Madarik-ut-Tanzil - An-Nisaa : 21
وَ كَیْفَ تَاْخُذُوْنَهٗ وَ قَدْ اَفْضٰى بَعْضُكُمْ اِلٰى بَعْضٍ وَّ اَخَذْنَ مِنْكُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًا
وَكَيْفَ : اور کیسے تَاْخُذُوْنَهٗ : تم اسے لوگے وَقَدْ : اور البتہ اَفْضٰى : پہنچ چکا بَعْضُكُمْ : تم میں ایک اِلٰى بَعْضٍ : دوسرے تک وَّاَخَذْنَ : اور انہوں نے لیا مِنْكُمْ : تم سے مِّيْثَاقًا : عہد غَلِيْظًا : پختہ
اور تم دیا ہوا مال کیو نکر واپس لے سکتے ہو جب کہ تم ایک دوسرے کے ساتھ صحبت کرچکے ہو۔ اور وہ تم سے عہد واثق بھی لے چکی ہیں ؟
آیت 21 : پھر اس آیت میں جماع کے بعد مہر لینے کو اور زیادہ براقرار دیتے ہوئے فرمایا۔ وَکَیْفَ تَاْخُذُوْنَہٗ وَقَدْ اَفْضٰی بَعْضُکُمْ اِلٰی بَعْضٍ (تم کس طرح اس کو لے لو گے۔ جبکہ تم جماع کرچکے) افضاء۔ ایسی خلوت جس میں رکاوٹ نہ ہو۔ اسی سے فضاء بمعنی صحراء ہے۔ احناف کی دلیل : نحو : یہ آیت ہم احناف کے لئے خلوت صحیحہ کے بعد لزوم مہر کی دلیل ہے۔ آیت میں مہر واپس لینے کو ناپسند قرار دیا گیا۔ اور اس کی علت اگلی آیت میں بیان فرمائی۔ پختہ وعدہ کی مراد : وَاَخَذْنَ مِنْکُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظاً (اور وہ عورتیں تم سے پختہ وعدہ بھی لے چکیں) اور وہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ فامساک بمعروف او تسریح باحسان (البقرہ۔ 229) کہ یا تو ان عورتوں کو دستور کے موافق روک رکھو یا احسان سے رخصت کردو) اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ اپنے بندوں سے ان عورتوں کی خاطر لیا۔ تو یہ ایسے ہی ہوگیا جیسے ان عورتوں نے اپنے خاوندوں سے براہ راست لیا۔ دوسری تفسیر : میثاقاً غلیظا سے مراد رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے۔ استوصوا بالنساء خیرًا۔ تم عورتوں سے بھلا سلوک کرو فان ہن عوان فی ایدیکم اخذتموہن بامانۃ اللّٰہ۔ وہ تمہارے ہاتھوں میں ریوڑ کی طرح ہیں۔ واستحللتم فروجہن بکلمۃ اللّٰہ (ترمذی 1163۔ ابن ماجہ 1751 مسلم۔ 1851۔ تم نے ان کو اللہ تعالیٰ کی امان سے لیا اور ان کی شرمگاہوں کو بحکم خدا اپنے لئے حلال بنایا۔
Top