Ahsan-ut-Tafaseer - Yaseen : 39
وَ الْقَمَرَ قَدَّرْنٰهُ مَنَازِلَ حَتّٰى عَادَ كَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِیْمِ
وَالْقَمَرَ : اور چاند قَدَّرْنٰهُ : ہم نے مقرر کیں اس کو مَنَازِلَ : منزلیں حَتّٰى : یہاں تک کہ عَادَ : ہوجاتا ہے كَالْعُرْجُوْنِ : کھجور کی شاخ کی طرح الْقَدِيْمِ : پرانی
اور چاند کی بھی ہم نے منزلیں مقرر کردیں یہاں تک کہ (گھٹتے گھٹتے) کھجور کی پرانی شاخ کی طرح ہوجاتا ہے
39‘ 40۔ خطیب نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت 1 ؎ کی ہے (1 ؎ مشکوۃ باب اعلامات میں یدی الساعۃ فصل اول) کہ اٹھائیس منزلیں ہیں جن کے اندر چاند ہر مہینے پر آتا ہے جب ان سب منزلوں کو چاند طے کر چکتا ہے تو پھر پرانی ٹہنی کی صورت میں اس طرح ہوجاتا ہے جس طرح اول مہینے میں تھا چاند کی اس چال سے مہینوں کا حساب سمجھا جاتا ہے اور پھر برسوں کا جس طرح کہ سورج سے رات اور دن کی پہچان ہوتی ہے۔ یہ خطیب بغدادی ابوبکر احمد بن علی ملک شام کے معتبر اور مشہور علماء میں ہیں ان کے وقت کے علماء ان کو دار قطنی ثانی کہا کرتے تھے ان کی وفات کے بعد اس وقت کے بعضے علماء نے خواب میں دیکھا کہ ان کی تصنیف کی بعض کتابیں آنحضرت ﷺ نے پڑ ھوا کر ان سے سنیں۔ پھر فرمایا کہ سورج کو نہیں لائق ہے کہ پکڑے چاند کو مطلب یہ ہے کہ چاند کی چال سے سورج کی چال کم ہے اس لیے سورج چاند کو پکڑ نہیں سکتا اور رات بھی دن سے آگے بڑھنے والی نہیں ہے یہ نہیں ہوسکتا کہ دن تو آوے نہیں اور دوسری رات شروع ہوجاوے ان کے لیے یہی ایک حد اللہ نے ٹھہرا دی ہے کہ اس سے تجاوز نہیں کرسکتے اور رات دن تیزی کے ساتھ ایک دوسرے کی طلب میں مشغول ہے اور پیچھے لگا آتا ہے غرض کہ رات اور دن اور سورج اور چاند سب کے سب الگ گھیرے میں آسمان اور زمین کے بیچ میں دوڑتے ہوئے پھرتے ہیں معلوم ہوا کہ ستارے خود چلتے ہیں یہ بات نہیں ہے کہ وہ آسمان میں گڑے ہوئے ہیں اور فقط آسمان چلتا ہے جیسا کہ لفظ یسبحون سے جس کے معنے پھرنے کے ہیں سمجھا جاتا ہے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اور عکرمہ وغیرہ بھی یہی کہتے ہیں کہ سب دور کرتے رہتے ہیں ایک گھیرے میں۔ صحیح مسلم میں نواس ؓ بن سمعان سے روایت 1 ؎ ہے (1 ؎ مشکوۃ باب العلامات میں یدی الساعۃ فصل اول۔ ) جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا دجال زمین پر چالیس دن رہے گا جب میں ایک دن ایک برس کا ہوگا اور دوسرا ایک مہینہ کا اور تیسیرا ایک ہفتہ کا اور باقی کے دن معمولی ہوں گے یہ بات سن کر صحابہ ؓ نے پوچھا کہ ایک برس کے دن کی نمازیں اسی قدر کافی ہوں گی جو ایک دن میں کافی ہوسکتی ہیں آپ ﷺ نے فرمایا نہیں حساب کر کے برس روز کی نماز اس دن پڑھنی چاہیں ‘ اس سے معلوم ہوا کہ ان بڑے دن میں راتیں بھی شامل ہیں اس لیے رات دن کے اندازہ سے اللہ کے رسول ﷺ نے برس دن کی نمازوں کا حکم اس ایک دن کے لیے فرمایا یہ نو اس بن سمعان شامی صحابہ میں ہیں اس حدیث کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ سورج اور چاند اور رات دن کے جس انتظام کا ان آیتوں میں ذکر ہے وہ انتظام دجال کے زمانہ میں تین دن کے لیے اللہ کے حکم سے پلٹ جاویگا کل فی فلک یسجون سے اہل ہیت کے اس قول کا ضعیف ہونا نکلتا ہے کہ سورج آسمان میں چڑھا ہوا ہے آسمان کے پھرنے سے وہ بھی پھرتا ہے خود نہیں پھرتا ‘ عرجون کھجور کی اس ٹہنی کو کہتے ہیں جس میں چھوٹی چھوٹی بھل دار شاخیں لگی ہوتی ہیں یہ ٹہنی پرانی ہو کر زرد اور خمدار ہوجاتا ہے اور چاند بھی آخر مہینہ پر ایسا ہی ہوجاتا ہے اس لیے آخر مہینہ کے چاند کو کھجور کی پرانی ٹہنی کے مشابہ فرمایا۔
Top