Maarif-ul-Quran - At-Talaaq : 2
فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَاَمْسِكُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ فَارِقُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ وَّ اَشْهِدُوْا ذَوَیْ عَدْلٍ مِّنْكُمْ وَ اَقِیْمُوا الشَّهَادَةَ لِلّٰهِ١ؕ ذٰلِكُمْ یُوْعَظُ بِهٖ مَنْ كَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ١ؕ۬ وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًاۙ
فَاِذَا بَلَغْنَ : پھر جب وہ پہنچیں اَجَلَهُنَّ : اپنی مدت کو فَاَمْسِكُوْهُنَّ : تو روک لو ان کو بِمَعْرُوْفٍ : بھلے طریقے سے اَوْ فَارِقُوْهُنَّ : یا جدا کردو ان کو بِمَعْرُوْفٍ : ساتھ بھلے طریقے کے وَّاَشْهِدُوْا : اور گواہ بنا لو ذَوَيْ عَدْلٍ : دو عدل والوں کو مِّنْكُمْ : تم میں سے وَاَقِيْمُوا : اور قائم کرو الشَّهَادَةَ : گواہی کو لِلّٰهِ : اللہ ہیں کے لیے ذٰلِكُمْ يُوْعَظُ : یہ بات نصیحت کی جاتی ہے بِهٖ : ساتھ اس کے مَنْ كَانَ : اسے جو کوئی ہو يُؤْمِنُ : ایمان رکھتا ہے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ : اور یوم آخرت پر وَمَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ : اور جو ڈرے گا اللہ سے يَجْعَلْ لَّهٗ : وہ پیدا کردے گا اس کے لیے مَخْرَجًا : نکلنے کا راستہ
پھر جب پہنچیں اپنے وعدہ کو تو رکھ لو ان کو دستور کے موافق یا چھوڑ دو ان کو دستور کے موافق اور گواہ کرلو دو معتبر اپنے میں کے اور سیدھی ادا کرو گواہی اللہ کے واسطے یہ بات جو ہے اس سے سمجھ جائے گا جو کوئی یقین رکھتا ہوگا اللہ پر اور پچھلے دن پر اور جو کوئی ڈرتا ہے اللہ سے وہ کر دے اس کا گزارہ
(آیت) فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَاَمْسِكُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ فَارِقُوْهُنَّ بِمَعْرُوْف، اجلھن میں لفظ اجل بمعنے عدت ہے اور بلوغ اجل سے مراد عدت کا اختتام کے قریب ہونا ہے۔
طلاق کے متعلق پانچواں حکم اس آیت میں یہ ارشاد ہوا ہے کہ جب مطلقہ بیوی کی عدت ختم کے قریب پہنچے تو اب نکاح سے نکل جانے کا وقت آ گیا اس وقت تک وقتی تاثرات اور غم و غصہ کی کیفیت بھی ختم ہوجانی چاہئے اس وقت پھر سنجیدگی کے ساتھ غور کرلو کہ نکاح رکھنا بہتر ہے ای اس کا بالکل منقطع کردینا اگر نکاح میں رکھنے کی رائے ہوجائے تو اس کو روک لو جس کی مسنون صورت اگلی آیت کے اشارہ اور حدیث کے ارشاد کے مطابق یہ ہے کہ زبان سے کہہ دو کہ میں نے اپنی طلاق سے رجوع کرلیا اور اس پر دو گواہ بھی بنا لو۔
اور اگر اب بھی یہی رائے قائم ہو کہ نکاح ختم کرنا ہے تو پھر اس کو خوبصورتی کے ساتھ آزاد کردو۔ یعنی عدت ختم ہوجانے دو عدت پوری ہوتے ہی وہ آزاد دو خودم ختار ہوجائے گی۔
