Ahkam-ul-Quran - An-Nisaa : 33
وَ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِیَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ١ؕ وَ الَّذِیْنَ عَقَدَتْ اَیْمَانُكُمْ فَاٰتُوْهُمْ نَصِیْبَهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ شَهِیْدًا۠   ۧ
وَلِكُلٍّ : اور ہر ایک کے لیے جَعَلْنَا : ہم نے مقرر کیے مَوَالِيَ : وارث مِمَّا : اس سے جو تَرَكَ : چھوڑ مریں الْوَالِدٰنِ : والدین وَالْاَقْرَبُوْنَ : اور قرابت دار وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو کہ عَقَدَتْ : بندھ چکا اَيْمَانُكُمْ : تمہار عہد فَاٰتُوْھُمْ : تو ان کو دے دو نَصِيْبَھُمْ : ان کا حصہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَلٰي : اوپر كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز شَهِيْدًا : گواہ (مطلع)
اور جو مال ماں باپ اور رشتہ دار چھوڑ مریں تو (حقداروں میں تو تقسیم کردو کہ) ہم نے ہر ایک کے حقدار مقرر کردیئے ہیں اور جن لوگوں سے تم عہد کرچکے ہو ان کو بھی انکا حصہ دو بیشک خدا ہر چیز کے سامنے ہے
عصبہ کا بیان قول باری ہے (ولکل جعلناموالی مما ترک الوالدان ولاقربون، اور ہم نے ہر اس ترکے کے حق دار چھوڑے ہیں جو والدین اور رشتہ دار چھوڑیں) حضرت ابن عباس ؓ ، مجاہد اور قتادہ کا قول ہے کہ یہاں موالی سے مراد عصبہ ہیں۔ سدی کا قول ہے کہ موالی ورثاء کو کہتے ہیں۔ ایک قول کے مطابق مولیٰ کی اصل معنی ہیں وہ شخص جو کسی چیز کا ولی اور سرپرست بن گیا ہو جس کا مفہوم یہ ہے کہ سرپرستی کا تعلق اس چیز میں تصرف کے حق کے ساتھ قائم ہوجائے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ مولی ایک مشترک لفظ ہے جس کے کئی معانی ہیں اپنے غلام کو آزاد کردینے والا آقا مولی کہلاتا ہے۔ کیونکہ اسے آزادی دینے کے سلسلے میں وہی اس کا ولی نعمت ہوتا ہے۔ اس لیے ایسے آقا کو مولی النعمۃ کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔ آزاد شدہ غلام کو بھی مولی کہتے ہیں کیونکہ آقا کی طرف سے اسے آزادی کی نعمت سے مالا مال کرنے کی بنا پر اسے کے آقا کی ولایت اس کے ساتھ متصل ہوجاتی ہے۔ اس لفظ کی حیثیت وہی ہے جو لفظ غریم کی ہے۔ طالب یعنی قرض دینے والے کو بھی غریم کہتے ہیں کیونکہ اسے مقروض کے پیچھے پڑے رہنے اور قرض کی واپسی کے مطالبے کا حق ہوتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ مطلوب یعنی مقروض کو بھی غریم کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے کیونکہ وہ قرض کی ادائیگی کے مطالبہ کی زد میں ہوتا ہے اور اس کے ذمے قرض کی رقم لگی ہوتی ہے۔ باپ اور بیٹے کے واسطے سے مذکر رشتہ داروں یعنی عصبہ کو بھی مولی کہا جاتا ہے اور کسی حلف یعنی دوستی کے معاہدے میں شریک حلیف کو بھی مولی کا نام دیا جاتا ہے کیونکہ دوستی کے اس معاہدے کی بنا پر وہ اپنے حلیف کے معاملات کا ولی اور سرپرست و نگران ہوتا ہے چچا زاد بھائی کو بھی مولی کہتے ہیں کیونکہ وہ قرابت اور رشتہ داری کی بنیاد پر مدد کرتا اور ساتھ دیتا ہے۔ ولی کو بھی مولی کہتے ہیں کیونکہ وہ مدد کرنے اور ساتھ دینے کی صورت میں سرپرستی اور معاملات کی نگرانی کرتا ہے قول باری ہے (ذالک بأن اللہ مولی الذین آمنوا و ن الکافرین لامولی لہم) یہ اس لیے کہ اللہ تعلایٰ اہل ایمان کا مولی اور ان کا مددگار ہے اور کافروں کا کوئی مولی نہیں ہے۔ ) یعنی اللہ تعالیٰ نصرت اور مدد کے ذریعے اہل ایمان کی سرپرستی کرتا ہے جبکہ کافروں کا کوئی مدد کرنے والا نہیں جس کی مدد کسی شمار و قطار میں ہو۔ فضل بن عباس سے شعر منسوب ہے مہلا بنی عمنا مہلا موالینا لاتظہرن لنا ما کان مدفونا اسے ہمارے چچا کے خاندان والو، اے ہمارے موالی ذرا صبر سے کام لو اور ہمارے سامنے اس دشمنی کا اظہا رنہ کرو جو اسلام آنے کے بعد دفن کردی گئی تھی، شاعر کا روئے سخن بنی امیہ کی طرف ہے۔ شعر میں شاعر نے چچا کے بیٹوں کو موالی کا نام دیا ہے۔ غلام کے مالک کو بھی مولی کہتے ہیں کیونکہ ملکیت ، نصرت، ولایت ، نصرت اور حمیات کی صورت میں وہ اس کا نگران اور سرپرست ہوتا ہے۔ اس طرح مولی کے سام کے درج بالا معانی ہے اور اس لیے یہ ایک مشترک لفظ ہے جس کی بنا پر اس کے عموم کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ اس لیے ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر کسی شخص نے اپنے موالی کے لیے وصیت کی ہو تو اگر درجے کے لحاظ سے اس کے اعلی اور اسفل دونوں قسم کے موالی موجود ہ۔ ں گے تو اس کی یہ وصیت باطل ہوجائے گی کیونکہ ان دونوں قسموں کے موالی کا ایک ہی حالت میں لفظ کے تحت آنا ممتنع ہے نیز ان میں کوئی بھی دوسرے کے مقابلے میں اولی نہیں ہے۔ اس لیے وصیت باطل ہوجائے گی۔ یہاں مولی کے تمام معانی میں سے عصبہ کے معنی زیادہ قریب ہیں کیونکہ اسرائیل نے حصین سے ، انہوں نے ابوصالح سے ، انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ( انا اولی بالمومنین من مات وترک مالا فمالہ للموالی العصبۃ ۔ ومن ترک کلا او ضیاعا فانا ولیہ۔ میں اہل ایمان کے سب سے زیادہ قریب ہوں جو شخص وفات پا جائے اور مال چھوڑ جائے تو اس کا مال اس کے موالی یعین عصبہ کو ملے گا اور جو شخص کوئی بوجھ یا عیال چھوڑ جائے تو ان کا ولی اور سرپرست ہوں گا) معمر نے طاؤس کے بیٹے سے ، انہوں نے اپنے والد سے، اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا (اقسموا المال بین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فما بقت السہام فلا ولی رجل ذکر، وروی فلا ولی عصبۃ ذکر) ترکے کو ان لوگوں میں تقسیم کر دو جو ذوالفروض ہیں یعنی جن کے حصے مقرر ہیں انہیں ان کے حصے دینے کے بعد جو باقی بچ رہے وہ سب سے قریبی مذکر رشتہ دار کا ہوگا۔ ایک روایت میں ہے کہ سب سے قریبی مذکر عصبہ کا ہوگا) ۔ اسی طرح وہ روایت بھی ہے جس میں موالی کو عصبہ کا نام دیا گیا ہے۔ حضور اکرم ﷺ کے ارشاد (فلا ولی عصبۃ ذکر) میں وہ مفہوم موجود ہے جو اس پر دلالت کرتا ہے کہ قول باری (ولکل جعلنا موالی مماترک الوالدان ولاقربون) میں عصبات مراد ہیں۔ فقہاء کے درمیان بھی اس بارے میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے کہ ذوی الفروض کو ان کے حصے دینے کے بعد ترکے میں سے بچے رہنے والا مال اس شخص کو دیا جائے گا جو میت کا سب سے قریبی عصبہ ہوگا۔ عصبات ان مرد رشتہ داروں کو کہا جاتا ہے جن کی میت کے ساتھ قرابت باپ اور بیٹوں کے واسطے سے متصل ہوتی ہے۔ مثلا دادا، علاتی بھائی ، چچا اور اس کے بیٹے اس طرح وہ مذکر رشتہ دار جن کی پشت ان سے نیچے ہو لیکن میت سے ان کا اتصال بیٹوں اور باپوں کے ذریعے ہوتا ہے۔ اس قاعدے سے بہنیں خارج ہیں کیونکہ وہ بیٹیوں کی موجودگی میں عصبات بن جاتی ہیں۔ پھر عصبات میں وراثت کے لیے قاعدہ یہ ہے کہ جو میت سے زیادہ قریب ہوگا وہ وارث ہوگا ور اس کے ہوتے ہوئے دور کے عصبہ کو وارث قرار نہیں دیا جائے گا۔ اس مسئلے میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے کہ میت کے ساتھ جس مذکر رشتہ دار کی رشتہ داری کا عوروں کے واسطے سے اتصال ہوتا ہے وہ عصبہ نہیں بنتا۔ آزاد کرنے والا آقا اپنے آزاد کردہ غلام اور اس کی اولاد کا عصبہ ہوتا ہے۔ اسی طرح آزادی دینے والے آقا کی مذکر اولادآزاد کردہ غلام کی عصبہ ہوتی ہے۔ جب اس کے آقا کی وفات ہوجائے گی تو اس کی مذکر اولاد آزاد کردہ غلام کی عصبات بن جائے گی اور غلام کی ولاء انہیں منتقل ہوجائے گی۔ یہ ولاء آقا کی بیٹیوں کو منتقل نہیں ہوگی کوئی عورت ولاء کی بناء پر کسی آزاد کردہ غلام یا لونڈی کی عصبہ نہیں بن سکتی۔ ہاں اگر اس نے خود کسی غلام کو آزادی دی ہو یا اس کے آزاد کردہ غلام نے آگے کسی کو آزاد کردیا ہو تو اس صورت میں ولاء کی بنا پر وہ عورت اس کے عصبہ بن جائے گی۔ آزاد کرنے والاآقا سنت یعنی حضور کے ارشاد کی رو سے عصبہ قرار دیا گیا ہے ، اور یہ ممکن ہے کہ قول باری (ولکل جعلنا موالی مماترک الولدان والاقربون) میں بھی یہ مراد ہو یہ چونکہ یہ اپنے آزاد کردہ غلام کا عصبہ ہے اور اس کی طرف سے دیت اور جرمانہ وغیرہ بھرنے کا اسی طرح ذمہ دار ہوتا ہے جس طرح اس غلام کے جو اعمام یعنی چچازاد برادران اس کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ اگریہ کہاجائے کہ مرنے والانہ آزاد کرنے والے آقا کے رشتہ داروں میں سے ہوتا ہے اور نہ ہی اس کے والدین میں سے تو آیت زیر بحث کے تحت یہ آقا میراث کا کی سے حق دار بن سکتا ہے ۔ اس کے جواب میں یہ کہاجائے گا کہ اگر آزاد کرنے والے آقا کے ساتھ میت کا کوئی نسبی رشتہ دار مثلا بیتی اور بہن بھی ہو تو اس صورت میں ترکہ کے اندر ان رشتہ داروں کے ساتھ اس کا بھی حصہ دار بننا درست ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ میت کے رشتہ داروں میں سے نہیں ہوتا لیکن ترکہ کے حصوں میں اسے بھی حق حاصل ہوتا ہے کیونکہ یہ منجملہ ان ورثاء میں سے ہوتا ہے جن کے متعلق یہ کہنادرست ہوتا ہے کہ وہ اس ترکہ کے وارث ہورہے ہیں جو والدین اور رشتہ دار چھوڑ گئے ہیں اور اس صورت میں بعض ورثاء پر یہ بات صادق آئے گی کہ وہ والدین اوراقرباء کے وارث بنے ہیں۔ مولی اعلی سے مولی اسفل یعنی آزاد کرنے والے آقا سے آزاد کردہ غلام کی وراثت کے متعلق اہل علم میں اختلاف رائے ہے، امام ابوحنیفہ ، امام ابویوسف ، امام محمد، اور زفر نیز امام مالک امام شافعی اور سفیان ثوری اور دوسرے تمام اہل علم کا قول ہے کہ مولی اسفل کو مولی اعلی سے وراثت میں حصہ نہیں ملے گا، ابوجعفر طحاوی نے حسن بن زیاد سے روایت کی ہے کہ مولی اسفل مولی اعلی سے وراثت میں حصہ پائے گا۔ ان کا استدلال اس حدیث پر ہے جسے حماد بن سلمہ ، حماد بن زید، وہب بن خالد، اور محمد بن مسلم الطائفی نے عمروبن دینار سے ، انہوں نے حضرت ابن عباس کے آزاد کردہ غلام عوسجہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے ایک شخص نے اپنا ایک غلام آزاد کردیا اور پھر اس شخص کا انتقال ہوگیا، اور اس کے پیچھے صرف اس کا یہ آزاد کردہ غلام رہ گیا۔ حضور نے اس شخص کا ترکہ اس آزادغلام کودے دیا۔ ابوجعفر نے فرمایا، چونکہ اس روایت کی مخالفت میں کوئی روایت موجود نہں ہے ، اس لیے اس روایت کے حکم کا اثبات واجب قرار پایا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس روایت کے متعلق یہ کہنادرست ہوسکتا ہے کہ حضور کا اس غلام کو مرنے والے کو ساراتر کہ دے دینا، میراث کی بنا پر نہیں تھا، بلکہ اس کی محتاجی اور فقر کی بنا پر تھا، کیونکہ اس شخص کا چھوڑا ہوامال ایسا تھا، جس کا کوئی وارث نہیں تھا، اس لیے اسے ٹھکانے لگانے کی یہی صورت تھی کہ ضرورت مندوں اور فقراء پرا سے صرف کردیاجاتا۔ اگریہ کہاجائے کہ جن اسباب کی بنا پر میراث واجب ہوتی ہے وہ بہ ہیں ولا، نسب اور نکاح ، نسب کی بنا پر رشتہ دار ایک دوسرے کے وارث ہوتے ہیں ، اسی طرح میاں بیوی ایک دوسرے کے وارث ہوتے ہیں تو اس بنا پر یہ ضروری ہوگیا جب ولااسفل (آزاد کردہ غلام) سے اعلی (آزاد کرنے والاآقا) کی میراث کی موجب ہے تو یہ اعلی سے اسفل کی میراث کی بھی موجب بن جائے۔ اس کے جواب میں ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یہ بات ضروری نہیں ہے اس لیے کہ ہمیں نسبی رشتہ داروں میں ایسی مثالیں ملتی ہے کہ ایک رشتہ دار کا دوسرا وارث ہوجاتا ہے لیکن اگر یہ دوسرا رشتہ دار مرجائے توپہلارشتہ دار اس کا وارث نہیں ہوتا۔ مثلا ایک عورت اگر اپنے پسماندگان میں ایک بہن یابیٹی اور بھائی کا بیٹا چھوڑ جائے تو اس صورت میں بہن یابیتی کو نصف ترکہ مل جائے گا اور باقی نصف بھائی کے بیٹے کو چلاجائے گا لیکن اگر اس عورت کی بجائے اس کے بھائی کا بیٹا وفات پاجاتا اور اپنے پیچھے بہن یابیٹ اور پھوپھی چھوڑ جاتاتوپھوپھی کو راثت میں کوئی حصہ نہ ملتا، اس طرح اس عورت کا بھتیجا جس صورت میں اس کا وارث بن گیا بعینہ س صورت میں یہ عورت اپنے بھتیجے کی وارث نہیں بن سکتی۔ واللہ اعلم ولاء موالات قول باری تعالیٰ ہے (والذین عقدت ایمانکم فاتوھم نصیبھم، ) رہے وہ لوگ جن سے تمہارے عہد و پیمان ہوں تو ان کا حصہ انہیں دو ) طلحہ بن مصرف نے سعید بن جبیر سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے اس قول باری کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ ایک مہاجر عقد مواخات کی بنا پر اپنے انصاری بھائی کا وارث ہوتا، انصاری کے اپنے رشتہ دار اس کے وارث نہ ہوتے۔ پھر جب آیت (ولکل جعلنا موالی مماترک الوالدان والاقربون) نازل ہوئی تو یہ اول الذکر آیت میں ترکہ میں حصہ دینے کا حکم منسوخ ہوگیا، پھر حضرت ابن عباس نے اول الذکر آیت تلاوت کی اور فرمایا کہ (فاتوھم نصیبھم) کی صورت یہ ہے ایسے شخص کی مدد کی جائے ، اسے سہارا دیاجائے، اس کے لیے وصیت کرجائے، جہاں تک اس کے وارث ہونے کی بات تھی وہ اب ختم ہوگئی ہے۔ علی بن ابی طلحہ نے حضرت ابن عباس سے اس قول باری کے سلسلے میں روایت کی ہے ایک شخص دوسرے شخص سے یہ عہد پیمان کرلیتا ہے کہ ہم میں سے جو پہلے وفات پائے گا دوسراشخص اس کا وارث ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (واولوالارحام بعضھم اولی ببعض فی کتاب اللہ من المومنین والھاجرین الاان تفعلوا الی اولیاء کم معروفا، اور اللہ کی کتاب میں رشتہ دار ایک دوسرے سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں بہ نسبت دوسرے مومنین اور مہاجرین کے مگر ہاں تم اپنے دوستوں سے کچھ سلوک کرنا چاہو تو وہ جائز ہے ) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لوگ اگر اپنے دوستوں کے لیے جن کے ساتھ ان کا عہد و پیمان ہے وصیت کرنا چاہیں تو ان کے لیے میت کے تہائی تر کے سے ایساکرناجائز ہے۔ آیت میں مذکور معروف کے یہی معنی ہیں ابوبشر نے سعید بن جبیر سے اس قول باری کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں ایک شخص دوسرے سے عہد و پیمان کرتا پھر اگر وہ مرجاتا تو وہ شخص اس کا وارث بن جاتا، حضرت ابوبکر نے بھی ایک شخص سے اسی قسم کا معاہدہ کیا تھا اور اس کی موت پر اس کے وارث بن گئے تھے۔ سعید بن المسیب کا قول ہے کہ یہ حکم ان لوگوں کے متعلق ہے ، جو لوگوں کو متبنی بناکر انہیں اپن اورثا قرار دیتے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق یہ آیت نازل فرمائی کہ ایسے لوگوں کے لیے وصیت کی جائے اور میراث کو اس کے حق دار رشتہ داروں اور عصبات کی طرف لوٹادیا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ہم نے سلف کے جو اقوال بیان کیے ہیں اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ عہد و پیمان اور موالات کی بنا پر میراث کے استحقاق کا حکم زمانہ اسلام میں بھی جاری رہا تھا۔ پھرلوگوں نے یہ کہا کہ یہ حکم قول باری (واولوالارحام بعضھم اولی ببعض من کتاب اللہ) کی بنا پر منسوخ ہوگئی لیکن اقربا کی عدم موجودگی میں یہ حکم اسی طرح باقی ہے جس طرح پہلے تھا۔ موالی المولات یعنی عہد و پیمان کی بنا پر بننے والے حلیف اور دوستوں کی میراث کے متعلق فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہے ، امام ابوحنیفہ ، امام ابویوسف، امام محمد اور زفر کا قول ہے کہ جو شخص کسی کے ہاتھ پر مسلمان ہوگیا ہو اور پھر اس نے اس کے ساتھ دوستی کا عہد و پیمان کرلیا ہو تو اس کی موت پر اگر اس کا کوئی وارث موجود نہ ہو تو اس کی میراث اس شخص کو مل جائے گی ، امام مالک ، امام شافعی، ابن شبرمہ ، سفیان ثوری اور اوزاعی کا قول ہے ، کہ اس کی میراث مسلمانوں کو ملے گی، یحییٰ بن سعید کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص دشمنوں کی سرزمین سے آکر کسی کے ہاتھ پر اسلام لے آئے تو اس کی ولاء اس شخص کو حاصل ہوگی جس کے ساتھ اس نے موالات کیا ہو اور اگر کوئی ذمی کسی مسلمان کے ہاتھ پر اسلام لے آیا ہو تو اس کی ولاء عامۃ المسلمین کے لیے ہوگی۔ لیث بن سعد کا قول ہے کہ جو شخص کسی کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلے تو گویا اس نے اس کے ہی ساتھ عقد موالات کرلیا اور اس کی میراث اس کے لیے ہوگی اس کے سوا کوئی اور وارث موجود نہ ہو۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت اس شخص کے لیے میراث کو واجب کرتی ہے جس کے ساتھ مرنے والے نے عہد و پیمان کا اس طریقے پر معاہدہ کیا تھا جو ہمارے اصحاب نے بیان کیا ہے کہ کیونکہ ابتدائے اسلام میں یہ حکم جاری تھا اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں منصوص طریقے سے اس کا حکم دیا تھا۔ پھریہ ارشاد ہوا، (واولوالارحام بعضھم اولی ببعض فی کتاب اللہ من المومنین والمھاجرین) اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعے ذوی الارحام کو عہد و پیمان کرنے والے موالی سے بڑھ کو حق دار قرار دیا۔ اس لیے جب ذوی الارحام موجود نہ ہوں تو آیت کی رو سے میراث کا استحقاق ان موالی کے لیے واجب ہوگا۔ کیونکہ آیت نے وہ حق جوان موالی کو حاصل تھا اسے ذوالارحام کی طرف ان کی موجودگی کی صورت میں منتقل کردیا تھا، اگر ذوی الارحام موجود نہ ہوں تو اس صورت میں نہ تو قرآن میں اور نہ ہی سنت میں کوئی ایسا حکم موجود ہے جو اس آیت کے نسخ کا موجب بن رہا ہو۔ اس لیے اس آیت کا حکم ثابت اور غیر منسوخ ہے اور اپنے مقتضی کے مطابق قابل عمل ہے یعنی ذوالارحام کی عدم موجودگی مین موالی کے لیے میراث کا حکم ثابت اور جاری ہے حضور ﷺ سے بھی روایت موجود ہے جو ذوی الارحام کی عدم موجودگی میں اس حکم کے ثبوت وبقا پر دلالت کرتی ہے۔ ہمیں یہ روایت محمد بن بکر نے بیان کی، انہیں ابوداؤد نے ، انہیں یزید بن خالد الرملی اور ہشام بن عمار الدمشقی نے ، انہیں یحییٰ بن حمزہ نے عبدالعزیز بن عمر سے وہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن موہب کو عمر بن عبدالعزیز سے روایت کرتے ہوئے سنا ہے انہوں نے اس قبیصہ بن ذوہب سے بیان کیا اور انہوں نے تمیم الداری سے نقل کیا کہ انہوں نے حضور ﷺ سے پوچھا تھا کہ اس شخص کے متعلق کیا حکم ہے جو کسی مسلمان کے ہاتھوں اسلام سے آتا ہے ، آپ نے جواب میں فرمایا تھا کہ اسے مسلمان کرنے والایہ شخص اس کی زندگی اور موت دونوں حالتوں میں دوسرے تمام لوگوں سے بڑھ کر اس سے قریب ہے ، آپ کا یہ قول اس بات کا مقتضی ہے کہ یہ شخص دوسرے تمام لوگوں سے بڑھ کر اس کی میراث کا حق دار ہے کیونکہ اس کی موت کے بعد ان دونوں کے درمیان صرف میراث کے اندر ولاء کی صورت باقی رہ جاتی ہے ، اور یہ چیز اس قول باری کے ہم معنی ہے ، (ولکل جعلناموالی) یعنی ورثاء۔ اس کے متعلق ہمارے اصحاب کے قول کے مترادف اقوال حضرت عمر، حضرت ابن مسعود، حسن اور ابراہم نخعی سے بھی مروی ہے معمر نے زہری سے روایت کی ہے کہ ان سے ایک شخص کے متعلق پوچھا گیا تھا جس نے مسلمان ہونے کے بعد ایک شخص سے عقد موالات کرلیا تھا آیا اس میں کوئی حرج تو نہیں ہے، زہری نے فرمایا تھا کہ ، کوئی حرج نہیں، اس کی اجازت تو حضرت عمر نے بھی دے دی تھی۔ قتادہ نے سعید بن المسیب سے روایت کی ہے کہ جو شخص کسی گروہ کے ہاتھوں مسلمان ہوگیا ہو وہ اس شخص کے جرائم کا تاوان ادا کرے گا اور اس کی میراث اس گروہ کے لیے حلال ہوجائے گی، ربیعہ بن ابی عبدالرحمن کا قول ہے کہ جب کوئی کافر کسی مسلمان کے ہاتھ پر دشمنوں یا مسلمانوں کی سرزمین میں ایمان لے آیا ہو تو اس کی میراث اسے ملے گی ، جس کے ہاتھ پر وہ مسلمان ہوا تھا۔ ابوعاصم النبیل نے ابن جریج سے انہوں نے ابولزبیر سے اور انہوں نے حضرت جابر سے روایت کی ہے کہ حضور نے حکم نامہ تحریر کیا تھا کہ (علی کل بطن عقبلہ) ہر قبیلے یا گروہ پر اس کے افراد کے کیے ہوئے جرائم کی دیتوں اور تاوانوں کی ادائیگی کی ذمہ داری ہوگی ۔ آپ کا یہ بھی ارشاد ہے (لایتولی مولی قوم الاباذنھم) کسی قوم کے ساتھ موالات رکھنے والاان کی اجازت کے بغیر کسی سے رشتہ موالات قائم نہ کرے) اس ارشاد کی دو باتیں بیان کی گئی ہیں ، اول ، موالات کا جواز کیونکہ آپ کا ارشاد (الاباذنھم) اس پر دلالت کرتا ہے کہ ان کی اجازت سے ہونے والے موالات کے جواز کا آپ نے حکم دے دیا۔ دوم یہ کہ رشتہ موالات کرنے والاولاء کے لیے کسی اور رخ کرسکتا ہے ، لیکن آپ نے اسے ناپسند فرمایا ہے تاہم اگر پہلوں کی اجازت سے ہو تو اس میں کوئی کراہت اور حرج کی بات نہیں۔ یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ اس بارے میں حضور ﷺ کی مراد صرف ولاء موالات کی صورت ہے کیونکہ اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ آزادی دینے کی بنا پر حاصل ہونے والی ولاء یعنی ولاء عتاقہ میں کسی اور کی طرف منتقل ہوجانا جائز نہیں ہوتا اور حضور ﷺ کا ارشاد ہے (الولاء لحمد کلحمہ النسف) ولاء کی قرابت بھی نسب کی قرابت کی طرح ہے ) اگر کوئی شخص اس روایت سے استدلال کرے جو ہمیں محمد بن بکر نے بیان کی ، انہں ابوداؤد نے ، انہیں عثمان بن ابی شیبہ نے ، انہیں محمد بن بشر، ابن نمیر اور ابواسامہ نے زکریا سے انہوں نے سعد بن ابراہیم سے انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت جبیر بن مطعم سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا۔ (الاحلف فی الاسلام وایما حلف کان فی الجاھلیۃ لم یزدہ الاسلام الاشدہ) ، اسلام میں کوئی معاہدہ نہیں ، زمانہ جاہلیت میں بھی بھی معاہدہ ہوا تھا، اسلام نے اور بھی مضبوط کردیا ہے ) یہ روایت زمانہ اسلام میں معاہدہ کے بطلان اور اس کی بنا پر آپس کے توارث کی ممانعت کی موجب ہے ۔ اس کے جواب میں یہ کہاجائے گا کہ اس میں یہ احتمال ہے کہ حضور ﷺ نے زمانہ جاہلیت میں ہونے والے معاہدوں کی طرز کے معاہدوں کی زمانہ اسلام میں نفی کردی ہو، اس لیے زمانہ جاہلیت میں اس طرز کا جومعاہدہ ہوتا اس مین ایک شخص دوسرے سے یہ کہتا میراگراناتیراگرانا ہے ، میراخون تیراخون ہے ، تومیراوارث ہوگا اور میں تیراوارث بنوں گا۔ اس طرز کے معاہدے میں بہت سی ایسی باتیں بھی ہوتی تھیں جن کی اسلام میں ممانعت ہے مثلا اس میں یہ شرط ہوتی کہ ہر ایک دوسرے کا ساتھ دے گا اس کی خاطر اپناخوب نہائے گا، اور جس چیز کو گرائے گا اسے بھی گرائے گا، اس طرح جائز ناجائز ہر کام میں اسکی مدد کرے گا، شریعت نے اس قسم کے اس معاہدے کو باطل قرار دیا ہے اور ظالم کے مقابلے میں مظلوم کی حمایت اور معونت واجب کردی ہے یہاں تک کہ ظالم سے اس مظلوم کا بدلہ لے لیاجائے اور قرابت یا غیر قرابت کسی چیز کا لحاظ نہ کیا جائے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے (یا ایھا الذین امنوا کو نواقوامین بالقسط۔۔۔ تا۔۔۔۔ ان تعدلوا) اے ایمان والوا انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ، فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ ان کا خیرخواہ ہے کہ تم اس کا لحاظ کرو، لہذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے بازنہ رہو) ۔ اللہ تعالیٰ نے رشتہ داروں اور جانب یعنی غیر رشتہ داروں کے معاملات میں عدل وانصاف سے کام لینے کا حکم دیا اور اللہ تعالیٰ کے حکم میں ان سب کو یکساں درجے پر رکھنے کا امر کیا اور اس طرح زمانہ جاہلیت کے اس طریق کار کو باطل کردیاجس کی رو سے غیر کے مقابلے مین حلیف اور رشتہ دار کی معونت اور نصرت ضروری ہوتی تھی خواہ یہ حلیف یارشتہ دار ظالم ہوتا یامظلوم ، اسی طرح حضور ﷺ کا بھی ارشاد ہے (انصر اخاک اللہ ظالما اومظلوما ، اپنے بھائی کی مدد کروخواہ وہ ظالم ہو یا مظولم ) صحابہ نے عرض کیا کہ بھائی اگر مظلوم ہو تو اس کی مدد اور معونت کی بات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن ظالم ہونے کی صورت میں اسے مدد دینے کی بات کے کیا معنی ہیں ؟۔ اس پر آپ نے ارشاد فرمایا (ردہ عن انطلم فذالک معونۃ منک، اسے ظلم کرنے کرنے سے پیچھے ہٹا دو یعنی اسے اس کام سے روک دو تمہاری طرف سے یہ اس کی مدد ہوگی) جاہلیت کے معاہدے میں یہ بات بھی ہوتی تھی کہ ایک شخص کی موت پر اس کی اقربا اس کے ترکہ کے وارث نہیں ہوتے بلکہ اس کا حلیف وراث ہوتا ۔ حضور ﷺ نے اپنے قول سے اسلام میں ایسے معاہدے کی نفی کردی جس میں فریق آخر کے دین ومذہب اور معاملے کے جواز اور عدم جواز کا لحاظ کیے بغیر ہر حالت میں اس کی مدد کرنا اور اس کا دفاع کرنا ضروری ہوتا، اس کے بالقمابل آپ نے احکام شریعت کی اتباع کرنے کا حکم دیا اورا ن باتوں کی پیروی سے روک دیا جو حلیف ایک دوسرے کے لیے اپنے اوپر لازم کرلیتے تھے۔ اسی طرح آپ نے اس بات کی بھی نفی کردی کہ حلیف مرنے والے کی میراث کا اس کے اقرباء سے بڑھ کر حق دار ہوتا ہے حضور کے ارشاد (لاحلف فی الاسلام) کے یہ معنی ہیں۔ آپ کے ارشاد کے دوسرے حصے (وایماحلف کان فی الجاھلیۃ لم یزدہ الاسلام ) میں یہ احتمال ہے کہ اسلام نے ایسے معاہدے سے روکنے اور اس کا ابطال کرنے میں اور زیادہ شدت اور سختی سے کام لیا ہے ۔ گویا آپ نے یوں فرمایا کہ جب اسلام مین حلف کا کوئی جواز نہیں حالانکہ اس میں مسلمانوں میں آپس میں ایک دوسرے کی مدد اور ایک دوسرے سے تعاون کی صورت موجود ہے توجاہلیت کے زمانے میں کیے گئے معاہدے کے لیے کہاں گنجائش ہوسکتی ہے۔ آیامکمل جائیداد کی وصیت لاوارث شخص کرسکتا ہے ؟ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ موالات کی بنیاد پر ایک دوسرے کے وارث قرار دپانے کا جو مسئلہ ہے ہم نے بیان کیا ہے ہمارے اصحاب کا اسی جیسا یہ قول ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی پوری جائیداد کی وصیت کرجاتا ہے جبکہ اس کا کوئی وارث نہیں ہوتا تو اس کی یہ وصیت درست ہے ، ہم نے گزشتہ ابواب میں اس کی وضاحت بھی کی ہے اس کی دلیل ہے کہ جب ایک شخص کے لیے عقد موالات کی بنا پر اپنی میراث غیر کودے دینے اور بیت المال سے اسے دور رکھنے کی اجازت ہے تو اس کے لیے یہ بھی جائز ہے کہ جس کے لیے چاہے اس بات کی وصیت کرجائے کہ میری موت کے بعد یہ میراث اسے دے دی جائے۔ کیونکہ دو شخصوں کے درمیان موالات کا قیام اور اثبات عقد موالات اور اس کے ایجاب کے ذریعے ہوتا ہے اور جب تک کسی نے دوسرے کے کسی جرم کا جرمانہ نہ بھرا ہوا اس وقت تک اسے اپنی ولاء منتقل کرلینے کی گنجائش ہوتی ہے اس طرح یہ ولاء وصیت کے مشابہ ہوگئی جو وصیت کرنے والے کے قول اور اس کے ایجاب سے ثابت ہوتی ہے اور وہ جب چاہے اس میں رجوع بھی کرسکتا ہے۔ البتہ ولاء ایک بات میں وصیت سے مختلف ہوتی ہے اور وہ یہ کہ وصیت کی صورت میں اگرچہ متعلقہ شخص مرنے والے کی جائیداد اس کے وصیت والے قول کی بنا پر لیتا ہے لیکن اس کا یہ لینا میراث کے طور پر ہوتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر میت ایک رشتہ دار چھوڑ کرمرجائے تو وہ مولی الموالات کے مقابلے میں اس کی میراث کا زیادہ حق دار ہوگا لیکن تہائی ترکہ میں اس کی حیثیت اس شخص کی طرح نہیں ہوگی جس کے لیے کسی نے اپنے مال کی وصیت کی ہو اور اس صورت میں اسے اس کے مال کا تہائی حصہ دے دیاجائے گا، بلکہ مولی الموالات کو تو وارث موجود ہونے کی صورت میں مرنے والے کے ترکے میں سے کچھ بھی نہیں ملے گا، خواہ یہ وارث اس کا رشتہ دار ہویا اسے آزادی دینے ولاآقا ہو۔ اس طرح موالات کی بنا پر حاصل ہونے والی ولاء، ایک صورت میں وصیت بالمال کے مشابہ ہے جب یعنی جب مرنے والے کا کوئی وارث موجود نہ ہو، تو ایک صورت میں سے مختلف ہے جیسا کہ ہم نے درج بالاسطور میں بیان کردیا ہے ۔ واللہ اعلم) ۔
Top