Ahkam-ul-Quran - At-Talaaq : 2
فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَاَمْسِكُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ فَارِقُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ وَّ اَشْهِدُوْا ذَوَیْ عَدْلٍ مِّنْكُمْ وَ اَقِیْمُوا الشَّهَادَةَ لِلّٰهِ١ؕ ذٰلِكُمْ یُوْعَظُ بِهٖ مَنْ كَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ١ؕ۬ وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًاۙ
فَاِذَا بَلَغْنَ : پھر جب وہ پہنچیں اَجَلَهُنَّ : اپنی مدت کو فَاَمْسِكُوْهُنَّ : تو روک لو ان کو بِمَعْرُوْفٍ : بھلے طریقے سے اَوْ فَارِقُوْهُنَّ : یا جدا کردو ان کو بِمَعْرُوْفٍ : ساتھ بھلے طریقے کے وَّاَشْهِدُوْا : اور گواہ بنا لو ذَوَيْ عَدْلٍ : دو عدل والوں کو مِّنْكُمْ : تم میں سے وَاَقِيْمُوا : اور قائم کرو الشَّهَادَةَ : گواہی کو لِلّٰهِ : اللہ ہیں کے لیے ذٰلِكُمْ يُوْعَظُ : یہ بات نصیحت کی جاتی ہے بِهٖ : ساتھ اس کے مَنْ كَانَ : اسے جو کوئی ہو يُؤْمِنُ : ایمان رکھتا ہے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ : اور یوم آخرت پر وَمَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ : اور جو ڈرے گا اللہ سے يَجْعَلْ لَّهٗ : وہ پیدا کردے گا اس کے لیے مَخْرَجًا : نکلنے کا راستہ
پھر جب وہ اپنی معیار (یعنی انقضائے عدت) کے قریب پہنچ جائیں تو یا تو انکو اچھی طرح سے (زوجیت میں) رہنے دو یا اچھی طرح سے علیحدہ کردو اور اپنے میں سے دو منصف مردوں کو گواہ کرلو اور گواہوں) خدا کے لئے درست گواہی دینا۔ ان باتوں سے اس شخص کو نصیحت کی جاتی ہے جو خدا پر اور روز اخرت پر ایمان رکھتا ہے۔ اور جو کوئی خدا سے ڈرے گا وہ اس کیلئے (رنج وسخن سے) مخلصی (کی صورت) پیدا کر دیگا
قول باری ہے (فاذا بلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف اوفار قوھن بمعروف ، پھر جب وہ اپنی (عدت کی) مدت کے خاتمہ پر پہنچیں تو یا انہیں بھلے طریقے سے (اپنے نکاح میں) روک رکھو یا بھلے طریقے سے ان سے جدا ہوجائو) اس سے مراد یہ ہے کہ جب عدت کے اختتام کا وقت قریب آجائے۔ یہ مراد نہیں ہے کہ جب عدت کی مدت حقیقت میں گزر جائے کیونکہ عدت گزر جانے کی منزل پر پہنچ جانے کی صورت میں رجوع کرلینے کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ اللہ تعالیٰ نے مدخولہ بیوی کی طلاق کا ابتداء میں جو ذکر کیا ہے وہ رجوع کرلینے کے ذکر کے ساتھ مقرون ہے چناچہ ارشاد ہے (لا تدری لعل اللہ یحدث بعد ذلک امرا) یعنی یہ کہ شوہر کی رائے بدل جائے اور بیوی کو زوجیت میں باقی رکھنے کا خیال دل میں آجائے جس کے نتیجے میں وہ عدت کے اندر اس سے رجوع کرلے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر فرمایا (فامسکوھن بمعروف اوفارقوھن بمعروف) اور سورة بقرہ میں فرمایا (فامسکوھن بمعروف او سرحوھن بمعروف) انہیں بھلے طریقے سے (اپنے نکاح میں) روک رکھو یا بھلے طریقے سے انہیں رخصت کردو۔ رجوع کرنے یا علیحدگی اختیار کرنے پر گواہی قائم کرنا قول باری ہے (فاذا بلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف اوفار قوھن بمعروف واشھدوا ذوی عدل منکم، جب وہ اپنی عدت کی مدت کے خاتمہ پر پہنچیں تو یا انہیں بھلے طریقے سے (اپنے نکاح میں) روک رکھو یا بھلے طریقے پر ان سے جدا ہوجائو اور دو ایسے آدمیوں کو گواہ بنا لو جو تم میں سے صاحب عدل ہوں) شوہر چاہے رجوع کرے یاعلیحدگی اختیار کرے دونوں باتوں پر گواہی قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ حضرت عمران بن حصین ؓ ، طائوس، ابراہیم اور ابو قلابہ سے مروی ہے کہ شوہر اگر رجوع کرلے اور گواہی قائم نہ کرے تو رجوع کرنے کا عمل درست ہوگا اور بعد میں گواہی قائم کرلے گا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے شوہر کو رجوع کرلینے یا علیحدگی اختیار کرلینے کا حکم دیا اور اس کے فوراً بعد گواہی قائم کرنے کا ذکر کیا تو اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ رجوع کرلینے کی صورت میں اس کا رجوع درست ہوگا اور اس کے بعد گواہی قائم کرلینا درست ہوگا کیونکہ اللہ نے گواہی قائم کرنے کو رجوع کرنے کے عمل میں شرط قرار نہیں دیا۔ فقہاء کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ آیت میں مذکور فراق سے مراد یہ ہے کہ شوہر اس سے علیحدہ رہے حتیٰ کہ اس کی عدت گزر جائے نیز یہ کہ گواہی قائم نہ کرنے کے باوجود علیحدگی درست ہوجاتی ہے اور شوہر اس بات پر بعد میں گواہی قائم کرلے گا۔ علیحدگی کے ذکر کے بعد گواہی قائم کرنے کا ذکر ہوا ہے لیکن اس کے باوجود گواہی قائم کرنا علیحدگی کی صحت کے لئے شرط قرار نہیں دیا گیا ہے اس لئے رجوع کرنے کے عمل میں گواہی قائم کرنے کا مفہوم بھی یہی ہوگا۔ نیز علیحدگی اختیار کرنا شوہر کا حق ہوتا ہے اور یہ گواہی قائم کیے بغیر جائز ہے کیونکہ اس میں کسی اور کی رضامندی حاصل کرنے کی اسے ضرورت نہیں ہوتی۔ اسی طرح رجوع کرنا بھی شوہر کا حق ہے اس لئے ضروری ہے کہ گواہی کے بغیر بھی یہ جائز ہوجائے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے شوہر اور اس کی مطلقہ بیوی سے تہمت کی نفی کرنے اور احتیاطی تدبیر کے طور پر امساک یا فرقت پر گواہی قائم کرنے کا حکم دیا ہے کیونکہ جب طلاق کا علم ہو اور رجوع کرلینے کا علم نہ ہو یا طلاق اور فراق دونوں کا علم نہ ہو تو اس صورت میں خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں دونوں ایک دوسرے کو جھٹلا نہ بیٹھیں۔ احتیاط کا مفہوم صرف رجوع کرلینے یا علیحدگی کرنے کی حالت تک محدود نہیں ہوتا بلکہ اس حالت کے بعد بھی اگر گواہی قائم کردی جائے تو یہ احتیاط باقی رہتی ہے۔ اس لئے رجوع کرلینے کے گھنٹے دو گھنٹے کے بعد اگر گواہی قائم کردی جائے تو ضروری ہے کہ اس گواہی اور ماقبل کی گواہی کے حکم کے درمیان کوئی فرق نہ رکھاجائے۔ گواہوں کے بغیر رجوع کرلینے کی صورت میں اس کے درست ہونے کے متعلق ہمیں اہل علم کے درمیان کسی اختلاف کا علم نہیں۔ البتہ سفیان نے ابن جریج سے اور انہوں نے عطاء بن ابی رباح سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ” طلاق، نکاح اور رجوع گواہی کے ذریعے عمل میں آتے ہیں۔ “ عطاء کا یہ قول اس امر پر محمول ہے کہ گواہی قائم کرنے کا حکم اس احتیاط کے پیش نظر دیا گیا ہے کہ بعد میں طرفین ایک دوسرے کو جھٹلا نہ سکیں۔ یہ مراد نہیں ہے کہ گواہوں کے بغیر رجوع کا عمل درست نہیں ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ عطاء نے اپنے قول میں طلاق کا بھی ذکر کیا ہے جب کہ کسی کو اس بارے میں کوئی شک نہیں کہ گواہوں کے بغیرطلاق واقع ہوجاتی ہے۔ شعبہ نے معطر الوراق سے اور انہوں نے عطاء اور حکم سیروایت کی ہے کہ اگر شوہرعدت کے اندر بیوی کو آغوش میں لے لے یعنی ہم بستری کرلے تو اس کا یہ عمل رجوع کرنے کا عمل قرار پائے گا۔ قول باری ہے (واقیموا الشھادۃ للہ، اور اے گواہ بننے والو ! ) گواہی ٹھیک ٹھیک اللہ کے لئے ادا کرو، آیت میں حکام کے سامنے تمام حقوق کے بارے میں گواہی قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ اس مقام پر شہادت کا لفظ اسم جنس کے معنی ادا کررہا ہے۔ اگرچہ اس کا ذکر رجوع کرنے کے عمل پر دو عادل آدمیوں کی گواہی قائم کرنے کے حکم کے بعد ہوا ہے لیکن یہ بات لفظ کو اس کے عموم میں استعمال کرنے سے مانع نہیں ہے۔ اس طرح یہ قول باری دو باتوں پر مشتمل ہے۔ ایک تو یہ کہ گواہی قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور دوسری یہ کہ گواہی قائم کرنا اللہ تعالیٰ کے حق کے ساتھ تعلق رکھتا ہے، آیت کے آخری حصے کے ذریعے اس کی تاکید اور اس پر عمل پیرا رہنے کا مفہوم واضح کیا گیا ہے۔
Top