چھٹا حکم۔ اختتام عدت کے وقت، بیوی کو روکنا اور نکاح میں رکھنا طے ہو یا آزاد کردینا، دونوں میں قرآن کریم نے بمعروف کی قید لگا دی ہے۔ معروف کے لفظی معنے پہچانا ہوا طریقہ اور مراد اس سے یہ ہے کہ جو طریقہ شریعت و سنت سے ثابت اور اسلام اور مسلمانوں میں عام طور پر معروف ہے وہ اختیار کرو وہ یہ ہے کہ اگر نکاح میں رکھنا اور رجعت کرنا طے کرو تو آگے اس کو زبانی یا عملی ایذاء نہ پہنچاؤ اور اس پر احسان نہ جتلاؤ اور اس کی جو عملی یا اخلاقی کمزوری طلاق کا سبب بن رہی تھی آگے خود بھی اس پر صبر کرنے کا عزم کرلو تاکہ پھر وہ تلخی پیدا نہ ہو، اور اگر آزاد کرنا طے ہو تو اس میں معروف و مسنون طریقہ یہ ہے کہ اس کو ذلیل و خوار کر کے یا برا بھلا کہہ کر گھر سے نکالو بلکہ حسن اخلاق کے ساتھ رخصت کرو اور جیسا کہ قرآن کریم کی دوسری آیات سے ثابت ہے چلتے وقت اس کو کوئی جوڑا کپڑے کا دے کر رخصت کرنا کم از کم مستحب ضرور ہے۔ بعض صورتوں میں واجب بھی ہے جس کی تفصیل کتب فقہ میں ہے۔
ساتواں حکم آیت مذکورہ میں روکنے یا آزاد کرنے کے دو اختیار دینے سے نیز اس سے پہلی آیت میں لعل اللہ یحدث بعد ذلک امراً سے ضمنی طور پر یہ مستفاد ہوا کہ منشاء رباین یہ ہے کہ طلاق دینے کی مجبوری ہی پیش آجائے تو طلاق ایسی دی جائے جس میں رجعت کرنے کا حق باقی رہے جس کی مسنون صورت یہ ہے کہ صاف لفظوں میں صرف ایک طلاق دیدے اور اس کے ساتھ اظہار غیظ و غضب کے لئے ایسا کوئی لفظ نہ بولے جو رشتہ نکاح کو بالکیہ منقطع کردینے پر دلالت کرتا ہو مثلاً کہہ دے کہ میرے گھر سے نکل جاؤ۔ یا کہہ دے تمہیں بہت سخت طلاق دیتا ہوں یا کہہ دے کہ اب میرا تم سے کوئی تعلق نکاح کا باقی نہیں ایسے الفاظ اگر طلاق صریح کے ساتھ بھی کہہ دیئے جاویں یا خود یہی ال فاظ بہ نیت طلاق کہہ دیئے جاویں تو اس سے رجعت کا حق باطل ہوجاتا ہے۔ یہ اصطلاح شرع میں طلاق بائن ہوجاتی ہے جس سے نکاح فوراً ٹوٹ جاتا ہے اور رجعت کا حق باقی نہیں رہتا اور اس سے زیادہ اشدیہ ہے کہ طلاق کو تین کے عدد تک پہنچا دے کہ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ شوہر کا صرف حق رجعت ہی سلب نہیں ہوجائے گا بلکہ آئندہ اگر مرد و عورت دونوں راضی ہو کر باہم نکاح بھی کرنا چاہیں تو نکاح جدید بھی نہ ہو سکے گا جیسا کہ سورة بقرہ کی آیت میں ہے۔ (آیت) فان طلقھا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ۔
تین طلاق بیک وقت دینا حرام ہے مگر کسی نے ایسا کیا تو تینوں طلاق واقع ہوجائیں گی اس پر امت کا اجماع ہے۔ آج کل دین سے بےپرواہی اس کے احکام سے غفلت بری طرح عام ہوتی جاتی ہے جاہلوں کا تو کہنا کیا ہے لکھے پڑھے عرائض نویس بھی تین طلاق سے کم کو گویا طلاق ہی نہیں سمجھتے اور رات دن اس کا مشاہدہ ہوتا ہے کہ تین طلاقیں دینے والے بعد میں پچھتاتے ہیں اور اس فکر میں رہتے ہیں کہ کسی طرح بیوی ہاتھ سے نہ جائے۔ حدیث صحیح میں تین طلاق بیک وقت دینے پر وسل اللہ ﷺ کا سخت غضبناک ہونا امام نسائی نے بروایت محمود بن لبید نقل کیا ہے اسی لئے بیک وقت تین طلاق دینا باجماع امت حرام و ناجائز ہے اور اگر کوئی شخص تین طہر میں الگ الگ تین طلاقوں تک پہنچ جائے تو اس کے ناپسندیدہ ہونے پر بھی امت کا اجماع اور خود قرآن کی آیات کے اشارے سے ثابت ہے صرف اس میں اختلاف ہے کہ یہ صورت بھی حرام و ناجائز اور طلاق بدغی میں داخل ہے یا ایسا نہیں، امام مالک کے نزدیک حرام ہے اور امام اعظم ابوحنیفہ و شافعی حرام تو نہیں کہتے یعنی اس صورت کو طلاق بدعی میں شمار نہیں کرتے بلکہ طلاق سنت میں داخل سمجھتے ہیں مگر ناپسندیدہ فعل ان کے نزدیک بھی ہے تفصیل اس کی سورة بقرہ کی تفسیر معارف القرآن جلد اول ص 405 میں مذکور ہے۔
مگر جس طرح تین طلاق بیک وقت دینے کے حرام ہونے پر پوری امت کا اجماع ہے اسی طرح اس پر بھی اجماع ہے کہ حرام ہونے کے باوجود کوئی شخص ایسا کر گزرے تو تینوں طلاق واقع ہو کر آئندہ آپس میں نکاح جدید بھی حلال نہیں ہوگا۔ پوری امت میں کچھ اہل حدیث اور اہلت شیع کے سوا تمام مذاہب اربعہ اس پر متفق ہیں کہ تین طلاق بیک وقت بھی دے دیگیں تو تینوں واقع ہوجائیں گی کیونکہ کسی فعل کے حرام ہونے سے اس کے آثار کا وقوع متاثر نہیں ہوا کرتا جیسے کوئی کسی کو بےگناہ قتل کر دے تو یہ فعل حرام ہونے کے باوجود منقول تو بہرحال مر ہی جائیگا۔ اسی طرح تین طلاق بیک وقت حرام ہونے کے باوجود تینوں کا وقوع لازمی امر ہے اور صرف مذاہب اربعہ کا ہی نہیں بلکہ اس پر صحابہ کرام کا بھی اجماع حضرت فاروق اعظم ؓ کے زمانہ میں منقول و معروف ہے اس کا بھی مکمل بیان معارف القرآن جلد اول ص 405 تا ص 415 میں تفصیل کے ساتھ آچکا ہے اس کو دیکھ لیا جاوے۔
وَّاَشْهِدُوْا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنْكُمْ وَاَقِيْمُوا الشَّهَادَةَ لِلّہ یعنی گواہ بنا لو اپنے مسلمانوں میں سے دو معتبر آدمیوں کو اور قائم کرو شہادت کو ٹھیک ٹھیک۔
آٹھواں حکم اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ اختتام عدت کے وقت خواہ رجعت کر کے بیوی کو روکنا طے کیا جائے یا عدت پوری کر کے آزاد کرنا طے کیا جائے دونوں صورتوں میں اپنے اس فعل رجعت یا ترک رجعت پر دو معتبر گواہ بنا لو۔ یہ حکم اکثر ائمہ کے نزدیک استحبابی ہے رجعت اس پر موقوف نہیں اور گواہ بنانے کی حکمت رجعت کرنے کی صورت میں تو یہ ہے کہ کہیں کل کو عوتر رجعت سے انکا کر کے اس کے نکاح سے نکل جانے کا دعویٰ نہ کرنے لگے اور ترک رجعت اور انقطاع نکاح کی صورت میں اس لئے کہ کل کو خود اپن انفس ہی کہیں شرارت یا بیوی کی محبت سے مغلوب ہو کر یہ دعویٰ نہ کرنے لگے کہ عدت گزرنے سے پہلے رجعت کرلی تھی۔ ان دو گواہوں کے لئے ذوی عدل فرما کر بتلا دیا کہ شرعی اور اصطلاحی معنی میں عدل یعنی ثقہ و معتبر ہونا گواہوں کا ضروری ہے ورنہ ان کی شہادت پر قاضی کوئی فیصلہ نہیں دے گا اور اقیموالشھادة للہ میں عام مسلمانوں کو خطاب ہے کہ اگر تم کسی ایسے واقعہ رجعت یا انقطاع نکاح کے گواہ ہو اور قاضی کی عدالت میں گواہی دینے کی نوبت آوے تو کسی رو رعایت یا مخالفت و عداوت کی وجہ سے سچی گواہی دینے میں ذرا بھی فرق نہ کرو۔
