنی اونچی آواز میں گفتگو کرنے کی بھی ممانعت ہے جس سے اس کی آواز غیر مردوں کے کانوں تک پہنچ جائے۔ کیونکہ عورت کی آواز اس کی پازیب کی بہ نسبت فتنہ پیدا کرنے کے لئے زیادہ موثر ہوتی ہے۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب نے عورت کی اذان کو مکروہ سمجھا ہے کیونکہ اذان میں آواز بلند کرنے کی ضرورت پڑتی ہے جس سے عورت کو منع کیا گیا ہے۔ یہ بات اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ شہوت کے تحت عورت کے چہرے کو دیکھنے کی بھی ممانعت ہے کیونکہ یہ چیز آوارگی پیدا کرنے اور فتنہ میں مبتلا کرنے کے اقرب ہوتی ہے۔
Top