Urwatul-Wusqaa - Al-Kahf : 55
وَ مَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ یُّؤْمِنُوْۤا اِذْ جَآءَهُمُ الْهُدٰى وَ یَسْتَغْفِرُوْا رَبَّهُمْ اِلَّاۤ اَنْ تَاْتِیَهُمْ سُنَّةُ الْاَوَّلِیْنَ اَوْ یَاْتِیَهُمُ الْعَذَابُ قُبُلًا
وَمَا مَنَعَ : اور نہیں روکا النَّاسَ : لوگ اَنْ يُّؤْمِنُوْٓا : کہ وہ ایمان لائیں اِذْ جَآءَهُمُ : جب آگئی ان کے پاس الْهُدٰى : ہدایت وَيَسْتَغْفِرُوْا : اور وہ بخشش مانگیں رَبَّهُمْ : اپنا رب اِلَّآ : بجز اَنْ : یہ کہ تَاْتِيَهُمْ : ان کے پاس آئے سُنَّةُ : روش (معاملہ) الْاَوَّلِيْنَ : پہلوں کی اَوْ : یا يَاْتِيَهُمُ : آئے ان کے پاس الْعَذَابُ : عذاب قُبُلًا : سامنے کا
اور جب لوگوں کے سامنے ہدایت آگئی تو ایمان لانے اور طلبگار مغفرت ہونے سے انہیں کونسی بات روک سکتی ہے ؟ مگر یہی کہ اگلی قوموں کا معاملہ انہیں بھی پیش آجائے یا ہمارا عذاب سامنے آکھڑا ہو
ایسے لوگوں کے پاس ہدایت آنے کا کچھ فائدہ نہ ہوا ، سنت اللہ کے مطابق وہ پکڑے گئے : 58۔ (الناس) سے مراد وہی لوگ ہیں جن کا ذکر گزشتہ آیت میں گزر چکا یعنی وہی پھڈے باز اور مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم میں ان کو ہر طرح کی تنبیہات سنا دی گئیں اور ان پر کوئی چیز مخفی نہ رکھی گئی جس کو بیان نہ کیا گیا جبکہ اس کا بیان کرنا ضروری ہو لیکن جو لوگ حققتے کو سمجھنے سے گریزاں ہوں وہ کوئی نہ کوئی بہانہ تلاش کر ہی لیتے ہیں وہ ایک سوال کرتے ہیں ان کو جب اس کا ایسا جواب ملتا ہے کہ وہ اس پر کوئی مزید سوال نہیں اٹھا سکتے تو فورا ایک نیا سوال جڑ دیتے ہیں جس کا پہلے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ، غور کرو کہ اب ان کا مطالبہ کیا ہے ؟ ان کا مطالبہ یہ ہے کہ یا تو ان پر اس طرح کی تباہی پچھلی قوموں پر آئی اور جس سے قرآن کریم ڈرا رہا ہے یا کم از کم اتنا تو ہو کہ وہ اس عذاب کو سامنے آتا دیکھ لیں اور اگر دونوں باتوں میں ایک بھی نہ ہو تو وہ اس ہدایت پر ایمان لانے اور توبہ و استغفار کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ قرآن کریم ان کے سامنے آسمانی دستر خوان بچھا رہا ہے لیکن وہ قہر و عذاب آسمانی کے خواہش مند ہیں کہ وہ چلا آئے اور اتنی بات نہیں سمجھ رہے کہ اگر وہ آگیا تو ان کا دیدار کرنے کے لئے نہیں آئے گا بلکہ اس کا نتیجہ ان کی ہلاکت ہوگا اور جو ہونا ہے اگر وہ ہوجائے تو عذاب ‘ ثواب کی آخر تصدیق کون کرے گا کہ ہاں ہم نے دیکھ لیا ، جب انہوں نے گزشتہ قوموں کے عذاب کی داستا سنی تو اس میں یہ پہلو موجود نہیں تھا کہ جب وہ وقت آیا تو عذاب کے طلب کرنے والوں کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ، حالانکہ آج تک سنت اللہ تو یہی رہی ہے کہ عذاب طلب کرنے والوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا اور اب ان کے لئے اللہ اپنی سنت کو بدل دے گا ؟ بہتر ہوتا کہ وہ گزشتہ اقوام کی روداد سے فائدہ حاصل کرتے اور اللہ سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرتے تاکہ دنیا وآخرت دونوں کی خرابی سے بچ جاتے ۔
Top