ذٰلِكُمْ يُوْعَظُ بِهٖ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ باللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ، یعنی اس مذکورہ مضمون سے اس شخص کو نصیحت کی جاتی ہے جو ایمان رکھتا ہو اللہ پر اور آخری دن یعنی قیامت پر۔ اس میں آخرت کا خصوصیت سے ذکر اس لئے کیا گیا کہ زوجین کے باہمی حقوق کی ادائیگی بغیر تقویٰ اور فکر آخرت کے کسی سے نہیں کرائی جاسکتی۔
جرم و سزا کے قوانین میں قرآن حکیم کا عجیب و غریب حکیمانہ اور مربیانہ اصول۔ دنیا کی حکومتوں میں قواعد و قوانین کی تدوین اور جرائم کی سزا و تعزر کا پرانا دستور ہے ہر قوم و ملک میں قوانین اور تعزیرات کی کتابیں لکھی گئی ہیں اور یہ بھی ظاہر ہے کہ قرآن کریم بھی اللہ کے قانون کی کتاب ہے مگر اس کا طرز تمام دنیا کی کتب قوانین سے نرالا اور عجیب ہے کہ قانون کے آگے پیچھے خوف خدا اور فکر آخرت کو سامنے کردیا جاتا ہے۔ تاکہ ہر انسان قانون کی پابندی کسی پولیس اور نگراں کے خوف سے نہیں بلکہ اللہ کے خوف سے کرے کوئی دیکھے یا نہ دیکھے، خلوت ہو یا جلوت ہر صورت میں پابندی قانون کو ضروری سمجھے۔ صرف یہی سبب ہے کہ قرآن پر صحیح ایمان رکھنے والوں میں کسی سخت سے سخت قانون کی تنفیذ بھی زیادہ دشوار نہیں ہوتی اس کے لئے اسلامی حکومت کو پولیس اور اس پر اسپیشل پولیس اور اس پر خفیہ پولیس کا جال پھیلانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
قرآن کریم کا یہ مربیانہ اصول تمام ہی قوانین میں عام ہے۔ خصوصیت سے میاں بیوی کے تعلقات اور باہمی حقوق کے قوانین میں اس کا سب سے زیادہ اہمتام کیا گیا ہے کیونکہ یہ تعلقات ہی ایسے ہیں کہ ان میں نہ ہر کام پر کوئی شہادت مہیا ہو سکتی ہے نہ عدالتی تحقیق زوجین کے حقوق باہمی کی کمی و کوتاہی کا صحیح اندازہ لگا سکتی ہے ان کا تمامتر مدار خود زوجین ہی کے قلوب اور ان کے اعمال و افعال پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نکاح کے خطبہ مسنونہ میں قرآن کریم کی جو تین آیتیں پڑھنا سنت سے ثابت ہے یہ تینوں آیتیں تقویٰ کے حکم سے شروع اور اسی پر ختم ہوتی ہیں جن میں یہ اشارہ ہے کہ نکاح کرنے والوں کو ابھی سے یہ سمجھ لینا ہے کہ کوئی دیکھے یا نہ دیکھے مگر حق تعالیٰ ہمارے کھلے اور چھپے سب اعمال سے بلکہ دلوں کے پوشیدہ خیالات تک سے واقف ہے ہم نے آپس کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی برتی، ایک سے دوسرے کو تکلیف پہنچی تو عالم السراء کے سامنے جوابدہی کرنا ہوگی، اسی طرح سورة طلاق میں جبکہ طلاق کے چند احکام بیان فرمائے گئے تو پہلے ہی حکم کے بعد واتقو اللہ ربکم فرما کر تقویٰ کی ہدایت فرمائی پھر چار احکام کا ذکر کرنے کے بعد یہ وعظ و نصیحت کی کہ جو شخص ان کی خلاف ورزی کرتا ہے وہ کسی اور پر نہیں بلکہ اپنی ذات ہی پر ظلم کرتا ہے اس کا وبال اسی کو تباہ کر دے گا وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهٗ پھر اور چار ضمنی احکام و قوانین ذکر کرنے کے بعد دوبارہ اس ہدایت کو دہرایا گیا ذٰلِكُمْ يُوْعَظُ بِهٖ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ باللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِر آگے ایک آیت میں تقویٰ کے فضائل اور اس کی دینی و دنیوی برکات کا بیان فرمایا پھر اسی آیت کے آخر میں اللہ پر توکل اور بھروسہ رکھنے کی برکات ارشاد فرمائی گئیں اسکے بعد پھر چند احکام عدت کے بیان فرمائے اور اس کے بعد پھر دو آیتوں میں تقویٰ کے مزید برکات وثمرات کا بیان آیا اور اس کے بعد پھر کچھ نکاح و طلاق کے متعلقات بیوی کے نفقہ اور اولاد کے دودھ پلانے وغیرہ کے احکام بتلائے گئے۔ طلاق و عدت اور عورتوں کے نفقہ اور دودھ پلانے وغیرہ کے احکام میں بار بار کہیں ذکر آخرت کہیں تقویٰ کی فضیلت و برکت اور کہیں توکل کے برکات اور کچھ احکام بیان کر کے پھر تقویٰ کے مکرر سکرر فضائل کا بیان بظاہر بےجوڑ معلوم ہوتا ہے مگر قرآن کریم کے اس مربیانہ اصول کی حکمت سمجھ لینے کے بعد اس کا جوڑا اور گہرا ربط بھی واضح اب آیات مذکورہ کی تفسیر و تشریح دیکھئے۔
وَمَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا ۝ ۙوَّيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ، یعنی جو شخص اللہ سے ڈریگا تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر مشکل و مصبت سے نجات کا راستہ نکالدیں گے اور اس کو بےگمان رزق عطا فرما دیں گے۔ لفظ تقویٰ کے اصلی اور لغوی معنے بچنے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں گناہوں سے بچنے کے لئے یہ لفظ بولا جاتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ کی طرف اضافت و نسبت ہوتی ہے تو ترجمہ اللہ سے ڈرنے کا کردیا جاتا ہے اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ کی نافرمانی اور معصیت سے بچے اور ڈرے۔
اس آیت میں تقویٰ کی دو برکتیں بیان فرمائیں ہیں۔ اول یہ کہ تقویٰ اختیار کرنے والے کے لئے اللہ تعالیٰ بچنے کا راستہ نکال دیتے ہیں۔ کس چیز سے بچنا، اس میں صحیح بات یہ ہے کہ یہ عام ہے دنیا کی سب مشکلات و مصائب کے لئے بھی اور آخرت کی سب مشکلات و مصائب کے لئے بھی اور مطلب آیت کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی یعنی گناہوں سے بچنے والے آدمی کے لئے دنیا و آخرت کی ہر مشکل و مصیبت سے نجات کا راستہ نکال دیتے ہیں اور دوسری برکت یہ ہے کہ اس کو ایسی جگہ سے رزق عطا فرماتے ہیں جہاں کا اس کو خیال و گمان بھی نہیں ہوتا۔ صحیح بات یہی ہے کہ رزق سے بھی اس جگہ مراد ہر ضرورت کی چیز ہے خواہ دنیا کی ہو یا آخرت کی، مومن متقی کے لئے اللہ تعالیٰ کا وعدہ اس آیت میں یہ ہے کہ اس کی ہر مشکل کو بھی آسان کردیتا ہے اور اس کی ضروریات کا بھی تکفل کرتا ہے اور ایسے رساتوں سے اس کی ضروریات مہیا کردیتا ہے جس کا اس کو وہم و گمان بھی نہیں ہوتا (کذا فی الروح)
مناسبت مقام کی وجہ سے بعض حضرات مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں یہ فرمایا ہے کہ طلاق دینے والے شوہر اور مطلقہ بیوی دونوں یا ان میں جو بھی تقویٰ اختیار کرنے والا ہوگا اللہ تعالیٰ اس کو طلاق اور انقطاع نکاح کے بعد پیش آنے والی ہر مشکل و تکلیف سے نجات عطا فرمائیں گے اور مرد کو اس کے مناسب یوی اور عورت کو اس کے مناسب شوہر عطا فرمائیں گے اور ظاہر ہے کہ آیت کا اصل مفہوم جو تمام مشکلات اور ہر قسم رزق کے لئے عام اور شامل ہے اس میں زوجین کی یہ مشکلات و ضروریات بھی شامل ہیں (کذا فی روح المعانی)
آیت مذکورہ کا شان نزول۔ حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ عوف بن مالک اشجعی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میرے لڑکے سالم کو دشمن گرفتار کر کے لے گئے، اس کی ماں سخت پریشان ہے مجھے کیا کرنا چاہئے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں تم کو اور لڑکے کی والدہ کو حکم دیتا ہوں کہ تم کثرت کے ساتھ لاحول ولا قوة الا باللہ پڑھا کرو۔ ان دونوں نے حکم کی تعمیل کی، کثرت سے یہ کلمہ پڑھنے لگے اس کا یہ اثر ہوا کہ جن دشمنوں نے لڑکے کو قید کر رکھا تھا وہ کسی روز ذرا غافل ہوئے لڑکا کسی طرح ان کی قید سے نکل گیا اور ان کی کچھ بکریاں ہنکا کر ساتھ لے کر اپنے والد کے پاس پہنچ گیا۔ بعض روایات میں ہے کہ ان کا ایک اونٹ ان کو مل گیا اس پر سوار ہوئے اور دوسرے اونٹوں کو ساتھ لگایا سب کو لے کر والد کے پاس پہنچے گئے، ان کے والد یہ خبر لے کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بعض روایات میں ہے کہ یہ سوال بھی کیا کہ یہ اونٹ بکریاں جو میرا لڑکا ساتھ لے آیا ہے یہ ہمارے لئے جائز و حلال ہیں یا نہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ومن یتق اللہ آلایتہ۔
اور بعض روایات میں ہے کہ عوف بن مالک اشجعی اور ان کی بیوی کو جب لڑکے کی مفارقت نے زیادہ بےچین کیا تو رسول اللہ ﷺ نے ان کو تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا اور اس میں کچھ بعد نہیں کہ تقوے کا بھی حکم دیا ہو اور بکثرت لاحول ولا قوة الخ پڑھنے کا بھی (یہ سب روایات روح المعانے میں ابن مردویہ سے من طریق الکلبی عن ابی صالح عن ابن عباس نقل کی گئی ہیں)
اس شان نزول سے بھی یہ معلوم ہوا کہ اگرچہ اس مقام پر یہ آیت طلاق سے تعلق رکھنے والے مرد و عورت کے متعلق آئی ہے مگر مفہوم اس کا عام ہے سب کے لئے شامل ہے۔
مسئلہ۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ کوئی مسلمان کفار کی قید میں میں آجائے اور وہ ان کا کچھ مال لے کر واپس آجائے تو یہ مال بحکم مال غنیمت حلال ہے اور مال غنیمت کے عام قاعدہ کے مطابق اس کا پانچواں حصہ بیت المال کو دینا بھی اس کے ذمہ نہیں جیسا کہ واقعہ حدیث میں اس مال میں سے خمس نہیں لیا گیا۔ حضرات فقہاء نے فرمایا کہ کوئی مسلمان چھپ کر بغیر اما و اجازت لئے ہوئے دارالحرب میں چلا جائے اور وہاں سے کفار کا کچھ مال چھین کر یا کسی طرح لے آئے اور دار الاسلام میں پہن جائے تو اس کا بھی یہی حکم ہے۔ لیکن جو شخص کفار سے امان اور اجازت لے کر ان کے ملک میں جائے جیسا آج کل ویزا لینے کا دستور ہے تو اس کے لئے جائز نہیں کہ ان کا کوئی مال بغیر ان کی رضامندی کے لے آئے اسی طرح جو شخص قید ہو کر ان کے ملک میں چلا جائے پھر کفار میں سے کوئی آدمی اس کے پاس کوئی امانت رکھدے تو اس امانت کا لے آنا بھی حلال نہیں، پہلی صورت میں تو اس لئے کہ امان لے کر جانے سے ایک معاہدہ ان کے درمیان ہوگیا اب بغیر ان کی رضامندی کے ان کے جان و مال میں کوئی تصرف کرنا عہد شکنی میں داخل ہے اور دوسری صورت میں بھی امانت رکھنے والے سے عملی ماہدہ ہوتا ہے کہ جب وہ مانگے گا امانت اس کو دے دیجائے گی، اب امانت واپس نہ کرنا بد عہدی اور عہد شکنی ہے جو شرعاً حرام ہے (مظہری)
رسول اللہ ﷺ کے پاس ہجرت سے پہلے بہت سے کفار اپنی امانتیں رکھدیتے تھے۔ ہجرت کے وقت آپ کے قبضہ میں ایسی کچھ امانتیں تھیں ان کو آپ اپنے ساتھ نہیں لائے بلکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اسی کام کے لئے اپنے پیچھے چھوڑا کہ وہ جس جس کی امانت ہے اس کو سپرد کردیں۔
مصائب سے نجات اور مقاصد کے حصول کا مجرب نسخہ۔ حدیث مذکور میں رسول اللہ ﷺ نے عوف بن مالک کو مصیبت سے نجات اور حصول مقصد کے لے یہ تلقین فرمائی کہ کثرت کے ساتھ لاحول ولاقوة الا باللہ پڑھا کریں۔ حضرت مجدد الف ثانی نے فرمایا کہ دینی اور دنیاوی ہر قسم کے مصائب اور مضرتوں سے بچنے اور منافع و مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے اس کلمہ کی کثرت بہت مجرب عمل ہے اور اس کثرت کی مقدار حضرت مجدد نے یہ بتلائی کہ روزانہ پانسو مرتبہ یہ کلمہ لاحول ولاقوة الا باللہ پڑھا کرے اور سو سو مرتبہ درود شریف اس کے اول و آخر میں پڑھ کر اپنے مقصد کے لئے دعا کرے (تفسیر مظہری) اور امام احمد اور حاکم بیہقی ابونعیم وغیرہ نے حضرت ابوذر سے روایت کیا ہے اور حاکم نے اس کی اسناد کو صحیح کہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک روز اس آیت وَمَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا آلایتہ کی تلاوت بار بار فرماتے رہے یہاں تک کہ مجھے نیند آنے لگی پھر فرمایا کہ اے ابوذر اگر آدمی صرف اس آیت کو اختیار کرلیں تو سب کے لئے کافی ہے (روح المعانی) کافی ہونے کی مراد ظاہر ہے کہ تمام دینی اور دنیوی مقاصد میں کامیابی کے لئے کافی ہے۔
Top